icon/64x64/livelihoods ذریعہ معاش

کراچی کی ساحلی پٹی پہ تعمیری سرگرمی ماحولیاتی نظام اور لوگوں کے ذریعہ معاش پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہے

دی تھرڈ پول کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی کچھ مہنگی ترین رئیل اسٹیٹس کی تعمیر میں جلد بازی کی وجہ سے ماحولیاتی نظام اور ذریعہ معاش برباد ہورہے ہیں، اور تباہی کا خطرہ بڑھ رہا ہے

 

لوگ کراچی کے سی ویو ساحل پر کرکٹ کھیل رہے ہیں، جس کے پس منظر میں ہائپر اسٹار شاپنگ مال اور زیر تعمیر عمارتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہاں سے ساحل کے ساتھ ہی فیز 8 ہے، جو پاکستان کی ملٹری ہاؤسنگ اتھارٹی کا ایک بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے۔ (تصویر بشکریہ اختر سومرو/الامی )

یہ ماہ رمضان میں اپریل کی ایک روشن اور مرطوب شام ہے۔ مسلم اسحاق دن بھر ماہی گیری کے بعد ابھی ابراہیم حیدری میں جیٹی پر واپس آۓ ہیں اور اپنی کشتی باندھ رہے ہیں۔ وہ اور ان کا عملہ صبح 4 بجے جنوبی پاکستان کے ساحلی ضلع کورنگی کے چھوٹے سے گاؤں سے روانہ ہوتا ہے، جہاں زیادہ تر خاندانوں کا انحصار ماہی گیری پر ہے۔

اسحاق کی کشتی میں صرف 700 کلو گرام کے قریب جیلی فش تھی۔ 

آٹھ گھنٹے تک سمندر میں رہنے کے باوجود اسحاق اور ان کے عملے کے تین ارکان کوئی کام کی چیز پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور وہ مایوس نظر آرہے تھے۔ اس سے بھی بدتر، انکا کہنا تھا کہ یہ اب  روز کا معمول بن گیا ہے۔

ماہی گیر مسلم اسحاق وہ مشکلات بیان کر رہے ہیں جن کا انہیں اب سامنا ہے (ویڈیو: انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

کورنگی سے دریا، ندیاں اورنہریں بہتی ہیں اور ضلع اکثر سیلابوں کی زد میں رہتا ہے۔ یہاں زندگی کی تمام تر مشکلات کے باوجود ماہی گیروں کو یاد نہیں پڑتا کہ کبھی انہوں نے جیلی فش پکڑنے پر اکتفاء کیا ہو۔

اسحاق کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں جیلی فش تقریباً 30 پاکستانی روپے فی کلوگرام (تقریباً 0.15 امریکی ڈالر) میں فروخت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں، سب سے سستی ترین مچھلی کم از کم  500 روپے فی کلوگرام (2.30 امریکی ڈالر) میں فروخت ہوتی ہے۔

Fishers in Ibrahim Hyderi village, near Karachi, load the day’s jellyfish catch onto a truck for transportation to the local market
 
ابراہیم حیدری گاؤں میں ماہی گیر دن بھر کی مشقت سے پکڑی گئی جیلی فش کو مقامی بازار میں لے جانے کے  لئے ٹرک پر لاد رہے ہیں (تصویر بشکریہ انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

“کچھ دہائیوں پہلے، ماہی گیر جیلی فش پکڑنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے،” اسحاق کہتے ہیں۔ “یہ سب سے بیکار چیز تھی۔ اب ہمارے پاس سمندر کے اس حصے میں کوئی اور مچھلی دستیاب نہیں ہے۔ لیکن شکر ہے کہ چین سے جیلی فش کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔”

گزشتہ 40 سالوں میں کراچی تیزی سے اربنائز ہوا ہے، اور اس کے ساحل کے ایک بہت بڑے علاقہ میں ترقیاتی کام ہوا ہے۔  ماہی گیروں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ 1980 کی دہائی میں انہوں نے پہلی بار دیکھا کہ ساحلی پٹی کے حصے چٹانوں، کنکریوں اور ریت سے بھرے جا رہے ہیں، لگژری ہاؤسنگ، گولف ریزورٹس اور تفریحی مقامات کی تعمیر کے لئے سمندر سے زمین نکالی گئی۔ 

سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جگہوں میں سے ایک علاقہ گزری کریک ہے، یہ ایک سمندری راستہ ہے جو کبھی کراچی کے ارد گرد مینگروو کے جنگلات کے ایک منفرد ویٹ لینڈ ماحولیاتی نظام کا حصہ تھا۔  پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سینئر ریسرچ آفیسر ابراہیم ضیا نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 1986 میں یہ واٹر چینل تقریباً 14 مربع کلومیٹر پر محیط تھا۔ ضیاء کے حساب سے یہ سکڑ کر 11 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی ملٹری کی زیرملکیت رئیل اسٹیٹ ڈویلپر، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے تعمیراتی کاموں کے لئے آبی گزرگاہ سے 500 سے زائد فٹ بال کے میدانوں کے برابر علاقہ لیا گیا ہے۔

 
کراچی کی 1987 سے 2020 تک کی سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ ڈی ایچ اے کے فیز 8 کی تعمیر کےلئے کس حد تک لینڈ ریکلیم کیا گیا ہے ( تصاویر بشکریہ  گوگل ارتھ، لینڈ سیٹ/کوپرنیکس)

کراچی میں ڈی ایچ اے کے بنائے گئے محلے اب پاکستان کے سب سے بڑے اور مہنگے شہر میں رہائش کے لئے مہنگے ترین مقامات ہیں۔ تعمیرات کا یہ جنون نہ صرف سمندری ماحولیاتی نظام اور مقامی ذریعہ معاش کو متاثر کر رہا ہے بلکہ مون سون کے سیلاب کی بھی وجہ بن رہا ہے، شہر کے مکینوں کے لئے سطح سمندر میں اضافے کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور کراچی کی ساحلی پٹی کے اس حصے میں تلچھٹ کی تقسیم تبدیل ہو رہی ہے۔ 

لینڈ ریکلیمیشن (سمندری زمین کی بھرائی) کے چالیس سال

محمد ضیاء الحق نے، جو اس وقت ایک فوجی آمر کے طور پر پاکستان پر حکومت کر رہے تھے، 1980 میں کراچی میں 50 مربع کلومیٹر سے زیادہ پھیلے ہوئے علاقے میں ڈی ایچ اے  بنانے کا صدارتی حکم جاری کیا۔ اس کی ماسٹر پلاننگ کے اختیارات بھی  ڈی ایچ اے کو دیۓ گۓ۔ 

ڈی ایچ اے کے تعمیراتی کام اس وقت تک تشویش کا باعث نہیں تھے جب تک اس نے 2007 میں فیز 8 پر کام شروع نہیں کیا۔ اس علاقے میں تعمیرات بحیرہ عرب اور گزری کریک سے منسلک تقریباً 20 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں، جو پیچیدہ ساحلی دلدلی علاقے کی وجہ سے ڈی ایچ اے کے اصل ماسٹر پلان کا حصہ نہیں تھی۔

گزری کریک اور بحیرہ عرب سے جڑی ڈی ایچ اے کے فیز 8 کی تعمیرات ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں  (گرافک:  دی تھرڈ پول )

فیز8 تعمیر کے مختلف مراحل میں متعدد پروجیکٹس پر مشتمل ہے۔ اب تک یہاں سڑکیں، سینما، ہسپتال، سکول، کلب اور شادی ہال تعمیر ہو چکے ہیں، لیکن زمین کا ایک بڑا رقبہ ابھی تک خالی پڑا ہے۔

موجودہ تعمیر کا زیادہ تر کام بحیرہ عرب اور گزری کریک کے کنارے پر ریکلیمڈ لینڈ پر ہو رہا ہے۔ اس میں دو گیٹڈ فلک بوس تعمیرات، ایمار پاکستان اور ایچ ایم آر واٹر فرنٹ شامل ہیں، جن کی تعمیر 2008 میں شروع ہوئی تھی، ساتھ ہی ڈی ایچ اے کے فیز 8 کا چھٹا سیکشن شامل ہے جسے ای8 کہتے ہیں۔ یہ ایک رہائشی سیکشن ہے۔

15فیصد

پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے تخمینے کے مطابق، 2000 اور 2022 کے درمیان گزری کریک کے منگرووز میں 15 فیصد  کمی آئی ہے

