آب و ہوا

رائے: مقامی علم کے ساتھ کام کرنا ہی پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کا واحد طریقہ ہے

دانش مصطفیٰ لکھتے ہیں کہ لوگوں کو ہر سطح پر شامل ہونا ہوگا، ابتدائی وارننگ سسٹم سے لے کر نکاسی آب تک اور گورننس تک
اردو
<p>چارسدہ، پاکستان کے رہائشی اس اگست میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں اپنی املاک منتقل کر رہے ہیں، اس سیلاب سے 30 ملین سےزائد لوگ بے گھر ہو گئے (تصویر بشکریہ  اویس اسلم علی/الامی)</p>

چارسدہ، پاکستان کے رہائشی اس اگست میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں اپنی املاک منتقل کر رہے ہیں، اس سیلاب سے 30 ملین سےزائد لوگ بے گھر ہو گئے (تصویر بشکریہ  اویس اسلم علی/الامی)

ایڈیٹر نوٹ: دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان کے وجود کے لئے ضروری ہیں۔ برطانوی انجینئروں نے 1840 کی دہائی میں زیریں سندھ میں دنیا کا سب سے بڑا نہری آبپاشی کا نظام بنایا۔ بہت سے مزید ڈیم، بیراج، ویرز اور نہریں، 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد تعمیر کی گئیں۔ نتیجتاً، دریا کا بہاؤ اس قدر منقطع ہو گیا کہ دریائے سندھ کئی سالوں تک سمندر تک نہ پہنچ سکا۔

اس کے بعد 2010 کا تباہ کن سیلاب آیا، جس میں تقریباً 2000 اموات ہوئیں اور ساتھ یہ بھی پتا چل گیا کہ دریائے سندھ کے ساتھ چلنے والا ترقیاتی ماڈل کتنا غیر پائیدار تھا۔ سیلاب کے مہینوں بعد، معروف جغرافیہ دان دانش مصطفی اور ممکنہ خطروں اور نقصانات کے  نامور تجزیہ کار ڈیوڈ ریتھل نے پاکستان میں مروجہ ترقیاتی ماڈل اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو اس ماڈل نے کس طرح بڑھایا اس پر تفصیلی تنقید کی۔  دی تھرڈ پول میں شائع ہونے والی ان کی تین حصوں کی سیریز یہاں، یہاں اور یہاں پڑھیں۔

مصطفیٰ اب پاکستان کے تباہ کن 2022 کے سیلاب کے تناظر میں ایک نئی دو حصوں کی سیریز کے ساتھ اس موضوع پر نظرثانی کررہے ہیں، اور پالیسی سازوں سے پانی پر نوآبادیاتی ذہنیت سے دور ہونےکی شدّت سے درخواست کررہے ہیں۔

پاکستان 2022 میں جس قسم کے سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے ان کے اثرات کو غیرآبادکار آبی تناظر اور پریکٹس کیسے کم کریں گے؟ اگر پانی کی غیر آبادکاری سے مراد مقامی اور دیسی سطح پر  پانی سے وابستہ متعدد پرتی معنوں اور پریکٹس کی تجدید ہے تو ہمیں ڈیموں اور میگا انفراسٹرکچر پراجیکٹس کے جنون سے آگے بڑھنا ہوگا۔

پاکستانی آبی منتظمین  ( دنیا کے بیشتر جنوبی علاقوں میں اپنے ہم منصبین کی طرح ) میگا پروجیکٹیوائٹس کے شدید کیس میں مبتلا ہیں، ایک  مہلک بیماری جو جدیدیت اور نوآبادیاتی سوچ اور طریقوں سے اندھی وابستگی کی وجہ سے لاحق ہے۔ سندھ طاس میں انفراسٹرکچر بشمول ڈیم، بیراج، نہریں اور لیویز، کی وسیع پیمانے پر تعمیرات نے طاس کے دریاؤں میں  سیلاب کو بڑھاوا دینے کا کام کیا ہے۔ نوآبادیاتی انجینئرنگ کے ماڈل نے ماحولیاتی طور پر فائدہ مند زیادہ فریکوئنسی اور کم شدت والے واقعات کو کم فریکوئنسی اور زیادہ شدت والے واقعات سے تبدیل کردیا جس نے وہ تباہی پھیلائی جسکا آج ہم پاکستان میں مشاہدہ کررہے ہیں۔

  ذیل میں کچھ نکات پیش ہیں کہ پاکستان میں سیلاب کے انتظام کے لئے غیر آبادکار پانی کا کیا طریقہ کار ہوگا

