پانی

شمالی پاکستان میں زیادہ تر نلکوں کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں پانی کے معیار پر ایک رپورٹ میں پینے کے پانی کے ذرائع میں بڑے پیمانے پر آلودگی بتائی گئی، جس سے رہائشیوں کی صحت اور تحفظ پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
اردو
<p>  وادی یاسین ، گلگت بلتستان ، پاکستان میں ایک لڑکی  پینے کا پانی نلکے سے بھر رہی ہے -( تصویر بشکریہ نوروز علی )  </p>

وادی یاسین ، گلگت بلتستان ، پاکستان میں ایک لڑکی پینے کا پانی نلکے سے بھر رہی ہے -( تصویر بشکریہ نوروز علی )

 گلگت بلتستان پورے پاکستان کو پانی کی فراہمی میں اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ خطہ تقریبا 7000 گلیشیئرز کا گھر ہے ، جو سندھ طاس میں پگھلے ہوۓ پانی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں ، جس پر پاکستان کا کلیدی انحصار ہے۔ اس کے باوجود کم آبادی والے پہاڑی علاقے کے رہائشی  زیادہ تر لوگ پینے کے لئے برف پگھلنے والے بہاؤ ، چشموں ، زمینی پانی اور دریاؤں کے غیر فلٹرڈ پانی پر انحصار کرتے ہیں اور بیماری کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ 

ایشیا فاؤنڈیشن کے تعاون سے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی ایک رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ خطے میں پینے کا پانی کتنا آلودہ ہے۔ گلگت بلتستان کے 6 اضلاع  (ہر ضلع سے 10-15 نمونے لئے گۓ ) سے اکٹھے کیے گۓ  94 نمونوں   میں سے ، پی سی آر ڈبلیو آر کے مطابق  آلودگی کے لحاظ سے صرف 22 فیصد انسانی استعمال کے لیے محفوظ حدود میں ہیں۔  

22%

پینے کے پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے جو انسانی استعمال کے لیے محفوظ حدود میں آئے۔

زیادہ تر نمونے ان نلکوں سے اکٹھے کیے گئے جن میں مختلف ذرائع سے پانی آتا ہے ، بشمول زمینی پانی کے چینلز (94 نمونوں میں سے 28) ، چشمے (56) ، زمینی پانی (سات) ، اور دریا یا جھیلیں (تین)۔ 

سب سے بڑا مسئلہ مائکروبیل آلودگی تھی  (جو 68% نمونوں میں پائی گئی ) ، اس کے بعد گندگی ، یا حل نہ ہونے والے مادے کی وجہ سے پانی میں دھندلاپن (19%)،  اس کے علاوہ آئرن  کی موجودگی (24%)، ایلومینیم (7%)، اور فلورائیڈ (2%) تھی- 

رپورٹ ان آلودگیوں کے ممکنہ ذرائع تجویز کیے گۓ ہیں، اور یہ بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر مائکروبیل آلودگی، ممکنہ طور پر پانی کی فراہمی میں سیوریج کے ملاوٹ کا نتیجہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برف اور گلیشیر پگھلنے سے پیدا ہونے والے پانی میں گندگی “چٹان کے برادے اور دیگر چھوٹے مٹی کے ذرات کی وجہ سے ہے جو پہاڑوں سے نیچے بہتے وقت پانی میں مل جاتے ہیں”۔ 

مصنفین تجویز کرتے ہیں کہ لوہے اور ایلومینیم کی موجودگی کانکنی سے نکلنے والے گندے پانی کی وجہ سے ہو سکتی ہے جو گلگت بلتستان کی اہم صنعتوں میں سے ایک ہے ، اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ کان کنی کے اثرات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ لوہے کی موجودگی کی ایک اور وضاحت زنگ آلود نلکے  یا پائپ ہوسکتی ہے۔

