icon/64x64/energy توانائی

گرین ہائیڈروجن کیا ہے؟ کیا یہ جنوبی ایشیاء میں توانائی کو تبدیل کرسکتی ہے؟

گرین ہائیڈروجن بہت زیادہ آلودگی پھیلانے والے شعبوں میں قدرتی ایندھن کو فارغ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جنہیں شمسی اور بادی توانائی مؤثر طریقے سے نشانہ نہیں بنا سکتے۔

گرین ہائیڈروجن کے سب سے امید افزا استعمالات میں سے ایک پبلک ٹرانسپورٹ میں روایتی ایندھن کی جگہ اسکا استعمال ہے (تصویر بشکریہ الامی )

گرین ہائیڈروجن صاف توانائی کے ممکنہ زرائع کے طور پر توجہ حاصل کر رہا ہے، اور اسکا ذکر اکثر ‘مستقبل کے ایندھن’ کے طور پر کیا جارہا ہے۔ لیکن گرین ہائیڈروجن ہے کیا؟ اسے ‘گرین’ کیا چیز بناتی ہے؟ یہاں ہم توانائی کے اس امید افزا ذرائع کے بارے میں بات کریں گے اور ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں اس کی ترقی اور امکانات کی وضاحت کریں گے۔

گرین ہائیڈروجن کیا ہے؟

ہائیڈروجن گیس کو نقل و حمل، بجلی کی پیداوار اور صنعتی سرگرمیوں میں بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ جلاۓ جانے پر گرین ہاؤس گیسوں  جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج نہیں کرتا۔ گرین ہائیڈروجن کا نام اس ہائیڈروجن گیس کو دیا جاتا ہے جو قابل تجدید توانائی، جیسے ہوا یا شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی جاتی ہے، اور جو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نہیں کرتی۔

 ہائیڈروجن کو بطور ایندھن کیسے استعمال کیا جاتا ہے ؟

ایندھن سیل میں- ایک ایسا آلہ جو کیمیکل کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرتا ہے – ہائیڈروجن گیس آکسیجن کے ساتھ رد عمل کرکے بجلی اور آبی بخارات پیدا کرتی ہے۔ کاربن کے اخراج کے بغیر توانائی پیدا کرنے کی ہائیڈروجن کی اس صلاحیت کی وجہ سے، یہ قدرتی ایندھن کا ایک ممکنہ صاف متبادل ہے۔

ہائیڈروجن کیسے پیدا ہوتی ہے؟

ہائیڈروجن کائنات میں کثرت سے پایا جانے والا کیمیائی عنصر ہے۔ کثرت سے موجود ہونے کے باوجود، ہائیڈروجن قدرتی طور پر قابل استعمال مقدار میں بطور گیس دستیاب نہیں ہے، یہ زیادہ تر مرکبات، جیسے پانی کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ لہذا، ہائیڈروجن صنعتی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے پیدا کی جاتی ہے. ان میں زیادہ تر قدرتی گیس یعنی قدرتی ایندھن میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ دیگر طریقے بھی موجود ہیں، بشمول الیکٹرولائسز نامی ایک عمل، جس کے تحت پانی کو اس کے بنیادی اجزاء: ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کرنے کے لیے برقی رو کا استعمال کیا جاتا ہے۔

گرین، گرے اور بلیو ہائیڈروجن کے درمیان کیا فرق ہے؟

حالانکہ ہائیڈروجن گیس جلنے پر کاربن کا اخراج نہیں کرتی ہے، لیکن اسے پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی بجلی، چاہے وہ الیکٹرولائسز کے ذریعے ہو یا کسی دوسرے عمل سے، قدرتی ایندھن سے پیدا کی گئی ہو گی۔ اسے عام طور پر ‘گرے ہائیڈروجن’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اس وقت کل پیداوار کا 95 فیصد ہے۔

کوئلے یا گیس سے بجلی کا استعمال کرتے ہوئے ہائیڈروجن تیار کی جاتی ہے، لیکن کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج (سی سی ایس) ٹیکنالوجیز کے ساتھ اسے جوڑا جاتا ہے، جو اس عمل میں خارج ہونے والے کاربن کے اخراج کو روکتی ہے اور انہیں فضا میں داخل ہونے سے روکتی ہے، اسے ‘بلیو’ کا نام دیا جاتا ہے۔

سبز ہائیڈروجن قابل تجدید بجلی کے ذریعے چلنے والے الیکٹرولائسز سے حاصل کی جاتی ہے، جو کہ سولر پینلز یا ونڈ ٹربائنز جیسی ٹیکنالوجیز کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔

