icon/64x64/energy توانائی

کوئلے کے منصوبوں سے چین کی کنارہ کشی کے باوجود پاکستان کا گندے ایندھن پر انحصار ختم نہیں ہوگا

پاکستان زیر تعمیر کوئلے کے پلانٹس پر کام جاری رکھے گا اور یہاں تک کہ انتہائی آلودہ کرنے والے مقامی ذرائع بطور متبادل استعمال کرے گا-

تھرپارکر کے صحرا میں اینگرو پاورجن تھر پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے کوئلہ پاور پلانٹ لگایا گیا ہے۔ یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک حصہ ہے ، جو چین کی جانب سے بیرون ملک کوئلے کے منصوبوں کی مالی امداد بند کرنے کے اعلان سے قبل مکمل ہو گیا تھا۔( تصویر بشکریہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی)

  سی او پی26 سے کچھ ہفتوں پہلے ، کوئلے کے سب سے بڑے فنانسر، چین نے اعلان کیا کہ وہ بیرون ملک کوئلے کی سہولیات میں سرمایہ کاری ختم کر دے گا۔ اس نے ان ممالک میں امید پیدا کی ہے جو آب و ہوا کے موافق توانائی کے منصوبے بنانا چاہتے ہیں اور ان کو پریشان کردیا  ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ وہ کوئلے کے بغیر انکا گزارا نہیں۔ 

اس اعلان کا مطلب 20 ممالک میں 40 گیگاواٹ سے زائد پائپ لائن منصوبوں کو منسوخ کرنا ہے ، حالانکہ چین نے 2021 کے آغاز سے کوئلے کے کسی بھی نئے منصوبے میں سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔

پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ممالک میں سے ایک ہے جہاں کوئلہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت توانائی کے منصوبوں کا بڑا حصہ ہے۔ 

چین کی طرف سے تقریبا  19.55 ملین امریکی ڈالر کی مالی معاونت کے 18 ‘ترجیحی’   (11.87 گیگا واٹ ) توانائی منصوبوں میں سے نو (8.22 گیگا واٹ ) کوئلے سے چلنے والے تھے۔ 

ان میں سے چار، ہوانینگ شانڈونگ روئی- ساہیوال کول پاور پلانٹ، پورٹ قاسم کول فائرڈ پاور پلانٹ، ہبکو کول فائر پاور پلانٹ اور سندھ اینگرو تھر کول پاور پلانٹ مکمل ہوچکے ہیں اور 2017 سے نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کررہے ہیں۔ انکی مجموعی توانائی کی پیداوار 4.62 گیگا واٹ ہے۔ 

ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگل مین ، چین کے کوئلے سے کنارہ کشی کو “غیبی مدد ” کی نظر سے دیکھتے ہیں جو” صاف توانائی کے دو طرفہ تعاون” کے مواقع کے ساتھ صاف ماحول کی جیت ہوگا۔ 

یہاں تک کہ 100 میگاواٹ قائداعظم سولر پاور پرائیویٹ لمیٹڈ (کیو اے ایس پی ایل) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بدر المنیر کو بھی بیرون ملک کوئلے کے منصوبوں کے ساتھ چینی رومانس کا خاتمہ “ایک خوش آئند خبر ” لگتا ہے کیونکہ یہ حکومت کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ اپنی توجہ ایک عرصہ سے نظر انداز کے گۓ شمسی توانائی کیطرف مرکوز کرے.

 میں، کیو اے ایس پی ایل خبروں کی سرخیوں میں تھا۔ صوبہ پنجاب میں چین کے تعاون  سے ایک ہزار میگاواٹ قائداعظم سولر پارک کے ایک حصّے کے طور پر، کمپنی نے صرف ایک سال کے اندر پہلی 100 میگاواٹ بجلی پیدا کی۔ دو سال بعد ، چینی کمپنی زونرجی نے نیشنل گرڈ میں مزید 300 میگاواٹ کا اضافہ کیا۔ 

منیر نے تھرڈ پول کو بتایا ، “پچھلے پانچ سالوں سے ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے تحت توانائی کے اس پہلے منصوبے پر کام رکا ہوا ہے ، باوجود اس کے کہ باقی 900 میگاواٹ کے لیے بنیادی ڈھانچہ موجود ہے-” 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریاست کے لیے نئی سرمایہ کاری کا اچھا وقت ہوگا: شمسی توانائی  آج “امریکی ڈالر 3.7 سینٹ/کلو واٹ” پر فروخت کی جاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت 25  سالہ معاہدے کے تحت  14 سینٹ/کلو واٹ ٹیرف پر 2014 -2016 میں قائم شمسی منصوبوں سے خریدنے پہ مجبور ہے۔ 

