icon/64x64/pollution آلودگی

پاکستان کے دور دراز دیہاتوں میں ، پانی تک رسائی تحفظ کی ضمانت نہیں

رتو خان رند میں گاؤں والوں کے پاس یا تو بہت زیادہ پانی ہوتا ہے یا بہت کم۔ لیکن منتخب نمونے کے ٹیسٹ سے پتا چلتا ہے کہ اس کا بیشتر حصہ پینے کے لئے نا مناسب ہے۔

مالڈا برکت ، ٹھٹھہ ضلع کے رتو خان رند گاؤں میں اپنے گھر کے قریب ایک ہینڈ پمپ کے پاس کھڑی ہے۔ وقفے وقفے سے پانی کی فراہمی کا مطلب ہے کہ انہیں گدھاگاڑی پر دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ ( تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم)

 پاکستان کی ساحلی بیلٹ پر بحیرہ عرب سے کوئی سات کلومیٹر دور  واقع رتو خان رند گاؤں کے رہائشی گلاں الله بخش  کے پاس بہت سی وجوہات ہیں کہ رتو خان رند میں زندگی کیوں اتنی دشوار ہے- 

Read the whole story

This is the first of two stories investigating the quality of coastal communities’ drinking water. Read our investigation from Bangladesh here.

انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، “ہمارے پاس گیس نہیں ہے ، نہ دھاتی سڑکیں ہیں ، نہ کوئی ملازمت۔”  لیکن پانی کی قلّت سرفہرست ہے- “یا تو بہت زیادہ پانی  ہے یا پھر خشک سالی جیسی حالت  ہے،” انہوں نے کہا- دونوں ہی صورتوں میں فصلوں کا نقصان ہوتا ہے۔

یہ گاؤں صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں ہے جو  بندرگاہی شہر کراچی  کوئی  80 کلومیٹر دور ہے۔ ایک بڑی نہر ، جسے مقامی طور پر سیم نالہ کہا جاتا ہے (ایک ذیلی نالی جو کھارا پانی ، زرعی بہاؤ اور سیلاب کا پانی جمع کرتی ہے  اور اسے  بحیرہ عرب میں بہاتی ہے) گاؤں کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے- موٹے سیاہ ربڑ کے پائپوں کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے جو ان کے  گھروں تک جاتے ہیں ، گائوں والے ڈیزل سے چلنے والی موٹروں کی مدد سے نمکین پانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں- 

“بارش کے موسم میں نہر بھرجاتی ہے اور پانی ہمارے گھروں تک پہنچ جاتا ہے، ” ان کی 21 سالہ بہو ، مالدہ برکت نے بتایا- انہوں نے کہا کہ باض دنوں میں ان کی کمر تک پانی آجاتا ہے-

پانی کی بے قاعدہ فراہمی ایک دہائی سے جاری ہے ، جس سے گاؤں کے مرد کھیتی باڑی چھوڑ کر قصبوں اور شہروں میں متبادل معاش نکل جاتے ہیں۔ برکت کے والد ، محمد یونس نے ٹماٹر ، کدو ، چاول اور گندم کاشت کرنی ترک کردی۔ اب وہ کراچی کی ماہی گیری میں کام کرتے ہیں۔ ایک مقامی کارکن، علم دین کو حال ہی میں ایک ملٹی نیشنل میں کام ملا۔ یونس نے  کہا ، “میں کاشتکاری میں پیسہ نہیں لگانا چاہتا ، بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال ہے-“

Pakistan Sindh water shortage pollution salinity
سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے رتو خان رند میں برکت کے کنبے کے لئے پانی ڈھو کر لانے کے لئے گدھا گاڑی تیار کی جارہی ہے-   بدین ضلع کے احمد راجو گاؤں کے قریب ، نوجوان رضاکار  نہر سے پانی کا نمونہ لے رہا ہے -( تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم)

پروین اکبر اور ان کی چار بیٹیوں میں سے ایک پانی لانے کے لئے قریبی تالاب تک  پیدل جاتی ہیں- وہ ایک وقت میں 30 لیٹر پانی اپنے سروں پر اٹھاتی ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے گھر کی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چار چکر لگاتی ہیں۔ انھیں روزانہ چار چکر لگانا ہوتے ہیں- انہوں نے کہا کہ یہ پانی قیمتی ہے اور “پینے ، کپڑے اور برتن دھونے ، کھانا پکانے اور نہانے” کے لئے کفایت شعاری سے استعمال ہوتا ہے- اسے اٹھا کر لانے سے انہیں ” شدید درد ” ہوتا ہے- انہوں نے دی تھرڈ پول  کو بتایا ، “میرے سر ، بالوں ، گردن اور کمر میں ہر وقت درد رہتا ہے-” 

