توانائی

رائے: پاکستان کو توانائی کی مؤثریت میں بہتری کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے

ملک توانائی کے درآمدی بلوں کی وجہ سے مفلوج ہوتا جا رہا ہے۔ اس کو کم کرنے کا بہترین طریقہ ہے کے طلب کو کم کیا جاۓ۔
اردو
<p>پشاور کے ایک گیس ڈسٹری بیوشن سینٹر میں ایک کارکن مائع پٹرولیم گیس کا سلنڈر اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کا انحصار درآمد شدہ معدنی ایندھن پر بہت زیادہ  ہے۔  (تصویر بشکریہ فیاض عزیز /الامی )</p>

پشاور کے ایک گیس ڈسٹری بیوشن سینٹر میں ایک کارکن مائع پٹرولیم گیس کا سلنڈر اٹھا رہا ہے۔ پاکستان کا انحصار درآمد شدہ معدنی ایندھن پر بہت زیادہ  ہے۔  (تصویر بشکریہ فیاض عزیز /الامی )

پاکستان میں توانائی کے مسائل نئے نہیں ہیں لیکن روس یوکرین جنگ اور عالمی رسد کے بحران کے باعث ان میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ درآمدی ایندھن پر ملک کے زیادہ انحصار نے اسے توانائی کے عدم تحفظ سے دوچار کر دیا ہے، جس میں قیمتوں کے دھچکے، فراہمی میں خلل ، اور ساتھ ہی توانائی کی قیمتوں میں مسلسل گرانی بھی شامل ہیں۔ ہم معدنی ایندھن ( ایندھن کا ضمنی تیل، مائع قدرتی گیس اور کوئلہ) پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جو ملک کی 2021 کی توانائی کی سالانہ کتاب کے مطابق، پاکستان کی بنیادی تجارتی توانائی کی فراہمی کا 86 فیصد حصہ بناتے ہیں۔ پاکستان کا ایندھن کا درآمدی بل مالی سال 2021-22 میں بڑھ کر 23 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، جو پچھلے مالی سال سے 105 فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان کی توانائی کا اضافی درجہ (جی ڈی پی کا ایک امریکی ڈالر پیدا کرنے کے لئے درکار توانائی) 2018 میں 4.6 میگاجولز (ایم جے) فی ڈالر تھی، جو کہ خطے یا دیگر ممالک کے مقابلے زیادہ ہے۔ یہ غیر موثریت درآمدی ایندھن پر ملک کے انحصار کو بدتر کرتی ہے کیونکہ اس سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ فراہم کردہ کل بجلی کا 50 فیصد گھریلو استعمال میں صرف ہوتا ہے۔ لائٹنگ اور کولنگ اس طلب کا بڑا حصّہ ہیں۔ پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں متوقع اضافہ، توانائی کے ناقص درجۂ مؤثریت  کے ساتھ مل کر، توانائی کی طلب پر دباؤ ڈالتا رہے گا، جس کا تخمینہ ایک انڈسٹریل ڈیکاربونائزیشن رپورٹ کے مطابق 2020 میں 106 ٹیراواٹ آورز (ٹی ڈبلیو ایچ) سے بڑھ کر 2030 میں 234 ٹی ڈبلیو ایچ ہو جائے گا، جو کہ 121 فیصد اضافہ ہے۔ یہ رپورٹ ورلڈ بینک کی طرف سے شائع ہونے والی ہے۔

حکومتوں نے توانائی کی مؤثریت کو نظر انداز کیا ہے

پاکستان میں توانائی کی مؤثریت اور بچت کو کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تمام حکومتوں نے توانائی کی طلب کو کم کرنے کے بجائے پیداواری صلاحیت کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے، حالانکہ ڈیمانڈ سائیڈ اقدامات کی لاگت بہت کم ہے اور وہ فوری کامیابیاں دے سکتے ہیں۔