دبئی میں واقع رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی إعمار پراپرٹیز کا ذیلی ادارہ ایمار پاکستان 30 ہیکٹر سے زائد پر محیط ہے، جبکہ ایچ ایم آر واٹر فرنٹ (ایچ ایم آر گروپ کا حصہ) کا احاطہ 13 ہیکٹر سے زیادہ ہے۔

گوگل ارتھ کا استعمال کرتے ہوئے، دی تھرڈ پول نے اندازہ لگایا ہے کہ فیز 8 کے تحت گیزری کریک سے ای8 تک کل ریکلیم شدہ رقبہ تقریباً 6.3 مربع کلومیٹر ہے۔

تعمیرات نے گزری کریک کی ماحولیات کو تباہ کردیا ہے

ماہی گیر مسلم اسحاق کہتے ہیں کہ 1970 اور 80 کی دہائیوں میں گزری کریک مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا۔

Sاس وقت ضلع کورنگی کی آبی گزرگاہوں پہ ہزاروں مینگرووز اگے ہوۓ تھے۔ یہ درخت، اپنے پیچیدہ جڑوں کے نظام کے ساتھ، مچھلی اور جھینگے کی افزائش گاہ تھے۔

سول سوسائٹی کی تنظیم، پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کے سابق صدر عبدالمجید موتانی نے 50 سال سے زائد عرصے تک ان پانیوں میں مچھلیاں پکڑیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج جہاں ڈی ایچ اے  فیز 8 ہے وہاں کے ارد گرد مینگرووز “اتنے گھنے تھے کہ ایک آدمی بھی ان سے نہیں گزر سکتا تھا۔”

کراچی کے کنارے پر، 1997 میں مینگروو کی دلدل (تصویر بشکریہ مائیک گولڈ واٹر / الامی)

اسحاق 1975 سے ماہی گیری کررہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ابراہیم حیدری گاؤں سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ماہی گیر اچھی خاصی مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ کریک میں صرف دو گھنٹے کی ماہی گیری کے بعد وہ کم از کم 150 کلو گرام جھینگے پکڑ لاتے تھے۔

جیسے جیسے تعمیرات کے لئے مزید زمین کی ضرورت پڑی، منگرووز کو کاٹ دیا گیا اور وہ نازک ماحولیاتی نظام غیر مستحکم ہوگیا جسے یہ منگرووز برقرار رکھے ہوۓ تھے۔ کریک سے ریکلیم کی گئی زمین کا علاقہ اب کنکریٹ، شادی ہال، کلب اور ہوٹل کا سمندر ہے اور ترقیاتی کام تھمنے کے آثار نظر نہیں آتے۔

اسحاق کہتے ہیں، اب سمندر میں بھی “ہم مشکل سے آٹھ سے 10 کلو تک جھینگے پکڑ پاتے ہیں، وہ بھی اگر قسمت نے ہمارا ساتھ دیا، تب”۔

پاکستان فشر فوک فورم کے سابق صدر عبدالمجید موتانی بتا رہے ہیں کہ کس طرح  تعمیرات گزری کریک تک پھیل گئی ہیں (ویڈیو: انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی (این آئی او) کی ڈائریکٹر جنرل ثمینہ کدوائی نے اپنے پی ایچ ڈی کے لئے گزری کریک کا مطالعہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ 2002 تک آبی گزرگاہ میں آکسیجن کی سطح پہلے ہی بہت کم تھی اور تقریباً کوئی سمندری حیات باقی نہیں رہی تھی۔ انہوں نے اس کی دو وجوہات بتائیں: ایک سیوریج کی موجودگی اور دوسری مینگروز کا نقصان۔ این آئی او کے محقق ابراہیم ضیاء کا کہنا ہے کہ ریموٹ سینسنگ ڈیٹا، 2000 سے 2022 کے درمیان گزری کریک میں مینگروو کے احاطہ میں 15 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ تقریباً 260 سے 220 ہیکٹر تک بنتا ہے۔


اپریل 2022 میں کراچی میں ریکلیمیڈ لینڈ پر بلندوبالا عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ مکمل ہونے پر یہ عمارتیں بحیرہ عرب پر نظر آئیں گی۔ (تصویربشکریہ انیب اعظم /دی تھرڈ پول)