دریاؤں سے ٹیسٹ کیے گئے ایک سو فیصد نمونے آلودہ پائے گئے۔ یہ نمبرشمار  سطح زمین پہ برفانی پانی کے نالوں کے لئے  %82 اور تازہ پانی کے چشموں کے لئے  %80  تھا-

زمینی پانی کے صرف 29 فیصد نمونے آلودہ تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہتی ندیوں اور دریاؤں کی کثرت، اور زیر زمین پانی تک رسائی کی لاگت اور مشکل کو دیکھتے ہوئے ، گلگت بلتستان کے لوگ ذریعہ پانی کا یہ  ذریعہ بہت کم استعمال کرتے ہیں۔

رہائشیوں کی صحت پر شدید اثرات

گلگت بلتستان کے رہائشی پانی کی آلودگی کی وجہ سے بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے شہر گھاوچ میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ فوجی محمد ناصر نے حال ہی میں اپنی 11 سالہ بیٹی نویدہ کو تقریبا 2 ہزار کلومیٹر دور کراچی کے آغا خان ہسپتال میں طبی علاج کے لیے بھیجا۔ گھاکچ میں آلودہ پینے کے پانی کی وجہ سے کم عمر لڑکی کو سات سال کی عمر میں جگر کا انفیکشن ہو گیا تھا۔ ناصر نے تھرڈ پول  کو بتایا کہ شہر میں بچوں میں پانی سے پھیلنے والی بیماریاں عام ہیں۔

چونکہ گلگت بلتستان میں علاج کی سہولیات محدود ہیں ، جب درد بہت شدید ہو گیا تو ایک ڈاکٹر نے  نویدا کو کراچی بھیجنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ علاج کے دوران بچی کراچی میں ناصر کے اہل خانہ کے ساتھ رہی۔ 

ہمارے پاس اکثر ہیپاٹائٹس اے ، ٹائیفائیڈ ، پیٹ کے امراض ، اسہال یا متعلقہ بیماریوں کے مریض آتے ہیں۔ یہ زیادہ تر آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہے
غیزر سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر،  محمد اختر

گلگت شہر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ڈاکٹر کریم خان نے بتایا کہ آلودہ پانی پینے سے ہیضہ ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس اے اور سی جیسی سنگین بیماریاں جنم لے سکتی ہیں- انہوں نے مزید کہا کہ طویل عرصے تک غیر محفوظ پانی گردوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور اگر سنکھیا جیسے عناصر موجود ہوں تو کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ خان نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان اب بھی سندھ اور پنجاب کے زیریں صوبوں سے بہتر ہے۔

محمد اختر ، غیزر سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر ہیں جو گلگت شہر میں بھی پریکٹس کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ علاقے میں پانی سے پھیلنے والی بیماریاں عام ہیں۔ “ہمارے پاس اکثر ہیپاٹائٹس اے ، ٹائیفائیڈ ، پیٹ کے امراض ، اسہال یا متعلقہ بیماریوں کے مریض آتے ہیں۔ یہ زیادہ تر آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہے”، اختر نے کہا۔

ہمالیہ میں پینے کے پانی کا بنیادی ڈھانچہ غائب ہے

پینے کے پانی میں جرثوموں کا پھیلاؤ خطے میں رہنے والی کمیونٹیوں کے لیے ایک اہم مسئلے مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 

پی سی آر ڈبلیو آر کی ایک سینئر ریسرچر صاعقہ عمران جو کہ رپورٹ کے لئے جانچ میں شامل تھیں ،  کہتی ہیں کہ گلگت ، سکردو ، گھاکچ اور ہنزہ جیسے بڑے شہروں میں ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ یا سیوریج کا مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ، “پانی میں آلودگی کی مقدارعلاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے ، لیکن بڑے شہروں میں آلودگی ایک بڑی مقدار میں ہوتی ہے۔” “انسانی اور جانوروں کی سرگرمیاں دونوں پینے کے پانی کی آلودگی کے ذمہ دار ہیں۔”