پاکستان میں یا کہیں بھی سیلاب کے انتظام کے لئے  پہلی اور اوّلین ترجیح قابل اعتبار، قابل عمل، قابل فہم اور درست (جہاں تک ممکن ہو) قبل از وقت وارننگ ہونی چاہیے۔ نوآبادیاتی پانی کا نقطہ نظر ماڈلز کی درستگی کو ترجیح دے گا۔ جبکہ ایک غیر نوآبادیاتی نقطہ نظر ان باتوں پر زور دے گا:

  • انتباہ کی ساکھ کے لئے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور معلومات کے تبادلے میں اسکولوں اور سول سوسائٹی کے ذریعے مقامی کمیونٹیز کو شامل کیا جاۓ۔ انتباہی نظام پیشین گوئی اور تجرباتی موسمیات کے مقامی طریقوں سے بھی سیکھے گا۔
  • قابل عمل عملیت کے لئے، مقامی کمیونٹیز کو خطرے کے جائزوں اور سیلاب کے میدان کی نقشہ سازی میں شامل کیا جاۓ  تاکہ کئی رخی صنفی حرکیات پر خاص توجہ دیتے ہوۓ یہ چارٹ کیا جا سکے کہ ہنگامی صورت حال میں کون کیا اقدام کر سکتا ہے۔
  • قابل فہمی، ایک بار پھربروقت انتباہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوۓ پیشہ وارانہ اصطلاحات سے پاک مقامی زبانوں میں وارننگ نظام بنایا جاۓ جو خاص طور سے خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز کے لئے آسانی سے قابل فہم۔

دریا کے کناروں پر رہنے والوں کی سنیں

دوسری ترجیح نکاسی ہونی چاہیے- ہر کاشتکار حتیٰ کہ مقامی بچہ بھی جانتا ہے کہ پانی کس سمت میں بہتا ہے- ان کی بات سنی جائے اور آبی گزرگاہوں کی قدرتی نکاسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ اس سے نہ صرف سیلاب کی شدت کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ طغیانی کا دورانیہ بھی۔ سڑکوں، ریلوے لائنوں اور نہروں جیسے ضروری بنیادی ڈھانچے میں قدرتی نکاسی آب کی سہولت کے لئے  پل اور/یا سائفنز ہونے چاہئیں۔

تیسرا، سیلابی میدانوں پر رئیل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری  بشمول ہاؤسنگ سوسائٹیز، ہوٹلوں، ایکسپریس ویز وغیرہ کو منسوخ کریں اور روکیں۔ سیلابی میدانوں کا بہترین استعمال پارک۔ اور انہی خطوط پر براہ مہربانی دریاؤں کو کچھ ویٹ لینڈ واپس کردیں- طغیانی کو معتدل رکھنے کے لئے ویٹ لینڈ سے بہتر کسی حل کی امید نہیں کی جاسکتی- اس کے علاوہ، زیر زمین پانی کے ریچارج، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور کاربن کے حصول کے لحاظ سے ویٹ لینڈ کے متعدد ماحولیاتی فوائد ہیں۔

چوتھا، کمیونٹیز کے ساتھ مشاورت سے متعلقہ دریائی میدانی آبادیوں کے لئے خطرے کی نقشہ سازی کی مشقیں کریں۔ غیر غیر محفوظ گھرانوں اور کمیونٹی کے پیٹرن جاننے سے بعد از سیلاب ضرورت مندوں کے لئے ریلیف اور ریکوری کی امداد کے اہداف کا تعین کرنے میں مدد ملے گی بجاۓ اس کے کہ نامناسب امداد کے ساتھ مارے مارے پھرنے کی معمول کی مشق کی ہو- یہ کچھ موجودہ خطرے کی تشخیص کے اشاریوں کا استعمال کرتے ہوئے آسانی سے کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر پاکستان کے آبپاشی یا محصولات کے محکمے، جن کا ملک میں مقامی سطح پر سب سے زیادہ دخل ہے۔

پانچویں، مقامی کمیونٹیز کی مدد کریں کہ وہ اپنے موجودہ سیلاب موافق اقدامات کو مزید بہتر کرسکیں، مثال کے طور پر بلند پلیٹ فارمز پر گھروں اور جانوروں کےاحاطے بنانا۔ ان لوگوں کے لئے جو ان پناہ گاہوں کی تعمیر کے متحمل نہیں ہیں، ریاست کو انسانی اور جانوروں کے لئے سہل مقامات پر پناہ گاہیں مہیا کرنی چاہئیں۔ دیہی جنوبی ایشیا میں، لوگ اپنے جانوروں کے بغیر  انخلا نہیں کریں گے۔