معاملے کے پیچھے پالیسیاں 

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ، ترقی اور خصوصی اقدامات ، اسد عمر نے تھرڈ پول کو بتایا ، “ہم سمجھتے ہیں کہ سبز اصل راستہ ہے۔” انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ درآمد شدہ کول پلانٹس پر تنقید کرتے رہے ہیں جو ہمیں پچھلی حکومت سے وراثت میں ملا ہے- “چین کے حالیہ اعلان سے پہلے ہی ، مستقبل کے ترقیاتی راستے کو سبز کرنا عملی طور پر متحرک ہوچکا تھا۔ وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے مزید کہا کہ ہم نے سی پیک کے تحت 2400 میگاواٹ کے کوئلے کے دو پروجیکٹوں کو روک دیا ہے۔

لیکن بدر المنیر کے ذہن میں صاف توانائی کا منبع  اس سے مختلف ہے جو حکومت کی نظر میں ہے یعنی ہائیڈل پاور۔ 

عمر ، جو کئی سی پیک کمیٹیوں کے سربراہ بھی ہیں ، نے کہا کہ “بڑے ڈیم جو بنائے جا رہے ہیں ان میں ہائیڈل انرجی کی گنجائش ہوگی” اور اسے ان کی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ 

لیکن اس کا کسی بھی طرح یہ مطلب نہیں کہ حکومت مکمل طور پر گندے ایندھن سے جان چھڑا رہی ہے۔ اسد کے مطابق سی پیک کے تحت کوئلے کے منصوبے جاری رہیں گے۔ تاہم ، تمام “مستقبل کے تھرمل منصوبے صرف تھرپارکر سے دیسی کوئلہ استعمال کریں گے ،” انہوں نے مزید کہا کہ یہ حال ہی میں منظور شدہ 10 سالہ انرجی روڈ میپ میں موجود ہے۔ 

مندرجہ ذیل جدول سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح چین کا اعلان ملک میں کوئلے کے آٹھ اہم منصوبوں کو متاثر کر سکتا ہے: 

*ملین ٹن سالانہ

*پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ، حکومت پاکستان

انڈیکیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان 2021-30 (Iآئی جی سی ای پی – 2021)، جسے گزشتہ ماہ ملک کے الیکٹرسٹی ریگولیٹر نے منظور کیا ، ایک ایسی دستاویز ہے جو مستقبل میں بجلی کی طلب کی پیش گوئی اور حساب لگاتی ہے۔ 

عمر کہتے ہیں، “2030 میں کل توانائی میں قابل تجدید توانائی (آر ای) کا حصہ 60% ہو گا، یہ عہد وزیر اعظم عمران خان نے کلائمیٹ ایمبیشن سمٹ 2020 میں کیا تھا۔” تاہم، انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس (آئی ای ای ایف اے) کے ساتھ توانائی پر تحقیق کرنے والی حنیہ اساد نے دیکھا کہ توانائی کے مجموعی مرکب میں قابل تجدید توانائی کا رخ پن بجلی پر مرکوز ہے، جوکہ 46 فیصد ہے اور صرف 16 فیصد شمسی اور بادی توانائی کے لیے مختص ہے۔  

“یہ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی، 2019 میں مقرر کردہ اہداف کی صریحً خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک، پن بجلی کو چھوڑ کر، آر ای  کا پیداواری مکس میں 30% حصہ [بشمول شمسی، ہوا، بیگاس، جیوتھرمل اور بایوماس] ہونا ہے۔ “اساد نے کہا۔ 

اساد نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے ایک واحد ذریعہ پر زیادہ انحصار ملک میں بجلی کی دستیابی کی قابل اعتبار اہلیت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے- انہوں نے کہا کہ “ہم پر موجود موسمیاتی بحرانوں کے تناظر میں توانائی کے تحفظ کے لیے ایندھن کا تنوع انتہائی اہم ہے۔”

صاف توانائی کے لئے مزید کوشش کی ضرورت ہے 

اسلم نے کہا کہ اگر ترقی پذیر ممالک کو کوئلے سے کنارہ کش ہونا ہے تو ترقی یافتہ ممالک کو آگے آنا ہوگا۔ “ہمارے بڑے توانائی کے منصوبے قابل تجدید ذرائع پر [مبنی] ہیں اور دنیا کو پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو صاف توانائی کی منتقلی کے لیے پرعزم ہیں،” انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا۔ 

خوش آئند خبر یہ ہے کہ دنیا کے سرفہرست دو آلودگی پھیلانے والے تعاون کے لیے آگے آئے ہیں۔ چین نے “گرین اور کم کاربن توانائی” میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن نے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی فنانسنگ کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ 

اسلم نے کہا کہ پھر بھی، پاکستان کو کوئلہ جلانے  سے دور جانے کے لیے گیسیفیکیشن اور لیکیفیکیشن کے آپشنز کی تلاش میں “تجربہ کے لیے چینیوں کے ساتھ تعاون” کی امید ہے۔