پانی جرثوموں سے آلودہ تب ہوسکتا ہے جب سیوریج ٹھکانے لگانے  اور پانی کے منبع کے درمیان مناسب فاصلہ برقرار نہ رکھا جائے۔ پائپ میں شگاف کی وجہ سے بھی سیوریج کا پانی پائپوں میں داخل ہوسکتا ہے- گلگت بلتستان میں زیادہ تر لوگوں کو مناسب فلٹریشن یا ڈس انفیکشن تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ 

صاعقہ عمران نے مزید کہا کہ پانی کے اصل ذرائع میں چاہے  وہ گلیشیئر ہوں، نہریں یا چشمے، وہاں تھوڑی آلودگی تھی ، لیکن یہ وہ جگہیں نہیں جہاں سے لوگ اپنا پانی حاصل کرتے ہیں۔  پانی عام طور پر نلکوں سے لیا جاتا ہے ، جو پائپ کے ذریعے نلکوں میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا ، ” معیار کی باقاعدہ مانیٹرنگ کے ساتھ  پانی کی فراہمی کے  مناسب نظام کی ضرورت ہے تاکہ صارفین کے لیے پینے کے صاف پانی کو یقینی بنایا جا سکے۔”

آلودہ پانی زیادہ تر معاشرے کے غریب طبقے کو متاثر گلگت کے ڈاکٹر کریم خان
کرتا ہے

تحقیق کے دوران ، صاعقہ عمران کو یہ پتا چلا  کہ پانی کے بیشتر ذرائع میں، جنوبی ایشیا میں پانی کے جراثیم کش کی سب سے سستی اور عام شکل یعنی کلورین تک کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ 

کریم خان نے طبقاتی تقسیم پہ روشنی ڈالی  جو صاف پانی تک رسائی کو نشان زد کرتا ہے۔ خان نے کہا ، “آلودہ پانی زیادہ تر معاشرے کے غریب طبقے کو متاثر کرتا ہے کیونکہ وہ بوتل بند پانی خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انہیں دور دراز کے علاقوں سے جہاں صاف پانی دستیاب ہے وہاں سے لانے کے لیے نقل و حمل کی سہولیات موجود ہیں۔”

“وہ شہری جو براہ راست دریا کا پانی استعمال کر رہے ہیں انہیں  غیر محفوظ پانی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔”

گلگت بلتستان میں پینے کے صاف پانی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی ستم ظریفی ہے ، کیونکہ  پاکستان کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر پروجیکٹ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) علاقے سے گزرتا ہے۔ یہ مسئلہ کسی بھی طرح گلگت بلتستان تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ہمالیائی خطے میں عام ہے۔

پاکستان کے پڑوسی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کا ایک بڑا مسئلہ ہے ، یہی حال کشمیر بھر کے شہروں ، نیپال کے شہر کھٹمنڈو اور بھوٹان کے شہر تھمپو میں ہے۔ 

  کچھ سنی سنائی باتیں ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے

ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) گلگت بلتستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر خادم حسین نے کہا کہ ای پی اے کی سفارشات پر صوبائی حکومت نے بنیادی طور پر شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی سے متعلق مسائل پہ کام کیا ہے ، جیسے پانی کی فراہمی کے ٹینکوں کی باقاعدگی سے صفائی ، فلٹریشن کی تنصیب اور رستے پائپوں کو ٹھیک کرنا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آلودہ پانی پینے کی فراہمی میں داخل نہ ہو۔ گنجان آبادی کی وجہ سے ،   شہری علاقے اکثر متاثر ہوتے تھے ، لیکن حکومت نے وقتا فوقتا ان مسائل سے نمٹنے کے لیےاقدامات کیے ہیں- انہوں نے کہا کہ حالات ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ 

