توانائی

عمران خان کے دورۂ روس کا مرکز گیس پائپ لائن ہے، قابل تجدید ذرائع نظرانداز کردیۓ گۓ ہیں

پاکستانی وزیر اعظم ماسکو کا دورہ کر رہے ہیں کیونکہ روس انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے نئے گاہکوں کی تلاش میں ہے، اور پاکستان قدرتی گیس کی مستقل فراہمی کا خواہاں ہے۔ قابل تجدید توانائی کو سائیڈ پہ کیا جا رہا ہے۔
اردو
<p> روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان 2019 میں میٹنگ کے دوران  (تصویر بشکریہ آئی ٹی اے آر &#8211; ٹی اے ایس ایس  نیوز ایجنسی / الامی)</p>

روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان 2019 میں میٹنگ کے دوران (تصویر بشکریہ آئی ٹی اے آر – ٹی اے ایس ایس نیوز ایجنسی / الامی)

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی روس آمد روسی افواج کے یوکرین پر چڑھائی  کی وجہ سے  ڈرامائی طور پر ماند پڑ گئی ہے۔ پاکستان کے لئے ماسکو کا دو روزہ دورہ کے جغرافیائی تزویراتی نتائج  کا جائزہ، جوکہ 23 برسوں میں کسی پاکستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے،  موجودہ تنازعہ کے بہت سے  اداکاروں  کے سخت موقف کے ذریعہ کیے جانے کا امکان ہے۔ طویل مدتی نتائج کا، اگرچہ، قدرتی گیس کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ 

خان کا دورہ روسی گیس کے سب سے بڑے صارف جرمنی کی جانب سے ایک نئی نورڈ اسٹریم 2 پائپ لائن کی سرٹیفیکیشن روکنے کے فوراً بعد ہوا ہے۔ روس نے حال ہی میں چین کو گیس کی فراہمی کے 30 سالہ معاہدے پر اتفاق کیا ہے، جو صدر ولادیمیر پوٹن کے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے دورے کے نتیجے میں ہوا ہے۔ چونکہ روس اپنی تعمیراتی ٹیکنالوجی اور قدرتی ایندھن کے لیے نئے گاہکوں کی تلاش میں ہے، اور پاکستان قدرتی گیس کی محفوظ اور سستی فراہمی کے لیے بے قرار ہے، یہ دورہ روس کے لئے کراچی سے لاہور تک قدرتی گیس کی نقل و حمل کے لئے پائپ لائن کی تعمیر کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

روس قدرتی گیس پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ دریں اثنا، پاکستان، گیس کے کم ہوتے ذخائر کے ساتھ، سپلائی کے ایک بڑے مسئلے کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ گیس اب بھی اس کے توانائی کے مرکب کا بڑا  حصہ ہے۔

پاکستان کے وزیر توانائی حماد اظہر نے دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ روسیوں سے گیس پائپ لائن بچھانے کی “ٹیکنالوجی سیکھنے کا صرف ایک موقع” ہے،ان کے مطابق روسی اس کام میں بہترین ہیں- پاکستان، سندھ میں، کراچی کے پورٹ قاسم سے، پنجاب کے قصور تک 1,100 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن تعمیر کرنا چاہتا ہے، جسے پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ کہا جاتا ہے۔ 2.5 بلین امریکی ڈالر کا منصوبے کے آغاز کی عارضی تاریخ اگلے سال ہے، حالانکہ ابتدائی معاہدے پر پہلے 2015 میں اور دوسری بار 2021 میں دستخط کیے گئے تھے۔ .

Graphic: The Third Pole

حمّاد اظہر نے اسلام آباد سے فون پر دی تھرڈ پول کو بتایا، ’’ہمارے پاس اس منصوبے کے لئے مطلوب پیمانے کی مہارت نہیں ہے۔” انہوں نے کہا کہ ” منصوبے پر  پاکستان کی ملکیت [74%] رہے گی، اس لئے یہ سودا برا نہیں ہے۔”

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، جنہوں نے 2013 میں اس منصوبے کا تصور کیا تھا جب وہ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر تھے،کچھ ایسا ہی خیال رکھتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ منصوبہ مختلف “مالی رکاوٹوں” کی وجہ سے غیر فعال رہا۔

” مجھے یہ خدشہ ہے کہ اس حکومت کو بھی اسی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جو ہم نے کیا تھا اور وہ تعمیر، آپریشن اور منتقلی کی لاگت کا جواز پیش کرنے سے قاصر رہے گی کہ نئی پائپ لائن سے گزرنے والی گیس کی مقدار کے لیے روسیوں کو کتنی رقم ادا کرنی ہے”۔ عباسی نے ایک ماڈل کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا جس کے تحتبڑے منصوبوں کی  مالی اعانت اور ترقی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعےکی جاتی ہے۔