ریکلیمیڈ لینڈ جو ڈی ایچ اے کے فیز 8 کے لئے گزری کریک سے نکالا گیا ہے (تصویر بشکریہ انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

اسحاق، لینڈ ریکلیمشن سے پیدا ہونے والی آلودگی اور ماحولیاتی خلل کا حوالہ دیتے ہوۓ، ملٹری ہاؤسنگ اتھارٹیز، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کو ندیوں اور سمندر میں “ساری خرابی” کے لئے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

اشراف داری نے آبی گزرگاہوں سے ماہی گیروں کو نکال باہر کیا ہے

ساحلی زمین کے بڑے رقبوں پہ قبضے کے ساتھ ہی اشراف داری کا عمل تیزی سے شروع کردیا گیا۔ اس عمل کے تحت، 1980 کی دہائی کے وسط سے ماہی گیروں پر گزری کریک اور سمندر کے کئی حصوں تک رسائی پر پابندی لگا دی گئی۔ 

گزری کریک کے متوازی کورنگی کریک بہتی ہے۔ آج، ماہی گیروں کو صرف کورنگی کریک استعمال کرنے کی اجازت ہے اور تب بھی ان کی نگرانی قریبی پاکستان ایئر فورس بیس اور ایئرمین گالف کورس شیلے سے کی جاتی ہے۔

ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ گزری کریک کے اندر جاتے ہیں، بندل آئی لینڈ یا إعمار پاکستان اور ایچ ایم آر واٹر فرنٹ پروجیکٹ کے قریب جاتے ہیں تو ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور سزا دی جاتی ہے۔ ایک ماہی گیر کا کہنا ہے، “اگر غلطی سے ہم قریب چلے جائیں تو سیکورٹی گارڈز ہماری کشتیاں ضبط کر لیتے ہیں۔ وہ ہمیں سزا کے طور پر زبردستی مرغا بناتے ہیں۔” 

مثال کے طور پر إعمار پاکستان کی تعمیرات والے ساحل کی سخت حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ 2007 میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے کو اس تبصرے کے ساتھ کہ ساحل ایک “عوامی امانت” ہے، ساحل سمندر پر کسی بھی قسم کی تعمیرات سے روک دیا تھا جو عوام کی رسائی کو محدود کرتا ہے۔

ڈی ایچ اے کی تشکیل سے پہلے یہاں ماہی گیری کا ایک قدیم گاؤں تھا جسے گزری گاؤں کہا جاتا تھا۔ پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کے عبدالمجید موتانی کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں میں کم از کم 800 خاندان اور ہزاروں ماہی گیروں کا گھر تھا۔ اب، وہ کہتے ہیں کہ صرف 50-60 خاندان اور 100 ماہی گیر رہ گئے ہیں۔ گاؤں کے ارد گرد بڑے پیمانے پر لینڈ ریکلیمیشن اور تعمیرات کمیونٹیز کی نقل مکانی یا بے گھر ہونے کا باعث بنے ہیں۔

ترقیاتی کام تیز ہونے سے پہلے اس گاؤں کے ماہی گیروں کے پاس ایک چھوٹی سی جیٹی تھی۔ موتانی کہتے ہیں، “اب یہ مرینا کلب ہے جہاں امیر لطف اندوز ہوتے ہیں، اور ہمیں داخلے سے منع کیا جاتا ہے۔”

مرینا کلب کے ساتھ شادی ہال میں ایک جیٹی۔ مرینا کلب، جو کبھی ایک قدیم ماہی گیر گاؤں کی جگہ تھی اور اب کراچی کی اشرافیہ کے لئے ایک کلب ہے جو 5 ہیکٹر سے زائد ریکلیمڈ اراضی پر پھیلا ہوا ہے (تصویر بشکریہ انیب اعظم / دی تھرڈ پول )

ماہیگیروں کو 1985  کے بعد جب گزری کریک میں داخلے سے روک دیا گیا تو انہوں نے پی ایف ایف کی حمایت سے ڈی ایچ اے کے خلاف احتجاج کیا۔ بالآخر، ڈی ایچ اے نے مرینا کلب کے قریب ایک جیٹی بنانے پر رضامندی ظاہر کی جہاں ماہی گیر اپنی کشتیاں رکھ سکیں اور اپنی روزی روٹی جاری رکھ سکیں۔ 