پہلی قومی توانائی کی مؤثریت کی پالیسی 2006 میں وضح کی گئی تھی لیکن یہ کسی بھی قسم کا نتیجہ فراہم کرنے میں غیر موثر رہی۔ انرجی ایفیشنسی اتھارٹی انرکون 1988 میں قائم کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے، اسے پانچ بار ایک وزارت سے دوسری وزارت میں منتقل کیا جا چکا ہے۔  2016 میں این ای ای سی اے  ایکٹ کے نفاذ کے بعد اس کا نام بدل کر نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (این ای ای سی اے) رکھنے کے بعد بھی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔

عالمی بینک کے ریگولیٹری انڈیکیٹرز فار سسٹین ایبل انرجی (آر آئی ایس ای) کی درجہ بندی میں گزشتہ سال پاکستان نے توانائی کی مؤثریت میں 100 میں سے 28 درجہ حاصل کیا تھا۔ ہماری پالیسیاں، قواعد و ضوابط اور مالیاتی طریقہ کار دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔

توانائی کی مؤثریت کا حلقہ کار وسیع ہے

توانائی کی مؤثریت اور تحفظ حکومت کو توانائی کے بحران کا فوری جواب دینے کے لئے انتہائی مؤثر اور کفایت شعار طریقے فراہم کر سکتے ہیں۔ پاکستانی معیشت کی ہائی انرجی انٹنسٹی اور توانائی کی مؤثریت کی نوزائیدہ مارکیٹ کے پیش نظر، ڈیمانڈ سائیڈ بہتری کی زبردست گنجائش موجود ہے۔ این ای ای سی اے  کو موٹرز، لائٹنگ، ایئر کنڈیشنرز، ریفریجریٹرز، اور گیزر اور ہیٹرز جیسے آلات کے لئے توانائی کی کارکردگی کے کم سے کم معیارات پر عمل درآمد تیز کرنا چاہیے جن سے گھرانوں کے لئے لاگت میں خاطر خواہ بچت ہوسکتی ہے۔ اسے متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر ترقیاتی حکام کے ضمنی قوانین میں ترمیم کرنے کے لئے بھی کام کرنا چاہیے، جس میں نئی تعمیرات میں توانائی کی مؤثریت کو شامل کرنا لازمی قرار دیا جاۓ۔ غیر فعال (عمارت کی سمت بندی، گرین چھتیں، انسولیشن) اور فعال اقدامات (توانائی سے موثر حرارتی اور کولنگ سسٹم) کا مجموعہ ان عمارتوں کی توانائی کی ضروریات کو کم کر سکتا ہے۔

توانائی کی مؤثریت کو بڑھانے اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے لیے اس کی قدری پیشکش کو واضح کرنا ضروری ہوگا۔ حکومت ایک سپر-ای ایس سی او قائم کر سکتی ہے جوکہ ایک عوامی ملکیت لیکن تجارتی طور پر چلنے والی انرجی سروسنگ کمپنی (ای ایس سی او) ہو۔ سپر-ی ایس سی او پبلک سیکٹر میں خاص طور پر توانائی کی بچت کے منصوبوں کو ڈیزائن، لاگو، فنانس اور ان کا انتظام کر سکتی ہے۔ یہ بڑے تجارتی اور صنعتی صارفین کے لئے فنانسنگ کی سہولت فراہم کرنے میں بھی کردار ادا کر سکتی ہے۔ دیگر ممالک میں، بشمول بھارت میں ای ای ایس ایل، سعودی عرب میں ترشید، اور متحدہ عرب امارات میں اتحاد جیسی سپر-ای ایس سی اوز کی مثالیں موجود ہیں۔

لائٹس، پنکھے اور اسٹریٹ لائٹس کو تبدیل کرنے جیسی فوری کامیابیوں کو ہدف بنانا ضروری ہوگا جو ہمارے اعدادوشمار کے مطابق، بجلی کے کم بلوں میں 95 بلین پاکستانی روپے ( 431 ملین امریکی ڈالر) کے مساوی 4,750 گیگاواٹ آورز توانائی کی متوقع بچت اور 142 بلین پاکستانی روپے (647 ملین امریکی ڈالر) ایندھن کی سالانہ لاگت میں بچت دے سکتے ہیں۔