بڑھتی ہوئی طلب، گھٹتی ہوتی رسد

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق 2009 میں پاکستان میں قدرتی گیس کی پیداوار عروج پر تھی، لیکن اس کے بعد سے گیس کی طلب میں مجموعی توانائی کی سپلائی کے فیصد کے طور پر مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک سست رفتار بحران پیدا ہوا ہے کیونکہ پاکستان اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا  ہے۔

بڑے شہروں میں گیس کی طویل بندش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس سے رہائشیوں اور کاروبار دونوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں حکومت نے کہا کہ ملک میں مقامی گیس جلد ہی ختم ہو جائے گی، اس لئے  مہنگی درآمدی گیس پر انحصار بڑھ رہا ہے۔

بطور سابق وزیر توانائی، شاہد خاقان عباسی نے  لیکوڈ یفایڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی درآمد کو گھریلو گیس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے توانائی کے بحران کے فوری حل کے طور پر دیکھا تھا۔ کہ “ہم نے ایران سے ایک پائپ لائن کے ذریعے گیس لانے کی کوشش کی لیکن وہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ممکن نہ ہوا، دوسری ترکمانستان کی طرف سے کوشش کی گئی، لیکن یہ بھی سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے نہیں ہو سکا، کیونکہ پائپ لائن کو افغانستان سے گزرنا تھا،” انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا.

“ہمیں اس پائپ لائن کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں مزید ایل این جی کی ضرورت ہے,” موجودہ وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا- “یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس کو شروع کرنے کے لیے میرے تمام پیشروؤں نے جدوجہد کی۔ جبکہ موجودہ حکومت اس میں جلدی نہیں کرے گی، لیکن وہ فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے سے بھی نہیں کترائے گی۔”

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا خیال نہیں کہ پاکستان کو گیس پائپ لائن کی کوئی ضرورت ہے بھی۔ “مقامی گیس کافی زیادہ کم ہو چکی ہے اور موجودہ ٹرمینلز 60 فیصد صلاحیت پر کام کر رہے ہیں۔ پائپ لائنوں کا موجودہ نیٹ ورک مقامی اور درآمدی گیس لے جانے کے لیے کافی ہے،” انہوں نے کہا۔

کمزور انفراسٹرکچر، سپلائی میں خلل

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان گیس کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری جاری رکھے گا؟ یہی وجہ ہے کہ روس کا دورہ، اور ایک ممکنہ ڈیل، پاکستان کے توانائی کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہے۔

“آج، 60 فیصد ایل این جی تین پاور پلانٹس استعمال کرتے ہیں، باقی 40 فیصد صنعتی شعبے کے پاس ہے،” اظہر نے کہا۔ مقامی گیس کی کمی کی وجہ سے،  بشمول کھاد اور سیمنٹ کے کارخانوں کے  “نئے گاہکوں کی ایک بڑی تعداد”   نے ایل این جی  پر انحصار کرنا شروع کردیا ہے۔

اس وقت قطر انرجی سے ہر سال 4.5 ملین ٹن ایل این جی درآمد کی جاتی ہے جس کے ساتھ پاکستان کے طویل مدتی معاہدے ہیں۔ ملک کی خرید اٹالین آئل اور گیس کی بڑی کمپنی ای این آئی اور اشیاء کے تاجر گن وَر سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ اب بھی پاکستان کے لئے کافی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں، اظہر کا کہنا ہے کہ جبکہ گیس کے ذخائر 9 فیصد سالانہ کم ہو رہے ہیں، زیادہ سے زیادہ درآمدی صنعتوں نے اپنی فیکٹریاں چلانے کے لیے ایل این جی کا رخ کیا۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟

کہ یہ پیشن گوئی ہے کہ پاکستان اگلے پانچ سالوں میں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے ساتھ ایشیا میں ایل این جی کی نمود پر غالب ہوگا۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، تینوں ممالک 2021-25 کے دوران ایل این جی کی درآمد کو تقریباً دوگنا کر دیں گے۔

مانگ تو موجود ہے لیکن اسے پورا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ نہیں۔

پاکستان کے پاس، پورٹ قاسم پر، دو ایل این جی ٹرمینل ہیں: اینگرو ایلنجی ٹرمینل لمیٹڈ (ای ای ٹی ایل) اور پی جی پی کنسورشیم لمیٹڈ (پی جی پی سی ایل)، جو بالترتیب 2015 اور 2017 میں بنائے گئے تھے۔ جیساکہ 2023 کے  انتخابات  نزدیک آتے جارہے ہیں، گیس کی قلت کو ختم کرنے کے لئے حکومت کی بیچینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نے وزارت توانائی کو 2023 کے آخر تک تیسرا ٹرمینل بنانے کا حکم دیا۔