آج تک، ڈی ایچ اے کی طرف سے کوئی جیٹی تعمیر نہیں کی گئی ہے اور ماہی گیروں پر گزری کریک میں داخلے پر اب بھی پابندی ہے۔

لینڈ ریکلمیشن نے(سمندری زمین کی بھرائی) کراچی کو تباہی سے دوچار کردیا ہے

ساحلی علاقوں میں جان کو لاحق خطرات اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لئے، شہری منصوبہ ساز تجویز کرتے ہیں کہ ڈویلپرز شہری اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک بفر زون رکھیں۔ 

ڈی ایچ اے کے 1975 کے اصل تعمیری ماسٹر پلان میں، جسے دی تھرڈ پول نے دیکھا ہے، ایک ساحلی بفر زون شامل ہے، جس میں تقریباً 40 میٹر چوڑی سڑک، فٹ پاتھ اور ساتھ ہی پراپرٹیز اور سمندر کے درمیان ساحلی پھیلاؤ شامل ہے۔ اس منصوبے میں، ڈی ایچ اے کی تعمیرات، مسلم کمرشل ایریا پر، سی ویو ساحل کے آخر تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔

لیکن فیز 8، جو مسلم کمرشل ایریا سے شروع ہوتا ہے، اصل پلان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ ایمار پاکستان اور ایچ ایم آر واٹر فرنٹ کی تعمیرات ساحل سے محض تقریباً 8 میٹر کی دوری پر ہیں۔

سمندر سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر تعمیر کی گئیں إعمار  پاکستان ڈیولپمنٹ کی 33 بلندوبالا عمارتیں ڈی ایچ اے کے فیز 8 کا حصہ ہیں  (ویڈیو: انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

ثقافتی ورثوں کی شوقین اور آرکیٹیکٹ ماروی مظہر، جنہوں نے کراچی کی ساحلی پٹی کے گرد لینڈ ریکلیمیشن پر ایک رپورٹ لکھی ہے کہتی ہیں، “ڈی ایچ اے کے ماسٹر پلان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق بدل دیتے ہیں۔”

وہ کہتی ہیں کہ ڈی ایچ اے کے واٹر فرنٹ پراجیکٹس، جو نرم زمین پر بنائے گئے ہیں، اس کے اصل ماسٹر پلان سے الگ ہیں۔

اکتوبر 2021 میں، سندھ ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے کی مزید لینڈ ریکلیمیشن پر پابندی لگاتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا۔ کورٹ نے ڈی ایچ اے کو “کسی کو بھی ریکلیمڈ لینڈ دینے، یا ان زمینوں یا اس پر بنی جائیدادوں پر کسی تیسرے فریق کی دلچسپی پیدا کرنے، یا ایسی زمینوں کے استعمال کو تبدیل کرنے” سے بھی روک دیا۔ مزید یہ کہ ڈی ایچ اے کو ایسی زمینوں کو کسی تجارتی مقصد کے لئے استعمال کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، “نیز شادی یا سماجی تقریب سمیت کسی بھی تقریب کے انعقاد سے بھی”۔

اس کا مطلب ہے کہ ڈی ایچ اے ڈویلپمنٹ کے اندر جائیداد کی کوئی فروخت نہیں ہو سکتی۔

تاہم، جب تھرڈ پول نے اپریل میں ایمار پاکستان گیٹڈ ہاؤسنگ پروجیکٹ کا دورہ کیا، تو اسٹیٹ ایجنٹ نہ صرف اپارٹمنٹس فروخت کر رہے تھے بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف دو ہفتوں میں کسی بھی معاہدے کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔ ایک اسٹیٹ ایجنٹ کے مطابق اس پراجیکٹ کے تحت 33 عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں جن میں سے سات مکمل ہو چکی ہیں اور وہ جزوی آباد ہیں۔ دی تھرڈ پول نے کئی شادی ہالوں کا بھی دورہ کیا، جو شادیوں اور تقریبات کے لئے جگہ کرائے پر دے رہے تھے۔

اپریل 2022 میں فلمائی گئی، ایمار پاکستان کی تعمیراتی سائٹ (ویڈیو:  انیب اعظم /دی تھرڈ پول)