Gabriella Sales / Diálogo Chino / The Third Pole

کیا گرین ہائیڈروجن توانائی کے مرکب کا ایک اھم جزو بن جائے گا؟

بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق، ہائیڈروجن توانائی کی عالمی منتقلی میں اہم کردار ادا کرے گی، لیکن یہ معمے کا صرف ایک نسبتاً چھوٹا ٹکڑا ہوگا۔ انرجی واچ ڈاگ کا کہنا ہے کہ 2020 میں، ہائیڈروجن اور ہائیڈروجن پر مبنی ایندھن کی کل عالمی توانائی کی کھپت کا 0.1 فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔ جو2050 تک 10 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے، ایسے منظر نامے میں جس میں دنیا کاربن غیر جانبداری تک پہنچ جائے۔

ہائیڈروجن تکمیل کر سکتا ہے لیکن صاف توانائی کے دوسرے ذرائع جیسے شمسی یا ہوا کی توانائی کا متبادل  نہیں ہوسکتا ، جو پیداواری اعتبار سے سستی رہے گا، اور بڑے پیمانے پر پیدا کی جاسکے گی اور گھروں اور کارخانوں  کے لئے بجلی بنانے کے لیے زیادہ موزوں ہے-

تاہم، ایک مضبوط قابل تجدید بنیادی ڈھانچہ، جو پانی کو اس کے بنیادی عناصر میں الگ کرنے کے لیے درکار بجلی فراہم کرے بڑے پیمانے پر گرین ہائیڈروجن کی پیداوار کو بڑھا سکتا ہے۔ “گرین ہائیڈروجن قابل تجدید توانائی کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن گرین ہائیڈروجن کی پیداوار شمسی توانائی سے بڑی حد تک ممکن  ہو جائے گی،” انڈین آئل کارپوریشن (آئی او سی) کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ڈائریکٹر ایس ایس وی راما کمار نے دی تھرڈ پول کو بتایا۔

گرین ہائیڈروجن کے سب سے زیادہ امید افزا استعمال کیا ہیں؟

عالمی سطح پر، آج پیدا ہونے والی زیادہ تر ہائیڈروجن ریفائننگ اور صنعتی شعبوں میں استعمال ہوتی ہے۔ دہائی کے اختتام تک، آئی ای اے کا اندازہ ہے کہ ہائیڈروجن کو بشمول پاور گرڈ اور تعمیرات اور نقل و حمل کے شعبوں کو ایندھن فراہم کرنے کے بہت سے نۓ استعمال ملیں گے۔

آج، پیدا ہونے والی ہائیڈروجن کا ایک چھوٹا حصہ کھاد کی صنعت کے لیے امونیا بنانے یا جہاز رانی کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کا اسٹیل کی صنعت میں بھی استعمال ہے۔ اگر کوئلہ اور کوک جو آج کل زیادہ تر بلاسٹ فرنسز کو بجلی فراہم کرتے ہیں، کو گرین ہائیڈروجن سے تبدیل کر دیا جائے تو اس شعبے کے کاربن کے اخراج کی ایک بڑی مقدار سے بچا جا سکتا ہے۔

بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں، جو اپنے توانائی کی منتقلی کے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد کے لیے نیشنل ہائیڈروجن مشن میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، ہائیڈروجن کو نقل و حمل، بجلی کی پیداوار اور صنعت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پیداوار کو گرین کرنے سے قدرتی ایندھن کی مقدار میں بھی کمی آئے گی جو ملک اس وقت گرے ہائیڈروجن، جیسے قدرتی گیس یا نیفتھا پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

دیگر قابل تجدید ذرائع کے مقابلے گرین ہائیڈروجن ٹیکنالوجیز کے کیا فوائد ہیں؟

قابل تجدید ٹیکنالوجیز، جیسے شمسی، ہوا یا پن بجلی، بنیادی طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، جو کہ معاشرے کی توانائی کی کھپت کا صرف ایک عنصر ہے۔ جبکہ بجلی تمام توانائی کے استعمال کا ایک بڑا حصہ ہے، اور اسے نسبتاً آسانی سے قابل تجدید توانائی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، دوسرے شعبے جیسے طویل فاصلے تک چلنے والی نقل و حمل یا بھاری صنعتیں اب بھی کوئلہ، قدرتی گیس یا پیٹرولیم استعمال کرتے ہیں۔ یہ توانائی کے اہم ذرائع ہیں جو ہائیڈروجن سے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

آئی ای اے کے مطابق ہائیڈروجن کو بیٹریوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایندھن کے سیل، اگر بڑے پیمانے پر تیار کیے جائیں تو، ایسے بنیادی ڈھانچے کے قیام میں ممالک کی مدد کر سکتے ہیں جو قابل تجدید توانائی کی فراہمی کو ذخیرہ اور مستحکم کر سکیں، جس میں ماحولیاتی حالات جیسے ہوا کی رفتار یا شمسی تابکاری پر انحصار کی وجہ سے اتار چڑھاؤ رہتا ہے۔