لائٹس، پنکھے اور اسٹریٹ لائٹس کو تبدیل کرنے جیسی فوری کامیابیاں بجلی کے بلوں میں 95 بلین پاکستانی روپے کے مساوی متوقع توانائی کی بچت دے سکتی ہے۔

پاور ریگولیٹر نے 2023 کے مالی سال کے لئے  ٹیرف میں 7.9 روپے/کلوواٹ آورز کے اضافے کا تعین کیا ہے، جسے حکومت نے تین مراحل میں لاگو کرنے کا فیصلہ کیا: جولائی میں روپے 3.5/کلوواٹ آورز، اگست میں روپے 3.5/کلوواٹ آورز اور اکتوبر میں روپے 0.91/کلوواٹ آورز۔ سابقہ فائدہ جو کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے تھا غیر محفوظ صارفین کے لئے ختم کردیا گیا ہے، یہ دیکھتے ہوۓ کئی گھرانوں کے بجلی کے بلوں میں 150% اضافہ ہوگا۔ غیر محفوظ صارفین وہ ہیں جنہوں نے گزشتہ چھ ماہ میں 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کی۔

زیادہ تر کم آمدنی والے گھرانوں میں صرف لائٹس اور پنکھے ہوتے ہیں۔ یہ توانائی کے لئے غیرمؤثر ہیں کیونکہ لوگ اب بھی پرانے بلب اور زیادہ بجلی کھانے والے پنکھے استعمال کر رہے ہیں۔ روشنی کے پرانے بلب کو ایل ای ڈی کے ساتھ تبدیل کرنے سے 80 فیصد توانائی کی بچت ہو سکتی ہے جبکہ ایک 3-اسٹار (پاکستان انرجی لیبل) پنکھا زیادہ بجلی والے پنکھے سے کم از کم 50 فیصد کم بجلی استعمال کرتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ وفاقی یا صوبائی سطح پر سپر-ای ایس سی او کے ذریعے لائٹس اور پنکھے بدلنے کا پروگرام شروع کرے۔ یہ کام عوامی خریداری کے ذریعے تیزی سے کیا جا سکتا ہے۔ دیگر گھریلو آلات جیسے الیکٹرک موٹرز اور واٹر ہیٹر کے لئے ایک آن-بل فنانسنگ اسکیم استعمال کی جا سکتی ہے جہاں صارفین بجلی کے بل میں ماہانہ اقساط کے ذریعے ان آلات کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ اس آن-بل فنانسنگ میکانزم کو صارفین کے لئے شمسی توانائی کی پیداوار کی مالی اعانت کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ توانائی کے تحفظ کی ایک قومی مہم شروع کرے جس میں ہر کسی کو توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس مہم میں بغیر لاگت کے اقدامات پر زور دیا جانا چاہیے جیسے ایئر کنڈیشنر کا درجہ حرارت 26 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھنا، خاص طور پر مالز، ہوٹلوں اور دفاتر میں؛ استعمال میں نہ ہونے پر آئی ٹی آلات کو ان پلگ کرنا؛ اور ٹھنڈک یا گرمائش کی ضرورت کو کم کرنے کے لئے موسم کے مطابق کپڑے پہننا۔ اسپین جیسے ممالک کی ایسی مثالیں موجود ہیں۔

توانائی کا موجودہ بحران میکرو اکنامک استحکام پر اثرانداز ہونے کی وجہ سے ایک قومی ہنگامی صورتحال ہے اور اس صورتحال کو کم کرنے میں ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بہترین طریقہ جس میں لاکھوں صارفین اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ہے توانائی کی مؤثریت۔

مترجم: ناہید اسرار