غیرمرکزی گورننس ضروری ہے

چھٹا گورننس کو لوکل گورنمنٹ کی شکل میں غیر مرکزی بنایا جاۓ۔ ڈی-فیکٹو فیڈرل لیکن ڈی-جیور مرکزی پاکستانی ریاست  سیلاب متاثرین کو بے یارومددگار سمجھتی ہے جنہیں مرکزی حکومت کی امداد کی ضرورت ہے۔ جسکا حقیقت سے دور تک تعلق نہیں۔ لوگ اور کمیونٹیز اکٹھے ہوتے ہیں، اور امداد کا پہلا ذریعہ ہمیشہ مقامی ہوتا ہے۔ جمہوری، بااختیار مقامی حکومتوں کے ساتھ کام کریں جو سیلاب کے انتظام اور ریلیف کے لیے اپنے اردگرد کے حالات کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ نوآبادیاتی بیوروکریسی کے ذریعے جاری کمانڈ اینڈ کنٹرول کا طریقہ کار غیر فعال ہے۔

ساتویں، امداد کے وصول کنندگان اور منتظمین کے طور پر خواتین، صنفی اقلیتوں اور پسماندہ کمیونٹیز کو ترجیح دیں۔ امدادی امداد کی تقسیم میں پدرشاہیت  اخلاقیات صرف خواتین، بچوں اور انتہائی ضرورت مندوں کو مزید پسماندہ کرنے کا کام کرتی ہیں۔ خواتین کی طاقتوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوۓ، ان کے ذریعے ضرورتوں کو بیان کرنے اور امداد کی فراہمی ممکن بنائیں۔

ایسی نئی نصابی کتابیں تلاش کریں جو مردہ سفید فام مردوں نے نہ لکھی ہوں

آٹھویں، پاکستان کے اسکولوں کے نصاب میں جغرافیہ اور ماحولیاتی علوم کو دوبارہ متعارف کروائیں۔ ان مضامین کی چالیس سالہ عدم موجودگی میں پاکستان اسٹڈیز کے نام پر متبادل جعلی تاریخ  نے مزید کوئی محب وطن یا روشن خیال شہری پیدا نہیں کیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے ایسے لوگوں کو پیدا کیا جو ملک کو درپیش چیلنجز سے لاعلم ہیں۔اسکول اور اس سے آگے غیر نوآبادیاتی ماحولیاتی حساسیت کا کلچر تیار کریں۔

ثانوی خطرات پر توجہ دیں

نواں، کسی ایک خطرے پر توجہ مرکوز نہ رکھیں۔  سیلاب جیسے تمام خطرات کے ساتھ ثانوی اور متواتر خطرات  وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر، کراچی میں سیلاب کے دوران ہونے والی زیادہ تر اموات بجلی کے ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے کرنٹ لگنے سے ہوتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں لوگ سانپ کے کاٹنے اور پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے مرتے ہیں۔  ثانوی مقامی خطرات پر دھیان دیں اور ان کی منصوبہ بندی کریں جو حقیقت میں لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ سیلاب خود بخود شاذ و نادر ہی اتنا براہ راست نقصان پہنچاتے ہیں جتنا کہ ان کے ثانوی نتائج۔

آخر میں، اور سب سے اہم، مندرجہ بالا تمام باتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ: کچھ نئی نصابی کتابیں تلاش کریں جو مردہ سفید فاموں نے نہیں لکھی ہیں، لیکن درحقیقت جدید سائنس کی بصیرت کو تجرباتی مقامی ماحولیاتی علم اور کائناتی علوم کے ساتھ ملائیں۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ پاکستانی عوام اپنی زمین اور پانی کے مالک ہیں اور اس کے سب سے بڑے محافظ اور علمبردار ہیں۔ ان کی حکمت سے استفادہ کریں۔ آپ کو بس تھوڑی عاجزی اور نوآبادیاتی ذہنیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا کے بدلتے ہوئے حالات میں غیرآبادکار پانی ہی آگے بڑھنے کی واحد امید ہے۔

یہ سلسلہ  ڈیکولونایزنگ جیوگرافی کے ماہرین تعلیم کے ساتھ بات چیت سے شروع کیا گیا تھا اور  پہلے  ویب سائٹ  decolonisegeography.com پر شائع کیا گیا تھا۔

مترجم: ناہید اسرار