حسین نے رپورٹ کے لیے پانی کے نمونے لینے کے طریقہ کار پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ محققین کو مختلف ذرائع سے بے ترتیب نمونے لینے کے بجائے ایسے ذرائع سے نمونے لینے چاہئیں جو کمیونٹی باقاعدگی سے پینے کے پانی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ مختلف موسموں کے نمونوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا ، اور یہ کہ محققین کو مقامی لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (ایل جی آر ڈی ) ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے قائم کردہ مقامی ماہرین اور لیبارٹریوں سے راۓ لینی  چاہیے تھی، جن کے پاس شہری مسائل جیسے  پانی ، صفائی اور سڑکوں کو حل کرنے کا مینڈیٹ ہے۔  

اس کے جواب میں پی سی آر ڈبلیو آر کی صاعقہ عمران نے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں پانی کے معیار کو جانچنے کے لیے تمام معیاری طریقہ کار اور پروٹوکول پر عمل کیا ہے ، اور وہاں سے نمونے لیے گئے ہیں جہاں سے کمیونٹیوں کو پینے کے لیے پانی ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ باقاعدہ مانیٹرنگ پروگرام کے بجائے پانی کی مجموعی حالتوں کا پتہ لگانے کے لیے ایک وقتی جائزہ تھی ، اس لیے انہوں نے مختلف ذرائع سے تصادفی نمونے لیے۔

پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ، گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کے میڈیا کوآرڈینیٹر عالم نور حیدر نے کہا کہ یہ سابقہ حکومت کے دور میں شائع ہوئی تھی۔ حیدر نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے اجاگر کردہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں ، جن میں گلگت شہر میں سیوریج پلانٹ کا قیام اور مختلف علاقوں میں پینے کے پانی کی مختلف اسکیمیں فراہم کرنا شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسائل موجود ہیں ، لیکن یہ مسائل پاکستان تحریک انصاف  (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کے دور میں حل  کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی جو کہ وفاقی حکومت بھی  ہے ، نے 2020 میں پہلی بار گلگت بلتستان میں انتخابات جیتے۔

پاکستان میں پینے کے صاف پانی کے حل موجود  ہیں

جیسا کہ رپورٹ میں بتایا گیا  ہے، گلگت بلتستان میں پانی کی آلودگی کا چیلنج زیادہ واضح ہوگا  جب چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبے شروع  ہو جائیں گے- وسیع منصوبہ معاملات کو مزید خراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ تعمیر پانی کے معیار کو متاثر کر سکتی ہے – یا انہیں بہتر کرسکتا ہے، اگر پانی کی صفائی اور فلٹریشن کے انتظامات کو شامل کیا جاۓ- اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ مقامی لوگوں کے تحفظات کو منصوبوں میں کس حد تک شامل کیا گیا ہے۔ 

رپورٹ کی سفارشات میں فضلہ کے  بہتر بنیادی ڈھانچے اور ڈس انفیکشن کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بہتر ٹیسٹنگ اور محفوظ پانی کے استعمال کے بارے میں تعلیم شامل ہے۔ 

جہاں مقامی تحفظات  کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جاتے ہیں، ان کے فوری اور متاثر کن نتائج نکل سکتے ہیں۔ ضلع غیزر کی وادی یاسین میں ایک طبی ماہر حسن پناہ نے بتایا کہ گلگت  بلتستان اور چترال کے کچھ علاقوں میں 2010 سے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این ) کی طرف سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے نظام  کے بعد علاقے میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 

2015 کی ایک پریس ریلیز میں ، اے کے ڈی این نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت جرمن حکومت ، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ شراکت داری میں  12000 سے زائد گھریلو نلکے  اور 500 اجتماعی نلکے لگائے تھے ، جس سے  200،000 سے زائد لوگوں کو پانی دستیاب ہوا-

پناہ نے کہا ، “اسہال ، ٹائیفائیڈ کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس اے کی شرح خاص طور پر بچوں میں بہت حد تک کم ہو گئی ہے۔”