لیکن پاکستان کا مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اس موسم سرما میں، دو طویل المدتی کنٹریکٹ سپلائرز، ای این آئی اور گن وَر  کے ڈیلیوری میں ناکام ہونے کے بعد، پاکستان کو طلب پوری  کرنے کے لئے قطر انرجی سے 30.6/ایم ایم بی ٹی یو  امریکی ڈالر میں ایل این جی خریدنی  پڑی۔ 

“گھریلو کمی کی وجہ سے ہمیں گیس کی بے پناہ قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے ہمیں ریلیف کے لیے ایل این جی کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے ۔ کیونکہ بلآخر، یہ پاکستان  کا واحد سب سے بڑا بنیادی ایندھن ہے،” ایک معروف کاروباری اور اقتصادی صحافی خرم حسین کہتے ہیں ، “اور اسی لئے پائپ لائن ملک کے لیے اہم ہے”۔y.

گرین توانائی کو بھولتے جارہے ہیں

گیس کی قلت پر قابو پانے کی اپنی دوڑ میں، تاہم، ایسا لگتا ہے کہ حکومت ملک کو چلانے کے لئے صاف اور سرسبز طریقے کے اپنے وعدوں کو بھول گئی ہے۔

انوائرنمنٹل کنسلٹنسی فرم ہیگلر بیلی پاکستان کے سربراہ وقار زکریا نے کہا کہ ماضی میں ایل این جی میں سرمایہ کاری کرنا سمجھ میں آتی تھی لیکن آج یہ کہیں زیادہ مہنگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایل این جی “قدرتی ایندھن میں  سب سے سستی  اور صاف ترین” ہوا کرتی  تھی، اور پاکستان میں استعمال کے لیےگیس کا  تیار بنیادی ڈھانچہ موجود تھا۔ لیکن، انہوں نے مزید کہا، پاکستان یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ کوئلے اور تیل کے ” ساکھ خراب” ہونے سے، دنیا نسبتاً گندے ایندھن کو تبدیل کرنے کے لئے گیس کی طرف دیکھے گی، اور یہ کہ عالمی طلب میں اضافے کے ساتھ، گیس کی قیمت قدرتی طور پر بڑھ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ملک کی “وافر ہوا اور شمسی صلاحیت” سے فائدہ اٹھایا جائے اور بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی گیس پر انحصار نہ کیا جاۓ۔   

مختصر المدت میں، مائع قدرتی گیس دراصل کوئلے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
حانیہ اساد، انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس

یہ بھی امکان ہے کہ شمسی اور ہوا کی طرف منتقلی کافی  سستی ہوگی۔ انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس کی ایک ریسرچ ایسوسی ایٹ، حانیہ اساد نے حساب لگایا کہ ایک بیرون ملک ایل این جی ٹرمینل کی لاگت   400-500 ملین امریکی ڈالر کے درمیان ہوگی۔ “میں آپریشنل اخراجات اور درآمد شدہ ایندھن کی لاگت اس میں شامل نہیں کر رہی ہوں،” انہوں نے تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا۔

اس کے مقابلے میں، انہوں نے بتایا کہ 600,000 امریکی ڈالر فی میگاواٹ (ایم ڈبلیو) پر، 1,000 میگاواٹ کے سولر پلانٹ کی تنصیب پر تقریباً ایک  ایل این جی  ٹرمینل کے برابر لاگت آئے گی۔ مزید براں یہ کہ ہوا اور شمسی توانائی سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ایل این جی سے وابستہ اخراج کا محض ایک حصہ ہے۔ اساد  نے کہا، “ملکی طور پر دستیاب ہونے اور نہ ہونے کے برابر معمولی اخراجات جیسے اضافی فوائد کے بارے میں ہم جانتے ہی ہیں”۔ 

اساد کے مطابق، ایل این جی کے کوئلے سے زیادہ صاف ہونے کے دعوے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ “مختصر مدت میں، یہ واقعی کوئلے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اگر ہم معاملات کو دورانیہ حیات کے نقطہ نظر سے دیکھیں،” انہوں نے مزید کہا کہ کنویں سے لے کر پاور پلانٹس میں اصل ایندھن کے جلانے تک، پوری ایل این جی سپلائی چین کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین کے اخراج کا باعث بنتی ہے۔ “20 سال کی مدت میں، میتھین کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 80 گنا زیادہ طاقتور ہو سکتی ہے،” انہوں نے کہا۔

وسائل سے بھرے پاکستان کے لئے، ایل این جی سے پیسہ نکالنے اور آب و ہوا کے موافق قابل تجدید ذرائع میں سرمایہ کاری کرنے میں اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