ستمبر 2014 میں، کراچی میں اقوام متحدہ اور حکام کی طرف سے منعقد کی گئی ایک مصنوعی مشق سے یہ پتا چلا کہ ایک سونامی شہر کو “مٹا سکتا ہے”۔ ریکلیمڈ لینڈ پر تعمیر تمام رہائشی کالونیوں کے ساتھ، اس طرح کا واقعہ 16 ملین سے زیادہ آبادی والے شہر میں انسانی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ 

اس کی روشنی میں، آرکیٹیکٹ مظہر ساحلی بفر زونز کی ضرورت پر زور دیتی ہیں، جو ان کے بقول طوفانوں یا سونامی کی بڑی لہروں سے جان و مال کو بچا سکتے ہیں۔ وہ زور دیتی ہے کہ صرف گھنے مینگرووز ہی اس طرح کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔

اس وقت کراچی میں ڈی ایچ اے کی رہائشی تعمیرات میں 80,000 سے زائد خاندان رہتے ہیں۔ فیز 8 سب سے بڑا فیز ہے، ااور گر سونامی جیسی آفت آتی ہے تو اس کے نئے محلّوں میں رہنے والے دسیوں ہزار خاندانوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

اس طرح کے کسی واقعے سے بچنے کے لئے، ڈی ایچ اے فیز 8 کے واٹر فرنٹ پراجیکٹس کے لئے سمندری دیوار بنائی گئی ہے۔ ماہر تعمیرات اور ماہرِ ماحولیات طارق الیگزینڈر قیصر جنہوں نے کراچی کی کھاڑیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو دستاویزی شکل دینے میں کئی دہائیاں گزاری ہیں، کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعمیرات بڑی لہر کو برداشت نہیں کر سکتیں۔  وہ کہتے ہیں، “لہر دیوار کو ہوا میں اڑا دے گی اور اسے توڑ دے گی”۔

ایک اور آفت جو پچھلے 40 سالوں میں بڑھ گئی ہے وہ سیلاب ہے۔ کورنگی اور گزری کریکس انڈس ڈیلٹا کے آخری پوائنٹ ہیں۔ دریائے سندھ کی ایک شاخ، ملیر ندی، ان کھاڑیوں میں بہتی ہے۔ ماضی میں، قیصر یاد کرتے ہیں کہ کراچی میں شدید بارشوں کے دوران “ملیر ندی کا سیلابی علاقہ واضح طور پر وسیع ہو جاتا تھا اور شہر میں بہت زیادہ بارشوں کے دوران یہ بھر جاتا تھا”۔ تعمیرات اور لینڈ ریکلیمیشن  کی وجہ سے، وہ کہتے ہیں کہ اب کھاڑیاں تنگ ہوگئی ہیں۔ “تعمیرات سیلابی میدانوں کے نقصان پر ہوئی ہیں”۔

سیلابی میدان کے سکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ پانی آبی گزرگاہوں سے ہوکر سمندر میں نہیں جا سکتا، بجائے اس کے یہ  شہر میں داخل ہو کر سیلاب کا باعث بنے گا۔ اشاعت کے وقت تک کراچی اس سال کی مون سون بارشوں سے آنے والے سیلاب کے نقصانات سے دوچار تھا۔ درجنوں افراد 2020 کے سیلاب میں ہلاک ہوئے، انفراسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا۔

“Tقیصر بتاتے ہیں، “ان آبی گزرگاہوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے پانی کی نکاسی میں خاصا وقفہ ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے شہر کم از کم چھ سے سات گھنٹے تک پانی میں ڈوبا رہتا ہے”۔

آبی گزرگاہیں اب سفر کے لئے موزوں نہیں ہیں

سمندر سے بڑی مقدار میں لینڈ ریکلیمشن سے کراچی کی ساحلی پٹی کے ساتھ تلچھٹ کی تقسیم میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ یہ عمل لانگ شور ڈرفٹ (طویل کنارے کا بہاؤ) کہلاتا ہے۔

طویل کنارے کا بہاؤ) لانگ شور ڈرفٹ کیا ہے؟)

لانگ شور ڈرفٹ، ساحل کے ساتھ مختلف زاویوں پر تلچھٹ (مٹی، گاد، ریت اور شِنگل) کی نقل و حمل ہے جو ہوا کی موجودہ سمت اور لہر کے پیٹرن (نمونہ) پر منحصر ہوتی ہے۔