کوئلے کی  گیسیفیکیشن کیا ہے؟

کوئلے کی مصنوعی قدرتی گیس میں کیمیائی تبدیلی۔ یہ درآمد شدہ مائع قدرتی گیس کی ضرورت کو کم کر سکتا ہے، لہذا اقتصادی اور توانائی کے تحفظ کے نقطہ نظر سے پرکشش ہے۔ اس سے مقامی آلودگی کے مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

تاہم، کوئلے کی گیسیفیکیشن روایتی کوئلے کے پلانٹس سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتی ہے۔

پاکستان میں صاف توانائی کی منتقلی کے لیے وقف، پاکستان رینیوایبل انرجی کولیشن کے نمائندے محمد مصطفٰی امجد، زیادہ قائل نہیں ہیں کہ کوئلے کو گیس یا مائع میں تبدیل کرنا ایک اچھا خیال ہے۔ “آپشنز نہ صرف اقتصادی طور پر مانع ہیں بلکہ کوئلے کو براہ راست جلانے سے زیادہ اخراج کا باعث بھی بنیں گے،” انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا-

اس کے بجائے، انہوں نے کہا: “پاکستان ٹیکنالوجی کی منتقلی، قابل تجدید توانائی کے لیے فنانسنگ میں اضافہ اور دیگر فطرت پر مبنی حل کے ساتھ ساتھ گرڈ اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری کا مطالبہ کر سکتا ہے تاکہ توانائی کے مرکب میں مزید قابل تجدید ذرائع کو شامل کیا جا سکے۔” امجد نے کہا، اس کا اظہار  پاکستان کے نظرثانی شدہ قومی سطح پر طے شدہ شراکت ( کاربن کے اخراج میں زبردست کمی کے لیے نئے منصوبے) میں ہونا چاہیے اور سی او پی26 میں اس کا اعادہ کیا جانا چاہیے۔

حقیقت  پر ایک نظر 

تاہم، چین کے کوئلے سے کنارہ کشی سے تھر کے کوئلے کو ایک نئی تحریک مل سکتی ہے۔ آج پاکستان میں کوئلے کے آٹھ پلانٹس میں سے چھ تھرپارکر میں ہیں۔ ان میں سے پانچ صرف کاغذات پر، چھٹے، اوریکل کے ساتھ تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ جامشورو کے پلانٹ اور تھر میں لکی الیکٹرک صدیق سنز سی پیک کے تحت نہیں آتے۔ 

چین کے بیرون ملک کوئلے کے منصوبوں سے کنارہ کشی سے کچھ پہلے- پاکستان کی پہلی اوپن پٹ لگنائٹ مائن سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی ) اور اس کی ساتھی کمپنی اینگرو پاورجن تھر پرائیویٹ لمیٹڈ (ای پی ٹی ایل )، نے مل کر صحرائے تھرپارکر میں 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹس لگائے، اور انہیں تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئیں ۔ 

نہ صرف دونوں کمپنیوں (سی پیک کا حصہ) نے اس ریس میں کامیابی حاصل کی بلکہ ایس ای سی ایم سی خاص طور پر پاکستان کے مستقبل کے توانائی کے منصوبوں میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔ 

تھر میں کوئلے کی سب سے پہلے کان کنی کرنے والے ایس ای سی ایم سی کے سابق سربراہ سید ابوالفضل رضوی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کو جلد کوئلے سے نجات ملے گی۔انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ چین کے  منظر  سے باہر ہونے کے بعد، درآمد شدہ ایندھن کا استعمال کرنے والے کچھ پلانٹس کو اپنے منصوبوں  کو مقامی لگنائٹ کی طرف  منتقل ہونے کے قابل بنانا ہوگا۔ 

زیر تعمیر کوئلے کے پلانٹس کے پاس بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے پیچھے 30 سال تک کی ریاستی ضمانتیں ہیں جن پر دوبارہ گفت و شنید نہیں کی جا سکتی۔
وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم

لگنائٹ میں گندھک  اور راکھ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور سخت کوئلے کے مقابلے میں جلنے پر کم توانائی پیدا کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئلے کے پاور پلانٹس میں لگنائٹ جلانے سے پیدا ہونے والی توانائی کے فی میگا واٹ کے حساب سے زیادہ فضائی آلودگی کا اخراج ہوتا ہے۔ 

3.8 ملین ٹن کی موجودہ سالانہ کان کنی کی صلاحیت کے ساتھ،  ایس ای سی ایم سی نہ صرف ای پی ٹی ایل کو کوئلہ فراہم کرتا ہے، بلکہ ان کول پاور پلانٹس کی ضرورت  بھی پورا کرے گا جنہیں پاکستان نے تعمیر کرنا شروع کیا تھا، یا ابھی پائپ لائن میں ہیں۔ 

