icon/64x64/regionalcooperation خطاتی تعاون

تبصرہ : سی پی ای سی کے لئے ماحولیاتی مینڈیٹ یقینی بنانا پاکستان کی ذمہ داری ہے

چین کی توجہ ، چین پاکستان اقتصادی راہداری کی پائیداریت پرنہیں ہے۔ اس جز کو منصوبے کا مرکز بنانے کے لئے پاکستان کو متحرک ہونا چاہئے

روزانہ لگ بھگ 7،000 ٹرک پاکستان کے شمالی صوبوں سے گزریں گے ، جو لاکھوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جنوب میں گوادر جاتے ہوئے خارج کریں گے۔ اس سے اسٹیک ہولڈرز کے لئے یہ سب زیادہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ماحولیات اور کمیونٹیز کو سی پیک ترقیاتی کاموں کا مرکز بنائیں- (تصویر بشکریہ علی میر/الامی)

 پچھلے سال کے دوران، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) میں استحکام کے لئے ایک نئے سرے سے زور دیا گیا ہے ، جو اس کے نام نہاد دوسرے مرحلے کے آغاز  سے موافق ہے۔ 

اگرچہ ماحولیاتی اور معاشرتی اثرات پر اس توجہ کا خیرمقدم کیا گیا ہے ، لیکن صحیح معنوں میں پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لئے مستعدی اور دوراندیش گورننس کی ضرورت ہے۔ 

آکسفورڈ یونیورسٹی سلک روڈ سوسائٹی تھنک ٹینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں 2020 کی “گرین سی پی ای سی” برانڈنگ کے  پاکستانی ماخذ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 

اصل طویل مدّت منصوبے کے تحت ، سی پی ای سی کی بھاری بھرکم تشہیر اس کے رابطوں اور توانائی کے تحفظ میں اضافے پر کی گئی تھی۔ تاہم ، پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی مہم کے دوران ، ان کی جماعت ، تحریک انصاف نے ، سرسبز سی پی ای سی کی ضرورت کوسرگرمی کے ساتھ پیش کیا، جو ان کے بڑے پیمانے پر جنگلات کی شجرکاری  اور پاکستان کے ہائیڈرو ، ہوا اور شمسی وسائل میں اضافے کے  انتخابی وعدوں کی آئینہ دارہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کیا ہے ؟

مغربی چین میں کاشغر سے پاکستان میں بحیرہ عرب کے کنارے گوادر تک 3،000 کلومیٹر طویل راہداری۔ یہ ہمالیہ ، متنازعہ علاقوں ، میدانی علاقوں اور صحراؤں سے گزر کر گوادر کی قدیم فشینگ بندرگاہ تک جاتی ہے۔ سڑک اور ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس سمیت چینی مالی تعاون سے چلنے والے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے ،  اس کے ساتھ تعمیر ہورہے ہیں۔ اسکی اصل لاگت 46 ارب امریکی ڈالر تھی ، جبکہ اس راہداری کا تخمینہ آج 62 بلین امریکی ڈالر ہے۔ سی پی ای سی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک حصہ ہے ، جو ایک وسیع علاقائی تجارت اور سفارتی منصوبہ ہے جس میں چین کو ایشیاء کے باقی حصوں اور یورپ سے جوڑنے والے زمینی اور سمندری دونوں راستوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ سی پی ای سی، بی آر آئی کے سب سے زیادہ  بلند نظر اجزاء میں سے ایک ہے۔

پاکستان نے سبز سی پی ای سی محور کو جنم دیا

سی پی ای سی میں صاف توانائی کا ذکر چینی یا نجی کاروبار کی بجائے پاکستانی حکومت کی طرف سے ہوا ہے۔ پن بجلی کی حقیقی ’پائیداری‘ کے بارے پر ہونے والی بحثوں کو ایک طرف کر کے دیکھا جاۓتو ، آزاد پتن پن بجلی گھر ایک واضح کیس اسٹڈی ہے کہ یہ اقدام مقامی طور پر پاکستان کی طرف سے لیا گیا ہے۔  ابتدائی فزیبلٹی اسٹڈیز اور 30 سال پرانی تجویزوں کے ساتھ ، اس نے اپریل 2020 میں سی پی ای سی میں منظوری اور شمولیت حاصل کی۔ 