قیصر کے مطابق، کراچی میں پانی کے دھارے مغرب سے مشرق کی طرف بڑھتے ہیں اور روایتی طور پر، فیز 8 شروع ہونے سے بالکل پہلے، سی ویو کے ساحل پر تلچھٹ جمع ہوتی ہے۔  لیکن یہ پیٹرن بدل گیا ہے، کیونکہ لینڈ ریکلیمشن نے پانی کے بہاؤ کو تبدیل کر دیا ہے۔ 

قیصر کہتے ہیں، ’’میں نے بندل جزیرے کے جنوب مغربی جانب جو کورنگی کریک سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، ریت کا اضافی ذخیرہ دیکھا ہے”۔

جیسے جیسے بندل جزیرے کی شکل بدل رہی ہے، ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ کورنگی کریک کے قریب کم جوار کے دوران ان کی کشتیاں اکثر پھنسنے لگی ہیں۔

 نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سابق ڈائریکٹر جنرل، آصف انعام دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی اثرات کے جائزے (ای آئی اے) معروضی طور پر نہیں کئے جاتے۔ اس کی وجہ سے، ان کا کہنا ہے کہ لینڈ ریکلیمیشن  سے ہونے والے نقصان کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔

ای آئی ایز : ایمار پاکستان اور ایچ ایم آر واٹر فرنٹ

لگژری واٹر فرنٹ ڈویلپمنٹ ایمار پاکستان کے پاس ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ نہیں ہے۔ صوبائی ماحولیاتی نگراں ادارے، سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے ) کے مطابق، ایچ ایم آر  واٹر فرنٹ کےلئے  ای آئی اے  موجود ہے۔

لیکن کچھ فوری اثرات کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کنٹینر بحری جہاز گزری کریک کے مشرق میں پھٹی کریک سے گزر سکیں، اب ڈریجنگ کا کام پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کو کرنا ہوگا۔ قیصر کہتے ہیں کہ اس کام پہ مالی لاگت آۓ گی۔

پی کیو اے کے چینل ڈریجنگ کے ڈائریکٹر، شاہد حفیظ، دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ پھٹی کریک سے ہر سال 5 ملین کیوبک میٹر ریت، کیچڑ، مٹی اور سلٹ نکالا جاتا ہے۔ وہ اس بات پر تبصرہ کرنے سے قاصر تھے کہ آیا لینڈ ریکلیمیشن  نے تلچھٹ کی تقسیم کو تبدیل کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہائیڈروولوجیکل ماہرین کو ڈیٹا اکٹھا کرنے اور بہت زیادہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے پی کیو اے کے پاس بجٹ نہیں ہے۔

ڈی ایچ اے کی  لینڈ ریکلیمیشن  کے خلاف قانونی چیلنج

حالیہ برسوں میں، کراچی میں لینڈ ریکلیمیشن کے خلاف قانونی کارروائیوں کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ 

اکتوبر 2021 میں ڈی ایچ اے کی لینڈ ریکلیمیشن کے خلاف اپنے حکم میں، سندھ ہائی کورٹ نے ان رپورٹس کا حوالہ دیا کہ ہاؤسنگ اتھارٹی نے “فیز 8 میں 117 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا تھا اور 300 ایکڑ سے زائد  اراضی ریکلیم کی تھی”۔


فٹبال کے 500 میدان

پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے تخمینے کے مطابق، زمین کا مساوی رقبہ جو گزری کریک سے ریکلیم کیا گیا ہے۔

گزشتہ سال، ڈی ایچ اے کے چھ رہائشیوں نے مینگرووز کو کاٹنے اور لینڈ ریکیلمنگ پر ہاؤسنگ اتھارٹی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ ان کی درخواست میں 2020 میں ڈی ایچ اے کی تعمیرات کے اندر آنے والے شدید سیلاب کو غیر قانونی لینڈ ریکلیمیشن اور علاقے کے واٹر چینلز کو تنگ کرنے سے منسلک کیا گیا تھا۔

رہائشیوں کے وکیل، محمد واجد کے مطابق، گزری کریک کی اور اس پر تعمیر کئے جانے والے تمام رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے، جو ڈی ایچ اے سے پہلے قائم کی گئی تھی) کے ہیں۔ سابق وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے 2020 میں پی کیو اے کے دائرہ اختیار کی ایک تصویر ٹویٹ کی۔ اس تصویر کی مطابق   ڈی ایچ اے کا تمام فیز 8 پی کیو اے کے انتظامی کنٹرول میں آتا ہے۔