گرین ہائیڈروجن پیدا کرنا کتنا مہنگا ہے؟

گرین ہائیڈروجن کی قیمت، آئی ای اے  کے گلوبل ہائیڈروجن ریویو 2021 کے مطابق، فی کلوگرام فی الحال 3 امریکی ڈالر  اور  8 امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔ یہ گرے ہائیڈروجن کے ساتھ مسابقتی نہیں ہے، جس کی پیداوار کے لیے 0.5 امریکی ڈالر اور 1.7 امریکی ڈالر فی کلو کے درمیان لاگت آتی ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں یہ فرق فی الحال گرین ہائیڈروجن کو زیادہ وسیع پیمانے پر اپنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، لیکن توقع ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کی قیمتوں میں کمی سے یہ فرق کم ہو جائے گا۔ کئی ممالک 2030 تک 1 امریکی ڈالر فی کلو کی لاگت کا ہدف بنا رہے ہیں، جو اسے قدرتی ایندھن کے ساتھ تقریباً مسابقتی بنا دے گا، دہلی کے ایک تھنک ٹینک، کونسل آن انرجی، انوائرنمنٹ اینڈ واٹر (سی ای ای ڈبلیو) کے دیپک یادو نے دی تھرڈ پول کو بتایا۔

دریں اثنا، قابل تجدید توانائی کے اسٹارٹ اپ اوہمیم کے ڈائریکٹر، پشوپتی گوپالن کا خیال ہے کہ صنعت کے بڑھنے کے ساتھ ہی گرین ہائیڈروجن کی لاگت مزید کم  ہو جائے گی، لیکن اس کو فعال کرنے کے لیے پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

بھارت، پاکستان اور باقی جنوبی ایشیا میں گرین ہائیڈروجن کی ڈویلپمنٹ کی کیا حالت ہے؟

سی ای ای ڈبلیو کے دیپک یادیو نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ پاکستان کے پاس فی الحال 150 ٹن یومیہ پیداوار کے ساتھ گرین ہائیڈروجن کی صلاحیت پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی گرین ہائیڈروجن پائلٹ چل رہے ہیں۔ تاہم، یادیو کے مطابق، بھارت سے جنوبی ایشیا میں گرین ہائیڈروجن پیدا کرنے والا بڑا ملک بننے کی امید ہے۔

اگست 2021 میں، ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نیشنل ہائیڈروجن مشن کا آغاز کیا۔ اس نے 2030 تک سالانہ تقریباً 1 ملین ٹن گرین ہائیڈروجن پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا۔ آئی او سی کے ایس ایس وی راما کمار نے تھرڈ پول کو بتایا کہ منصوبے کے تحت، حکومت کی طرف سے الیکٹرولائزر مینوفیکچرنگ اور تحقیق اور تیاری کے لیے مالی امداد کے لیے پیداوار سے منسلک ترغیبی اسکیم شروع کرنے کی توقع ہے۔

انہوں نے مزید کہا: “درمیانی ہدف یہ ہے کہ 2030 تک، ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کاربن ڈائی آکسائڈ  کی موجودہ سطح سے 1 بلین ٹن تک کم کر دیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو، ہائیڈروجن ہندوستان کو گرین  راستے پر لانے کے لیے ایک بہترین حل ہے۔

ترقی پذیر ممالک کو گرین ہائیڈروجن کو فروغ دینے کے لیے صنعتی اقوام  سے کیا ضرورت ہے؟

جیسا کہ بہت سی انقلاب پذیر ٹیکنالوجیوں کا حال ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے، ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کو بنانے دینے کے لیے فنانس اور علم کے تبادلے کی ضرورت ہے، دہلی میں ایک تھنک ٹینک، کونسل آن انرجی، انوائرنمنٹ اینڈ واٹر (سی ای ای ڈبلیو ) کے دیپک یادو نے دی تھرڈ پول کو بتایا۔ ان کی تنظیم کا اندازہ ہے کہ ہندوستان میں اگلی دہائی میں کل 44 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی صلاحیت ہے۔ لیکن، انہوں نے مزید کہا، یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے منتقلی کی لاگت کو کم کرنے کے لیے دولت مند ممالک کم لاگت کے فنانس تک رسائی فراہم کریں۔

 یادو نے مزید کہا کہ ہندوستان میں مینوفیکچررز ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی فراہم کرنے والوں کے ساتھ مل کر الیکٹرولائزر تیار کر رہے ہیں، جو  بڑے پیمانے پر ہائیڈروجن کی پیداوار کا ایک کلیدی حصّہ ہے۔ سی ای ای ڈبلیو یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک، خاص طور پر وہ جن کے پاس قابل تجدید توانائی کے بڑے نظام کے لیے زمین نہیں ہے، انہیں بھی ترقی پذیر ممالک میں تیار ہونے والے گرین ایندھن اور ٹیکنالوجیز درآمد کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