معاہدے پر دستخط کے دوران ، فوج کی زیرقیادت سی پی ای سی اتھارٹی نے اسے کامیابی قرار دیا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ یہ تعمیر سبز توانائی اور 3000 ملازمتیں مہیا کرکے اور غیر ملکی ذخائر کے اخراج کو روک کر پائیدار اور معاشی طور پر فائدہ مند ہوگی۔ تاہم ، شراکت دار چینی تعمیراتی کمپنی گیزوبا اور چینی سرکاری میڈیا نے اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ اس منصوبے میں دلچسپی اسلئے رکھتے ہیں کیونکہ یہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سبز تھا۔ گیزوبا کے عوامی تبصروں میں کمیونٹیز کے معاشی فوائد پر روشنی ڈالی گئی، اور چینی سرکاری میڈیا نے لانچ کے بعد اس کے ماحولیاتی فوائد پر توجہ مرکوز کی۔ 

آکسفورڈ یونیورسٹی سلک روڈ سوسائٹی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “گرین انفراسٹرکچر میں بخوشی شمولیت   کے باوجود ، [چینی حکومت اور نجی شعبے] نے سبز سی پی ای سی کی طرف تبدیلی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔ 

یہ تفہیم اہم ہے کیونکہ یہ بی آر آئی [بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو] کے  دوسرے شرکاء کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ گیند ان کے کورٹ میں ہے ، یعنی چین اس گفتگو کو سبز منصوبوں کی سمت نہیں لے جاۓ گا۔

سب سےبڑھ کر، یہ ،  پاکستان  کے لئے راہداری منصوبوں ، اور سی پی ای سی اتھارٹی کے لئے فیصلہ کرنے کے اصولی ادارے سی پی ای سی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی میں ماحولیاتی مینڈیٹ لانے کی ضرورت کو اجاگرکرتا ہے-

 سی پی ای سی اتھارٹی کیا ہے ؟

2019 میں   قانون سازی کے عمل کو نظرانداز کرتے ہوۓ ایک آرڈیننس کے ذریعہ تشکیل دی گئی ، سی پی ای سی اتھارٹی کا مقصد فیصلہ سازی کو مرکزی بنانا اور ان صوبوں سے خود مختاری لینا ہے جہاں راہداری کے اہم منصوبے بنائے جائیں گے۔ 

باڈی کے مندرجہ ذیل کام ہیں: تعاون کے شعبوں کی شناخت کے لئے چین کے ساتھ تعاون کرنا؛ صوبوں اور وفاقی حکومت کے مابین اتفاق رائے کو یقینی بنانا۔  سی پی ای سی “بیانیہ کی تعمیر”  اور تحقیق کرنا۔  اس آرڈیننس کی مدت 2020 میں ختم ہوگئی تھی ، اور اب اس کی حیثیت غیر یقینی ہے کیونکہ اس اتھارٹی کو جو قانونی حیثیت  دیتا ہے وہ بل پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے۔

پائیدار اسپیشل  اکنامک  زون  (ایس ای زیڈز) کی منصوبہ بندی

اس رپورٹ میں خیبر پختون خواہ میں خان کے سابقہ انتخابی حلقے میں ، راشاکائی اسپیشل اکنامک زون (SEZ) کا بھی خاص ذکر کیا گیا ہے جو کہ پاکستان کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ ماحولیاتی مینڈیٹ کا مظاہرہ ماضی کے مقابلے میں مستعدی کے ساتھ کرے-

یہ توقع کی جارہی ہے کہ راشاکائی اسپیشل اکنامک زون کو  صنعتوں کے لئے 210 میگاواٹ تک کی فراہمی درکار ہوگی ، اور اس میں دیگر ایس ای زیڈز اور صنعتی زونوں کی طرح پانی کے زیادہ استعمال اور مختلف آلودگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اس خطّے میں گارمنٹس کی ایک صنعت موجود ہے جو کہ توانائی کی اضافی کھپت اور زہریلے ضمنی مواد کی پیداوار کے لئے بدنام ہے اور اسپیشل اکنامک زون کی ترقی میں بڑا کردار رکھتی ہے- 