تاہم ، برکت کے 14 افراد کے کنبے کے پاس ایک گدھا گاڑی ہے لہٰذا انہیں  وزن اٹھانا نہیں پڑتا۔ اس نے کہا کہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اکبر کے یا کسی اور عورت کے کنستر لے جا سکیں کیونکہ گاڑی میں  بہت  تھوڑی جگہ باقی رہتی ہے۔ “ہم پیاس سے  مر رہے ہیں،”برکات نے کہا-   

پینے کے لئے مناسب نہیں 

نہ صرف پانی کی کمی ہے ، جو دستیاب ہے وہ پینے یا نہانے کے لئے نا مناسب ہے- دی تھرڈ پول  نے رتو خان رند گاؤں میں تین مقامات سے پانی کے تین نمونے اکٹھے کیے- ان نمونوں کا کراچی میں پاکستان کونسل آف  ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا۔ نتائج سے پتہ  چلا کہ نمونے پینے کے لئے نا مناسب تھے۔ 

اگرچہ یہ پانی پینے سے پہلےابالا نہیں جاتا گاؤں کے لوگ مصر ہیں کہ وہ اس پانی کے استعمال سے کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں۔ 

پروین اکبر نے کہا ، “میں صحتمند ہوں ،” لیکن ساتھ یہ بھی بتایا ان کے شوہر اکثر پیٹ میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں میں اسہال عام ہے۔

متعدی امراض کے ماہر، جمال مقتدر نے رتو خان رند میں ایک ہینڈپمپ سے جمع کردہ پانی کے نمونے کے بارے میں کہا: “اس میں  کلورائڈ  کی نامناسب مقدار موجود ہیں لہذا بیکٹیریا کو مارنے کے لئے پانی کو جراثیم کُش کرنے کی گنجائش کم ہے۔ پینے کے لئے استعمال معدے کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے ، لیکن اگر یہ برتن ، کپڑے یا نہانے کے لئے استعمال ہوتا ہے تو یہ مضر نہیں ہے۔ یہ پینے کے قابل نہیں ہے۔”

تالاب سے پانی کے نمونے کے نتائج پر ، مقتدر نے کہا: ” زیادہ  آلودگی کا مطلب ہے کہ پانی بیکٹیریا کو بچائے گا اور جراثیم کُش اپنا  کام نہیں کر سکیں گے۔ اس میں فضلہ موجود ہے اور شدید اسہال کا خطرہ ہے ، یہاں تک کہ ٹائیفائیڈ کا خطرہ  کئی گنا زیادہ ہے- اگر ابال کر بھی پیا جاۓ تب بھی یہ پانی کافی مضر صحت ہے -“

پانی اور صحت کا قریبی تعلق ہے 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ، آلودہ پانی اور ناقص صفائی سے ہیضے ، اسہال ، پیچش ، ہیپاٹائٹس اے ، ٹائیفائیڈ اور پولیو جیسی بیماریوں کی منتقلی منسلک ہے۔ اسہال سب سے زیادہ مشہور بیماری ہے جو آلودہ کھانے اور پانی سے منسلک ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر خطرات بھی ہیں۔

زیادہ تر دیہاتیوں کو معلوم تھا کہ سیم نالہ کا پانی پینے کے لئے کبھی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پھر بھی ، بخش نے اعتراف کیا ، جب یہاں شدید قلّت تھی ، تو وہ اس کا استعمال نہانے یا کپڑے دھونے کے لئے کرتے تھے۔ انہوں  نے اپنی  شلوار کا ایک  پائنچہ اٹھایا اور اپنی  ٹانگ پر مسلسل خارش سے پیدا ہونے والے انتہائی برے  زخم  کی طرف اشارہ کیا- “میں دوا لینے قریبی کلینک گئی تھی  اور ڈاکٹر نے مجھے پانی ابالنے کے لئے کہا۔ میں نے علاج چھوڑ دیا ہے ، کیونکہ  مجھے احساس ہوا کہ یہ پیسہ ضائع کرنا ہے کیونکہ ہم پانی ابالنے کے لئے اتنی لکڑی نہیں خرید سکتے،” انہوں نے کہا- انہوں نے اس مسئلے کے آگے ہار مان لی ہے-