ماحولیات سے متعلق معاملات میں ماہر وکیل زبیر ابڑو کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر بندرگاہ کی زمین کو بندرگاہ کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے خلاف سپریم کورٹ کے ایک سابقہ کیس کے دوران طے پایا تھا۔

واجد کا کہنا ہے کہ اس لئے پی کیو اے  کے دائرہ اختیار میں آنے والے  شادی ہالز اور رہائشی اور تجارتی منصوبوں کو لیز پر دینے کا کوئی قانونی حق  ڈی ایچ اے کے پاس  نہیں ہے۔

  گزری کریک میں، ریکلیمڈ لینڈ پر تعمیر کیا گیا ایک شادی ہال (تصویر بشکریہ انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

کریک میں، کم از کم پانچ شادی ہال ریکلیمڈ لینڈ (بھری ہوئی سمندری زمین) پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ ڈی ایچ اے  کے اصل ماسٹر پلان میں ان وسیع تعمیرات کا کوئی ذکر نہیں ہے (ایک 2 ہیکٹر سے زیادہ پر محیط ہے)، اور ابڑو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ڈی ایچ اے کو تجارتی مقاصد کے لئے ریکلیمڈ لینڈ کو لیز پر دینے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں درخواست میں واجد نے موقف اختیار کیا کہ کوئی منظوری نہیں دی گئی۔ زمین کو تبدیل کرنے کے لئے کسی عمل کی اجازت نہیں دی گئی، عوام کو اعتراض کا موقع نہیں دیا گیا، اور پروجیکٹ کے کسی بھی مکین نے صوبائی ماحولیات کے نگراں ادارے، سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے ) سے کوئی اجازت نہیں لی۔

ایس ای پی اے نے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں (جسے دی تھرڈ پول نے دیکھا ہے ) کہا کہ شادی ہال، مارکیز، کلب یا إعمار پاکستان میں سے کسی نے ایجنسی کی منظوری حاصل نہیں کی۔

ای 8، ڈی ایچ اے کے فیز 8 کا چھٹا سیکشن ہے (تصویر بشکریہ انیب اعظم / دی تھرڈ پول)
Bفیز 8 میں زیر تعمیر عمارتیں (تصویر بشکریہ انیب اعظم / دی تھرڈ پول)

فی الحال رہائشیوں کا مقدمہ زیر التوا ہے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، کیس کی معلومات رکھنے والے ایک صاحب  نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ مدعی ایس ایچ سی کے اکتوبر 2021 کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر ڈی ایچ اے اور إعمار کے خلاف توہین کا مقدمہ درج کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

 قانونی لڑائیاں اپنی جگہ جاری ہیں، اور ساتھ ہی  ڈی ایچ اے کی بڑھتی ہوئی تعمیرات  اور  لینڈ ریکلیمیشن کا عمل جاری ہے، اور کراچی کے ساحل پر ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی انسانی تباہی کو کم کرنے کا موقع بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔

عبدالمجید موتانی، جنہوں نے 50 سال سے زیادہ عرصہ ان پانیوں میں مچھلیاں پکڑی ہیں، ڈی ایچ اے کی تعمیرات کی آنکھوں دیکھی دہائیوں پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں، “”ماہی گیری میں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے بچوں نے مختلف پیشوں کا انتخاب کرلیا ہے۔

دی تھرڈ پول نے ڈی ایچ اے کے ڈائریکٹر آف مارکیٹنگ اینڈ پبلک ریلیشن آفیسر سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی، جنہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

دی تھرڈ پول نے بارہا إعمار پاکستان کے مارکیٹنگ لیڈ سے بھی رابطہ کیا، لیکن اشاعت کے وقت تک ان سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ایچ ایم آر گروپ کے چیئر حاجی محمد رفیق پردیسی نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ایس ای پی اے  کی منظوری کے ساتھ، ایچ ایم آر  کے پاس ڈی ایچ اے  کی طرف سے الاٹمنٹ اور ماسٹر پلان کی منظوری کا لیٹر اور پی کیو اے کی طرف سے جاری کردہ لیز ہے۔

مترجم: ناہید اسرار

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.