توانائی

رائے: پاکستان کا دیامر بھاشا ڈیم نہ توگرین ہے اور نہ ہی کم قیمت

پاکستان ہائیڈرو پاور کے ساتھ اپنے توانائی کے شعبے کو کم لاگت میں 'گرین' بنانے کے لئے کوشاں ہے لیکن یہاں تازہ ترین تحقیق کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑے ڈیموں کی تاریخ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اردو
<p>دیامر بھاشا پروجیکٹ کے مقام پر واٹر ماڈلنگ کے ماہر اصغر حسین (تصویر بشکریہ  حسن عباس) </p>

دیامر بھاشا پروجیکٹ کے مقام پر واٹر ماڈلنگ کے ماہر اصغر حسین (تصویر بشکریہ حسن عباس)

حکومت پاکستان کے لیے، دیامر بھاشا ڈیم ملک کے سبز توانائی کے مستقبل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جس میں ہائیڈرو پاور اپنی تازہ ترین نیشنلی ڈیٹرمنڈ کونتریبیوشن کے تحت نمایاں کردار ادا کررہی ہے- 

 میگا واٹ کے پلانٹ کی تعمیر جون 2020 میں شروع ہوئی، جس کی تکمیل کا تخمینہ 14 بلین امریکی ڈالر ہے۔ یہ 2027 تک مکمل ہونا ہے۔  پاکستان کا پہلا گرین بانڈ ڈیم کی فنڈنگ کے لیے جاری کیا گیا، جس سے مئی 2021 تک غیر ملکی سرمایہ کاروں سے 500 ملین امریکی ڈالر اکٹھے کیے گئے۔ اگست 2021 میں، تربیلا ڈیم کے پانچویں توسیعی منصوبے کے لیے سنگ بنیاد کی تقریب کے دوران ایک تقریر میں، پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں پن بجلی کے کردار پر زور دیا۔  پھر بھی ماحولیاتی اور مالیاتی دونوں طرح کی لاگت کا باریکی سے جائزہ ان توقعات کے برعکس تصویر پیش کرتا ہے کہ ڈیم سستی، سبز بجلی فراہم کرے گا۔ 

دیامیر بھاشا کی کاربن لاگت 

دیامر بھاشا ریزروائر کا رقبہ 200 مربع کلومیٹر ہوگا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً 12 ملین ٹن سٹیل اور 22 ملین کیوبک میٹر کنکریٹ کی ضرورت ہے۔ کنکریٹ بنانے میں  کاربن کا استعمال بہت زیادہ ہے: عالمی سطح پر، کاربن ڈائی آکسائڈ  کے اخراج میں سیمنٹ کی پیداوار کا %8 حصہ ہے۔

دنیا بھر میں 1,473 ڈیموں کے اعداد و شمار پر مبنی 2016 کے ایک پیپر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ پن بجلی سے پیدا ہونے والی توانائی کا اوسطاً ایک میگا واٹ گھنٹہ  ( ایم ڈبلیو ایچ)  273 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ  ایکویلینٹ پیدا کرتا ہے۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائڈ  اور میتھین دونوں کا اخراج شامل ہے ” جو ایسے نامیاتی مادے  کے گلنے سے پیدا ہوتی ہیں جو ریزروائرکی تعمیر کے دوران بہہ کرآسکتے ہیں، یا دریا کے بہاؤ کے ذریعہ آبی ذخائر میں داخل ہوسکتے ہیں، آبی ذخائر میں اگنے  والی کائی یا پودے ہیں، پانی میں مردہ درختوں کی ٹہنیاں، یا  پانی کی سطح میں کمی بیشی کی وجہ سے نئے بننے والی دلدل میں اگنے والے پودے ہیں-” میتھین کیپچر کے ذریعہ ، ہائیڈرو پاور کا اوسط کاربن فوٹ پرنٹ 173 کلوگرام تک کم ہو جاتا ہے۔ تاہم دیامر بھاشا پراجیکٹ میں میتھین کیپچر کے لیے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ 

اس کے بعد اسٹیل کی کاربن لاگت ہے، جو ہر ٹن اسٹیل کے لیے 1.85 ٹن  کاربن ڈائی آکسائڈ ایکویلنٹ پیدا کرتی ہے۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق، کوئلے کو جلانے سے پیدا ہونے والی 1 میگاواٹ آوور توانائی تقریباً 300 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائڈ ایکویلنٹ خارج کرتی ہے۔ (چونکہ تھرمل توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے میں  نقصان ناگزیر ہے، قابل استعمال بجلی کے فی میگاواٹ-گھنٹہ پیداوار کے لئے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائڈ کی اصل مقدار زیادہ ہوگی)۔ دیامر بھاشا پراجیکٹ میں میتھین کیپچر کی کمی کو دیکھتے ہوئے، ہمارا اندازہ ہے کہ اپنے پہلے 30 سال کے آپریشنز میں ڈیم کا کاربن فوٹ پرنٹ تقریباً اتنا ہی زیادہ ہوگا جتنا کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے کوئلہ پلانٹ کا، یعنی 321 کاربن ڈائی آکسائڈ  میگا واٹ فی گھنٹہ۔

دیامر بھاشا ڈیم کا کاربن فوٹ پرنٹ اب بھی زیادہ ہوسکتا ہے اگر ماحولیاتی نظام کی خدمات کے نقصان کو بھی شامل کیا جائے۔

پانی کی بڑی مقدار کو روکے جانے سے انڈس ڈیلٹا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ یہ سمندری پانی کے ساحل  سے بہت زیادہ آگے تجاوزات کا باعث بنے گا- یہ خاص طور پر مینگروو کے جنگلات کے لیے نقصان دہ ہوگا- انڈس ڈیلٹا میں، مینگروو کے جنگلات پہ محیط علاقہ 1950 میں 380,000 ہیکٹر سے گھٹ کر 2005 تک 87,000 ہیکٹر رہ گیا۔ اس دوران سندھ طاس میں پانچ بڑے ڈیم بنائے گئے۔ مینگرووز کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ کاربن سے بھرپور درختوں میں ہوتا ہے، اور ان کی کٹائی، جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ہونے والے تمام اخراج کا 10% ہے، حالانکہ وہ کل درختوں کا 0.7% ہیں۔ 

Project site of the Diamer Bhasher hydropower plant, Pakistan, Asghar Hussain
 دیامر بھاشیر ہائیڈرو پاور پلانٹ کی پروجیکٹ سائٹ (تصویر بشکریہ  اصغر حسین)

یہ معاشی حل نہیں 

دیامر بھاشا پروجیکٹ کو “سستا” بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پاکستان اور خطے میں ڈیموں کے لیے قرضوں کی تاریخ کو اور ساتھ ہی ساتھ لاگت اور وقت کی زیادتی کو نظر انداز کردیا گیا ہے- 65 ممالک میں 245 بڑے ڈیموں پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بڑے ڈیم کی لاگت پر اوسط زیاں 96 فیصد ہے، جس میں اوسط وقت کا زیاں 44 فیصد ہے۔ 

پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر تربیلا ڈیم کی لاگت اپنے ابتدائی تخمینوں سے 300 فیصد زیادہ تھی اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کی لاگت 500 فیصد سے زیادہ تھی- دیامر بھاشا پہلے سے ہی وقت اور لاگت کے زیاں سے دوچار ہے: منصوبے پر کام شروع ہونے کے پہلے سال کے اندر اس کی لاگت  174 بلین روپے  ( 1 بلین امریکی ڈالر ) بڑھ گئی۔ 

ایک نجی گفتگو میں ہمیں بتایا گیا کہ مین ڈیم پر بجلی کی فراہمی کے لیے ایک ذیلی سہولت، 20 میگاواٹ کا تنجیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ایک سال کے اندر شیڈول سے چھ ماہ پیچھے چلا گیا ہے۔ اگر دیامر بھاشا پراجیکٹ اسی طرح کی ٹائم لائن کی پیروی کرتا ہے اور اس کی لاگت دنیا بھر کے بڑے ڈیموں یا پاکستان کے پچھلے بڑے ڈیموں کے  96 فیصد زیاں کے  برابر ہے، یہ حقیقت پسندانہ طور پر 2035 میں مکمل ہوگا، جس کی کل لاگت ابتدائی 14 بلین امریکی ڈالر تخمینے کے بجاۓ 28 بلین امریکی ڈالر ہوگی۔ چونکہ پروجیکٹ کی فنانسنگ اور کیش فلو کی تفصیلات عوام کے لیے قابل رسائی نہیں ہیں، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ  پچھلے منصوبوں کے لیے فنڈنگ کے تناسب کے مطابق 20 بلین امریکی ڈالر تک کی فنانسنگ غیر ملکی کرنسی میں قرضوں کے ذریعے ہوگی۔ بیرونی اخراجات کا تخمینہ لگانے کی خاطر، ہم تمام غیر ملکی کرنسی کے قرضوں کو 5% سود پر ایک امارٹائزیشن شیڈول کے تحت یکجا کر دیتے ہیں۔ (یہ پاکستان کے گرین یورو بانڈ پر 7.5 فیصد سود کی شرح، یا 2020 میں پاکستان میں سرکاری اور نجی اداروں کی طرف سے قرض دینے کے لیے اوسط شرح سود، 10.8 فیصد سے بہت کم ہے)۔

ہم 15 سال کی رعایتی مدت (تعمیراتی مرحلے کے لیے) فرض کرتے ہیں، جس کے دوران قرضدار کو مساوی سالانہ اقساط پر قرض ملتا ہے، جبکہ قرض دہندہ کو صرف جمع شدہ سود کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ رعایتی مدت کے بعد، پرنسپل اور سود دونوں ادا کیے جاتے ہیں – پرنسپل مساوی قسطوں میں اور سود 30 سالوں میں صفر تک پہنچ جاتا ہے۔ 

70 بلین امریکی ڈالر

دیامر بھاشا ہائیڈرو پاور پلانٹ کی بیرونی اخراجات ملا کر ممکنہ مجموعی لاگت-

اس کے مقابلے میں حالیہ غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے حقیقی شرائط زیادہ سخت تھیں- اسے ایشیائی ترقیاتی بینک نے چھ سال کی رعایتی مدت، 25 سال کی میچورٹی، 1% سالانہ سروس چارجز اور 14% سالانہ شرح سود کے ساتھ فنانس کیا تھا۔ لہٰذا ہمارے دیامر بھشر کے تجزیے کے لیے قرض کے معاملات، قرض لینے والے کے لیے بہت سہل سمجھے جا سکتے ہیں: کم سود، طویل ٹائم لائن اور خاطرخواہ رعایتی مدت۔ لیکن ممکنہ طور پر سہل انتظامات کے باوجود، اس منصوبے کی فنانسنگ کی بیرونی لاگت 29 بلین امریکی ڈالر کے قریب ہوگی۔ 

مزید یہ کہ، کاربن کی سماجی قیمت (ایس سی سی ) بھی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائڈ  کے اخراج سے ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ ہے۔ 

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اندازے کے مطابق  امریکہ میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے فی ٹن کاربن کی سماجی قیمت 2020 کے لیے 6.8-80  امریکی ڈالر تھی۔ جبکہ پاکستان کے لیے سماجی قیمت کا تخمینہ نہیں لگایا گیا ہے، ایک اندازے کے مطابق دیامر بھاشا پراجیکٹ سے 30 سال کے آپریشن میں 170 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ  پیدا ہونے سےسوسائٹی کو مزید 1-13 بلین امریکی ڈالر لاگت آسکتی ہے۔  واضح رہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی آفات کا امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرہ ہے، اور یہ کہ سماجی قیمت  وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہے گی ، یعنی دیامر بھاشا پراجیکٹ کے مکمل ہونے تک یہ بہت زیادہ ہو جائے گی- 

براہ راست اخراجات، فنانسنگ کے اخراجات اور سماجی قیمت کو ملانے سے سوسائٹی پر دیامر بھاشا کی مجموعی لاگت 70 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس سے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے 4.11 روپے ( 0.024امریکی ڈالر ) فی کلو واٹ گھنٹے کے مقرر کردہ موجودہ ٹیرف کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ صرف 30 سالوں تک بھی پہنچنے کے لیے، ٹیرف کو  22.00  روپے پر رکھنا پڑے گا (بیرونی اخراجات  کو مدنظر رکھے بغیر)۔

دیگر قابل تجدید ذرائع 

اگر حقیقی اعداد و شمار کیے جائیں اور اس منصوبے میں بیرونی اخراجات کا اضافہ کیا جائے تو دیامر بھاشیر قومی معیشت کا محرک تو دور کی بات  کبھی خرچ کے برابر آمدن بھی پورا نہیں کر پاۓ گا- موجودہ حکومت کے ڈیم بنانے کے پروگرام کو ’’ڈیموں کی دہائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے، آبی وسائل کے وزیر مونس الٰہی نے اس نعرے کو دہرایا، ان منصوبوں کا ذکر کیا جو زیر تعمیر ہیں اور منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ 

پیرس معاہدے کے لیے پاکستان کی وابستگی کے طور پر پن بجلی کا استعمال ایک اہم مسئلہ ہے، جیسا کہ دیگر ممالک جیسے چین اور بھارت کی طرف سے خطے میں بڑے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ لیکن کم از کم چین اور ہندوستان نے 2030 تک بڑے سولر پلس اسٹوریج پروجیکٹس لگانے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے عزائم معمولی ہیں۔ جب تک کہ اسے پن بجلی کی حقیقی قیمت کا ادراک نہیں ہوتا، یہ قابل تجدید ذرائع کے شعبے میں بہتر مواقع سے لاعلم  رہے گا۔