اسلم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “زیر تعمیر کوئلے کے پلانٹس کے پاس بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے پیچھے 30 سال تک کی ریاستی ضمانتیں ہیں جن پر دوبارہ گفت و شنید نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ان کو ختم کرنے سے بھاری مالی قیمت اٹھانا پڑے گی، جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔” 

رضوی نے کہا کہ قدرتی  ایندھن کے حامی یہ دلیل دیتے رہتے ہیں کہ سستے بیٹری اسٹوریج کی عدم موجودگی میں پاکستان کو بجلی کے مستقل ذرائع کی ضرورت ہے۔ اور دیگر بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اب بھی آلودگی پھیلانے والے قدرتی ایندھن  استعمال کرے گا۔

اسلم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “زیر تعمیر کوئلے کے پلانٹس کے پاس بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے پیچھے 30 سال تک کی ریاستی ضمانتیں ہیں جن پر دوبارہ گفت و شنید نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ان کو ختم کرنے سے بھاری مالی قیمت اٹھانا پڑے گی، جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔” 

رضوی نے کہا کہ قدرتی  ایندھن کے حامی یہ دلیل دیتے رہتے ہیں کہ سستے بیٹری اسٹوریج کی عدم موجودگی میں پاکستان کو بجلی کے مستقل ذرائع کی ضرورت ہے۔ اور دیگر بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اب بھی آلودگی پھیلانے والے قدرتی ایندھن  استعمال کرے گا۔

Open-pit lignite mine in Thar, Pakistan, Sindh Engro Coal Mining Company (SECMC)
An open-pit lignite mine in the Thar desert (Image: Sindh Engro Coal Mining Company)

“تھر کا کوئلہ مقامی ہے، وافر مقدار میں ہے اور اس کے لئے  غیر ملکی کرنسی کی ضرورت کم ہے۔”8,000 میگاواٹ کوئلہ اور 5,000 میگاواٹ مائع قدرتی گیس (ایل این جی ) پر مبنی پاور پلانٹس اور قدرتی ایندھن  پر مبنی پاور پلانٹس سے بجلی خریدنے کے طویل مدتی معاہدوں کے ساتھ ملک کے لیے انتہائی ضروری بنیادی لوڈ فراہم کرنے کے لیے چلتے رہیں گے۔ “انہوں نے کہا-

“کوئلے کی قیمتیں اب تک کی بلند ترین سطح پر ہیں اور کراچی بندرگاہ پر آج درآمد شدہ کوئلہ 218 امریکی ڈالر فی ٹن میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کا موازنہ مقامی تھر کے کوئلے سے کریں جو تقریباً 61  امریکی ڈالر فی ٹن میں فروخت ہو رہا ہے!،” رضوی نے کہا۔

فی الحال،ایس ای سی ایم سی  تھرپارکر کے بلاک 2 میں واحد کان کنی کمپنی ہے، جو 100 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے، جس میں 1.56 بلین ٹن تک کے قابل استعمال  ذخائر ہیں – رضوی کے مطابق “اگلے 50 سالوں کے لیے 5,000 میگاواٹ کے لیے کافی ہیں “۔

“انہوں نے اعتراف کیا کہ لگنائٹ میں درآمدی کوئلے کی حرارتی وصف  نصف ہے، اس لیے اسے  استعمال کرنے والے پاور پلانٹس کو تھر کے کوئلے کی تقریباً دوگنی مقدار کی ضرورت ہوگی۔ اس کے باوجود مقامی کوئلے کے استعمال سے پلانٹس چلانا سستا ہو گا۔

رضوی کے مطابق، درآمدی کوئلے کی قیمت میں اضافہ ”  کووڈ وباء کے بعد کی معاشی بحالی میں اعلی سمندری مال برداری کے ساتھ، وبا کے  دوران عالمی کان کنی میں واضح کمی، ماحولیاتی پابندیوں، ایل این جی اور آر ایف او ( تلچھٹ قدرتی تیل کم درجے کے  ایندھن تیل کی ایک قسم ہے ) کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے تھا-

گیس اور کوئلے کی سپلائی کی قیمتوں میں ناقابل یقین حد تک اضافے کے پیش نظر، اساد  نے کہا کہ پاکستان کے لیے “مناسب قابل تجدید توانائی اور اسٹوریج پر مبنی بیک اپ میں سرمایہ کاری کرنے” کا صحیح وقت تھا۔ لیکن انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا: “پاکستان کی توانائی کی منتقلی یا قدرتی ایندھن  پر مبنی طاقت سے  کنارہ کش ہونا راتوں رات ممکن نہیں۔ اسے احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی اور سوچے سمجھے اقدامات کے ساتھ پورا کرنا ہوگا۔

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.