مقتدر نے سیم نالے کے نمونے کے  نتائج دیکھے اور کہا: یہ پینے یا دھلائی کے قابل نہیں ہے- اس میں کلورائڈز اور کاربونیٹ پانی میں زیادہ  مقدار میں ہیں لہذا صفائی کرنے والے ایجنٹوں جیسے ڈٹرجنٹ اتنے موثر نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس میں نا خوشگوار بو اور دھاتی ذائقہ ہوگا- اس میں فضلہ بھی ہے- پانی میں ٹوٹل ڈیزولوڈ  سالڈ (ٹی ڈی ایس) دانتوں ، جلد اور بالوں کی رنگت بگڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے پائپ خراب ہونگے -“

گل محمد قریبی حکومت کے تحت چلنے والی بنیادی ہیلتھ یونٹ (بی ایچ یو) کے انچارج ڈاکٹر ہیں ، جو صبح 8:00 بجے سے دوپہر 2:00 بجے تک چلتی ہے اور تقریباً  260 چھوٹے دیہاتوں پر محیط ہے- انہوں نے کہا ، “جب تک یہ گاؤں والے  صاف پانی استعمال نہیں کرتے اور پیتے، وہ اسہال ، ہیپاٹائٹس سی ، پیٹ میں درد اور جلد کی بیماریوں کے علاج کے لئے کلینک میں آتے رہیں گے۔” وہ ان کا اورل  ری ہائیڈریشن نمکیات سے علاج کرتے ہیں جو “شدید پانی کی کمی سے دوچار مریضوں” کو نس میں ڈرپ کے ذریعے دیا جاتا ہے- کچھ کو انفیکشن کے لئے اینٹی بائیوٹک کے ساتھ گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

گل محمد نے بتایا کہ کلینک میں آنے والی متعدد خواتین میں “خون کی شدید کمی” پائی گئی اور انہیں پیشاب کی نالی کے انفیکشن (یو ٹی آئی) کی شکایت بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آلودہ پانی کا مسلسل استعمال صحت کے ان مسائل کے پیچھے ایک عنصر ہوسکتا ہے-

لیکن اس بات سے اختلاف  کراچی میں مقیم ماہر امراض نسواں اور ماہر وضع حمل عذرا احسن نے کیا- انہوں نے کہا ، “آلودہ پانی کے طویل استعمال کے ساتھ یو ٹی آئی یا تولیدی صحت کے انفیکشن کے مابین کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے-” مزید یہ کہ  یہ ثابت کرنے کے لئے “بہت کم یا کوئی ثبوت نہیں”  کہ غیر محفوظ پانی حاملہ خواتین میں اسقاط حمل کا باعث بن سکتا ہے۔

بی ایچ یو رتو خان رند سے آدھے کلومیٹر دور ہے ، لیکن محمد کے نزدیک یہ قریبی شہر مکلی سے موٹرسائیکل پر دو گھنٹے کا سفر ہے-  بی ایچ یو میں کام کرنے والے عملے کے دیگر ممبروں کی طرح ہے وہ کبھی بھی اپنا پانی لانا نہیں بھولتے- کلینک کے میڈیکل ڈسپنسر ، رستم خان کاشخیلی نے کہا ، “یہاں ذخیرے کے ئے  ٹینک موجود ہے ، لیکن حکومت کے لئے یہاں پینے کے پانی کی فراہمی کرنا مہنگا ہوگا کیونکہ یہ ہیلتھ یونٹ کافی دور ہے- 

رتو خان رند میں بی ایچ یو کے برعکس ، بدین کے ملحقہ ضلع احمد راجو گاؤں کے قریب  سرکاری کلینک میں بوتل بند پانی ملتا ہے۔ ہیڈ ڈاکٹر شریف چانڈیو نے کہا ، “ہمیں سردیوں میں 50 لیٹر اور گرمیوں میں 80 لیٹر پانی ملتا ہے-” 

انہوں نے بتایا، اوسطاً  ، ان کے پاس ایک دن میں 150 مریض آتے ہیں جن میں سے “تقریبا 70٪ خواتین” تھیں- پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں ، انہوں نے بتایا کہ بہت سارے اسہال ، ہیپاٹائٹس بی اور سی اور مختلف قسم کے جلدی  امراض میں مبتلا ہیں۔ بہت سے لوگ گردے کے پتھری کے ساتھ آتے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہے- انہوں نے کہا ، “پانی کھارا ہے اور استعمال کے قابل نہیں ہے- 

میڈیکل ڈسپنسر ، علی نواز نے بتایا کہ قریبی نہر میں “کھیلنے” کی وجہ سے بچے پیٹ کے کیڑے ، بالوں کی جوؤں اور خشکی کے ساتھ آتے ہیں-

بدین ضلع کے احمد راجو گاؤں کے قریب  شدید گرمی میں بچے کیچڑ والے  پانی میں کھیل رہے ہیں- ( تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم)

بارہ سالہ اعزام علی نے اعتراف کیا کہ وہ نہر میں پڑوس کے بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے، خاص طور پر شدید گرمی کے موسم میں، لیکن اس کے والد نے اسے مکمل طور پر منع کردیا ہے- انہوں نے کہا ، “میرے والد کہتے ہیں کہ میں ڈوب جاؤں گا-” اس کی پھپھوعابدہ مصطفی نے ، علی کی بات سن کر ، وضاحت دی کہ “پانی گندا ہے!”- 

عابدہ مصطفیٰ ایک بیوہ  ہیں اور اپنی سات سالہ بیٹی کے ساتھ ، اپنے دو بھائیوں کے مشترکہ خاندان کے ساتھ رہتی ہیں- ان  کی سات بہنیں ، سبھی شادی شدہ اور ایک ہی گاؤں میں رہائش پذیر ، ہر صبح ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ہینڈ پمپ پر جاتی ہیں جہاں پر “100 کے قریب  خواتین” کا  ” ہجوم” لگا ہوتا ہے- یہ تمام اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں- انہوں نے کہا ، “لیکن پانی کافی اچھا ہے اور ہمیں کوئی پریشانی یا بیماری نہیں ہے-“

تاہم ، گاؤں کے دو مختلف ہینڈپمپوں سے لئے گۓ پانی کا ٹیسٹ اور تجزیہ، اس سے ایک الگ کہانی سناتے ہیں- ماہرین اس کو “پینے کے لئے نا مناسب” قرار دیتے ہیں۔ احمد راجو میں نالے سےلئے گۓ پانی کے نمونے پر تبصرہ کرتے ہوئے مقتدر نے کہا: اس میں بہت زیادہ گندگی اور کولی فارم موجود ہے- پانی کا یہ نمونہ ان چھ میں سب سے زیادہ مضر ہے۔ اسے پینے، نہانے یا کپڑے دھونے کے لئے قطعًا استعمال نہیں ہونا چاہئے- اس سے جلد ، بالوں اور دانتوں کی رنگت خراب ہوجائے گی۔ 

بدین ضلع کے احمد راجو گاؤں کے قریب ، نوجوان رضاکار  نہر سے پانی کا نمونہ لے رہا ہے -( تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم)

’پراگریس آن ہاؤس ہولڈ ڈرنکنگ واٹر، سینیٹیشن اینڈ ہائی جین 2000- 2020  ‘ کے عنوان سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  اور یونائیٹڈ نیشنز چلڈرنز فنڈ (یونیسیف) کی مشترکہ مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق ، 2016 اور 2020 کے درمیان ، عالمی سطح پر پانی ، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت (WASH) کے اسکور میں بہتری آئی ہے جہاں گھر میں پینے کے صاف پانی میں  70٪ سے 74٪ تک اضافہ ہوا۔ صفائی ستھرائی سے متعلق سروسز 47 فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد ہو گئیں اور صابن اور پانی سے ہینڈ واشنگ کی سہولیات 67٪ سے بڑھ کر 71٪ ہوگئیں۔ پھر بھی یہ اسکور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز  کے  واش اہداف  6.1 اور 6.2 کو پورا کرنے سے دور ہیں-

واش سے متعلق 6.1 اور 6.2 کے ایس ڈی جی اہداف کیا ہیں؟

17 سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز  میں سے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کا نمبر 6 ہے۔

ہدف 6.1: 2030 تک ، سب کے لئے صاف اور سستے  پینے کے پانی تک عالمگیر اور مساوی رسائی حاصل کریں

ہدف 6.2: 2030 تک ، سب کے لئے مناسب اور مساوی صفائی اور حفظان صحت تک رسائی حاصل کریں ، اور کھلی رفع حاجت ختم کریں ، خواتین اور لڑکیوں اور وہ جو مشکل حالات میں ہیں ان کی ضروریات پر خصوصی توجہ دیں

 اور اگر موجودہ رجحانات برقرار رہتے ہیں تو ، 2030 تک دنیا کی صرف 81 فیصد آبادی کو گھر میں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہوگی اور صرف 67 فیصد افراد کو صفائی ستھرائی کی سہولیات میسر ہوں گی- تقریباً  78٪ افراد کو ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولیات میسر ہوں گی- 

رتو خان رند اور احمد راجو کے دیہات میں معاملات جس طرح چل رہے ہیں ، وہاں کے باشندے ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو ایس ڈی جی کے اہداف سے محروم رہ جائیں گے-