اس سبز مینڈیٹ کو حقیقت بنانے کے لئے، دیگر پائیدار طریقوں کے ساتھ ساتھ ، 210 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے لئے ‘سبز‘ توانائی کو استعمال کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ 

نامیاتی کاشتکاری سرطان پیدا کرنے والی کیڑے مار ادویات کا استعمال کیے بغیر پانی کے استعمال میں 60 فیصد تک کمی لاسکتی ہے ، اور قدرتی اور کم اثر والے رنگ آلودگی کے اثرات کو کم کرسکتے ہیں- مزید برآں،  اسپیشل اکنامک زون میں صنعتی مراکز اور صنعتی گروپس کا قیام  کچرے کے پائیدار انتظام کا ایک موقع ہے ، جس میں صنعتی ری سائیکلنگ بھی شامل ہوسکتی ہے- ٹیکس سے نجات اور ڈیوٹی فری درآمدات جیسے مالی ترغیبات کو بھی ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کے لئے پالیسیوں کا حصّہ ہونا چاہئے۔

پہاڑوں کے بیچ سے ایک شاہراہ

خطے میں رابطے بڑھانے کے لئے سی پی ای سی کی کوششوں سے متعلق بھی ماحولیاتی خدشات ہیں۔ اس رپورٹ میں سڑکوں کی تعمیر کے لئے جنگلات کی کٹائی اور کاربن ‘اسپلج‘ کے اثرات پر ایک کیس اسٹڈی پیش کی گئی ہے، جس میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ جنگلات کی کٹائی سےبقاء کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ، خاص طور پر خیبر پختون خوا کے چترال جیسے علاقوں میں ، جہاں 500 کے قریب گلیشیرموجود ہیں۔ 

ایبٹ آباد ، خیبر پختونخوا میں مظاہرین ، معاوضے کی عدم تلافی اور ماحولیاتی خرابی پر سی پی ای سی ایکسپریس وے کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں (تصویر بشکریہ  محمد زبیر خان)
ایبٹ آباد ، خیبر پختونخوا میں مظاہرین ، معاوضے کی عدم تلافی اور ماحولیاتی خرابی پر سی پی ای سی ایکسپریس وے کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں (تصویر بشکریہ  محمد زبیر خان)

اس خدشے کی  تصدیق اس تخمینے سے ہوتی ہے جس  کے مطابق روزانہ 7000 ٹرک پہاڑی صوبے سے گزریں گے ، اور جنوب میں گوادر جاتے ہوئے ایک اندازے کے لحاظ سے 36.5 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کریں گے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم بھی رکھا جائے تو بھی ہندوکش ہمالیہ میں گلیشیر کی ایک تہائی مقدار ضائع ہونے کی توقع ہے۔ اگر درجہ حرارت 2C تک بڑھ جاتا ہے تو ، یہ مجموعی حجم کے نصف ہو جائے گا۔ یہاں نہ صرف سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے کاٹے جانے والے درختوں کی دوبارہ شجرکاری ضروری ہے ، بلکہ بجلی سے چلنے والے بھاری اور ہلکی گاڑیوں کی اشد ضرورت ہے۔ 

اگرچہ سی پی ای سی کے ماحولیاتی اور معاشرتی استحکام کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں پیشرفت ہوئی ہے ، لیکن ابھی بھی اس پر مزید کام کرنے کی گنجائش ہے- ماحولیات اور مقامی کمیونٹیز کو سی پی ای سی کے تمام  ترقیاتی کاموں کے مرکز میں لازمی ہونا چاہئے۔ اس منصوبے کے استحکام میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی پاکستانی ، چینی اور غیر ملکیوں کا کلیدی کردار ہے۔ برا ہو یا بہتر، یہاں پر، اور خاص کر  بی آر آئی میں، ذمہ داری وصول کنندگان حکومتوں ، صنعت اور معاشرے پر ہے کہ وہ پائیدار ترقی کے لئے ضروری حفاظتی اقدامات کو فعال طور پر تشکیل دیں۔

میتھیو میکگیو آکسفورڈ یونیورسٹی سلک روڈ سوسائٹی تھنک ٹینک کے بانی ہیں ، جس کا مقصد بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ساتھ معاشرتی اور ماحولیاتی استحکام کے لئے حل تلاش کرنا ہے۔ وہ وڈھم کالج ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں-