توانائی

سندھ میں شمسی توانائی سے خواتین زندگیاں بچا رہی ہیں

خواتین کے عالمی دن پر ، صحت کےمراکز پر نصب شمسی پینل ماؤں کو کیسے بچا رہے ہیں اس بارے میں ایک رپورٹ
<p> حیدرآباد ، سندھ میں ماروی گارڈن مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سنٹر کے اوپر 144 شمسی پینل [ تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم]</p>

حیدرآباد ، سندھ میں ماروی گارڈن مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سنٹر کے اوپر 144 شمسی پینل [ تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم]

سندھ کے مصروف شہر حیدرآباد میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ (ایم سی ایچ) سنٹر کی انچارج ڈاکٹر حمیرا قریشی کے لئے ، زندگی تب سے  بدل گئی جب چار سال قبل ان کے کلینک میں شمسی توانائی اورمتبادل بیٹری نصب کی گئی- 

ماروی گارڈن بنیادی صحت کی سہولت میں ان کی ٹیم کے لئے “پریشانی اور تھکن کم” ہے اور انکی توجہ زیادہ مرتکز ہے  کیونکہ بجلی کی بلارکاوٹ ترسیل کا مطلب اب وہ پہلے کی طرح بجلی منقطع ہونے پر اپنی “پیشانی سے  پسینہ نہیں صاف کررہے ہوتے ،جیسا کہ  پاکستان کے بہت سے علاقوں میں وقفے وقفے سے ہوتا رہتا ہے- 

ماروی گارڈن کے مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سنٹر میں ایک مریضہ چیک اپ کروا رہی ہے- [ تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم]

طبی آلات کی مسلسل آوازیں ان کے لئے موسیقی کی دھن کی مانند ہے ساتھ ہی انکا عملہ اس بات پر بھی مطمین ہے کہ انہیں بجلی نہ ہونے کی بنا پر مریضوں کو  واپس نہیں بھیجنا پڑتا- 

بحیثیت ایک سونولوجسٹ، حمیرا  قریشی کلینک میں جدید ترین الٹراساؤنڈ مشین پر فخر محسوس کرتی ہیں- تاہم ، شمسی پینل سے پہلے ، انہیں خوف تھا کہ اچانک وولٹیج کے اتار چڑھاو کی وجہ سے مشین  متاثر ہوسکتی ہے جو چھاتی اور رحم دانی کے حصّے کے کینسر کی ابتدائی تشخیص کے ساتھ ساتھ رحم دانی کی بے ضابطگیوں میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ 

بنیادی صحت کے مرکز کو بجلی کی طویل بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو آٹھ گھنٹے تک محیط ہوسکتا ہے۔ پورے ملک میں ، ہسپتالوں جیسی ضروری سہولیات اکثر  متبادل بجلی کی فراہمی کے  لئے ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز کا استعمال کرتی ہیں۔ 

شمسی حل

2007 میں ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت ، صوبائی حکومت نے اپنی بنیادی صحت کی کچھ سہولیات ایک غیر منفعتی ، پی پی ایچ آئی – سندھ کے حوالے کیں۔ چودہ سال بعد ، وہ سندھ کے تمام 29 اضلاع میں 2،000 سرکاری زیر انتظام صحت کی سہولیات میں سے 1،200 کے انتظامات چلا رہی ہے۔ ماروی گارڈن ان میں سے ایک ہے جو سندھ کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والے شہر حیدرآباد کے سب سے زیادہ گنجان علاقے میں واقع ہے – حیدرآباد کی مجموعی آبادی 1.73 ملین ہے۔  

کبھی دو کمروں والی سرکاری ڈسپنسری جو ہفتے میں چھ دن کے صرف چھ گھنٹے تک چلتی تھی ، اب 24/7 والی سہولت میں تبدیل ہو گئی ہے ، جہاں ایک ہی چھت کے نیچے ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور ایک لیبارٹری بھی موجود ہے۔ شہر کے قاسم آباد علاقے میں یہ 60،000 سے زائد  لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اوسطا ہر ماہ  100 پیدائشوں کے علاوہ   2500 خواتین اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آتی ہیں- 

“شمسی پینل لگائے جانے کے بعد سے مریضوں کی تعداد میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے”، دی  تھرڈ  پول کو پی پی ایچ آئی کے ایک سینئر تکنیکی مشیر ، زیب دہر نے بتایا۔ “اس کے اور  بھی کارگر عوامل ہوسکتے ہیں ، مثال کے طور پر ، کام کے اوقات میں چھ سے بڑھ کر 24 تک ہوگئے۔”

یہ چھت پر 25 کلو واٹ (KW) کے 144 فوٹو وولٹک (PV) پینل بچھائے جانے کے بعد ہی ممکن ہوا۔ یہ نظام پورے ہیلتھ سینٹر کو بجلی فراہم کرتا  ہے ، بشمول پی پی ایچ آئی دفاتر اور اس سے منسلک آٹھ بیڈ روم والے گیسٹ ہاؤس جہاں سندھ بھر سے پی پی ایچ آئی عملہ تربیت کے دوران قیام کرتا ہے۔ ماروی گارڈن کے علاوہ ، پی پی ایچ آئی نے 2017 کے بعد سے 1،200 سرکاری سہولیات میں سے 650 سے  زائد میں پی وی پینل لگائے ہیں۔

حکومت  بھی پیروی کررہی ہے 

اس  آئیڈیا سے متاثر ہو کر حکومت سندھ نے بھی اپنی سہولیات پہ شمسی توانائی کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ “جولائی 2020 اور جنوری 2021 کے درمیان ، حکومت کی درخواست پر سندھ کے 13 اضلاع میں کوئی 225 سہولیات سولر پینلز نصب کیے گۓ ہیں ،” صوبائی حکومت کے محکمہ توانائی کے شعبہ میں “متبادل توانائی سیکشن” کے ڈائریکٹر، امتیاز علی شاہ نے کہا- 

 480 ملین روپے  (3 ملین امریکی ڈالر) کی لاگت سے ، شاہ نے کہا کہ اس منصوبے کو خاص طور پر دیہی سندھ کے ایسے دیہاتوں کے لئے بنایا گیا تھا جو گرڈ سے جڑے ہوئے نہیں تھے ، اور “جہاں لوگوں کو 10 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ اگر وہ گرڈ سے منسلک ہوں تب بھی “۔ 

شاہ نے کہا ، “ناقابل اعتماد بجلی کیترسیل اموات کا باعث ہوسکتی ہیں جسکی روک تھام ممکن ہے۔”  ” ٹھنڈک برقرار نہ رہنے کی وجہ سے ویکسین اپنی افادیت کھو دیتی ہیں- اس سے پہلے کہ تشویشناک حد تک بیمار شخص کو ہیلتھ کیئر کی سہولت میں منتقل کیا جاسکے ، ایک نیبلائزر اسکی زندگی بچا سکتا ہے۔ مناسب جراثیم کشی کے بغیر ، ہم انفیکشن کو نہیں روک سکتے ہیں،” شاہ نے بتایا کہ بجلی کی بلاتعطل فراہمی جان بچانے کے لئے کتنی اہم ہے۔

“اگرچہ حکومت کے زیر انتظام بنیادی صحت کی سہولیات چھ  گھنٹوں کے لئے چھ دن کھلی رہتی  تھیں  ، لیکن  اب  متبادل  بیٹریوں کے ساتھ،  کسی ہنگامی صورتحال میں بھی صحت کی خدمات فراہم کر سکتی ہے – خاص طور پر زچگی کی دیکھ بھال کے لئے۔” 

ہر سہولت میں ، کم از کم 3 کلو واٹ کے سولر پینل ہوتے ہیں ، جو چھ پنکھے ، چھ ایل ای ڈی بلب ، ویکسین کے لئے ایک ریفریجریٹر ، ایک نیبلائزر اور ایک اسٹرلائزر چلا  سکتے ہیں۔

شاہ نے مزید کہا ، “اگر آپریشن تھیٹر کے لئے ہنگامی بجلی کی ضرورت ہو تو ،  لوڈ مینجمنٹ کے ذریعےغیر ضروری آلات کو بند کیا جاسکتا ہے۔” 

“ایک شمسی توانائی کا نظام 25 سے زیادہ آئٹمز پر مشتمل ہے،” پی پی ایچ آئی کے محکمہ بجلی و توانائی کے منیجر سید ذیشان علی نے کہا- “ایک ٹیم روزانہ کی بنیاد پر ہر ضلع میں  الیکٹریشینز ، سپروائزرز اور منیجرز کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ ” ان کے کام میں پینل کی صفائی ، آس پاس کے  درختوں کو تراشنے کے ساتھ ساتھ غیر یقینی موسم میں نظام کی برداشت کی جانچ اور رپورٹنگ شامل ہے۔ 

علی نے کہا ، اگرچہ ایک آن لائن نگرانی کا نظام مثالی ہوتا ، لیکن یہ ایک عملی چیلنج ہے کیونکہ زیادہ تر سہولیات دور دراز کے علاقوں میں ہیں جہاں انٹرنیٹ اور فون سروسز موجود نہیں ہیں۔

ماؤں کے لئے امید کی ایک کرن

پی پی ایچ آئی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عبدالوہاب سومرو نے بتایا کہ شمسی توانائی کی آمد سے نہ صرف طبی عملے اور مریضوں کے لئے کام کرنے کا ماحول اور صحت کی دیکھ بھال میں بہتری آئی ہے ، بلکہ بلاتعطل بجلی کی فراہمی سے زچگی اور نوزائیدہ اموات سے متعلق ملک کا مایوس کن  اعدادوشمار بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ 

 پی پی ایچ آئی کا گراف میں، شمسی پینل کی تنصیب سے پہلے اور بعد میں اپنی صحت کی سہولیات میں ہر انڈیکیٹر کا چار سالہ اوسط موازنہ  [پی پی ایچ آئی سے ڈیٹا]

چوبیس گھنٹے  ہنگامی زچگی اور نوزائیدہ دیکھ بھال کی فراہمی کے ذریعہ ماؤں اور بچوں میں پیچیدگی کا خطرہ “کافی حد تک کم” کیا جاسکتا ہے۔ 

“ماؤں کو سوائے انتہائی غیر معمولی پیچیدگیوں کے سہولیات کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ؛ پانی کی مسلسل فراہمی بہتر صفائی کو تقویت دیتی ہے اور اس طرح انفیکشن کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ سومرو نے کہا ، ویکسین کے لئے  بلاتعطل بجلی کے واضح مثبت نتائج میں سے ایک ہے۔

تازہ ترین پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (2017-18) کے مطابق ، پاکستان میں بچوں میں ہونے والی اموات کا 84 فیصد کسی بچے کی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی ہوتا ہے ، جبکہ 57 فیصد پہلے مہینے کے دوران ہوتے ہیں۔ 

اسی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں ، 66٪ بچوں کی پیدائش  صحت کے مرکز  میں ہوئیں، جبکہ اس کے مقابلے 1990-91 میں 13 فیصد ، 2006-07 میں 34 فیصد ، 2012-13 میں 48 فیصد بچے کی پیدائش ہوئی- 

سروے کے مطابق ملک میں فی عورت پیدائش  3.6  ہے، جو کہ 2012-13 میں 3.8 سے بس تھوڑی ہی کم ہے۔ سومرو نے کہا کہ اس قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی بلا تعطل فراہمی خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقوں کے استعمال میں اضافے اور اسی  طرح پاکستان کی زچہ کی  شرح اموات میں بہتری کا باعث ثابت ہوسکتی ہے۔ 

خانوٹ مدر اور چلڈرن ہیلتھ سنٹر کی انچارج ثمینہ پپروین  حاملہ خاتون کی جانچ کررہی ہیں-  [ تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم]

ایم ایچ سی کے ریکارڈ سومرو کے خیالات کی تصدیق کرتے ہیں۔ 2014 سے ، جب پی پی ایچ آئی نے انتظامات سنبھالے، 2017 میں بیرونی مریضوں کے محکموں میں 1،800 سے 5000 تک قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ قبل از پیدائش کی دیکھ بھال 38 سے بڑھ کر 141 ہوگئی ، خاندانی منصوبہ بندی 37 گاہکوں سے بڑھ کر 100 سے زائد اور [پیدائش کی اعداد ماہانہ چار سے 100 سے زائد ہوگئے۔ 

دوردراز دیہات کے لئے بجلی ایک عیاشی ہے

سنجھا بلوچ وہ وقت یاد کرتی ہیں جب انہوں نے اپنے موبائل فون کے ٹارچ کی مدد سے بچوں کی پیدائش کی- وہ بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو “عیش و آرام” سے کم نہیں سمجھتیں۔ بلوچ نے کہا کہ جامشورو ضلع کے دور دراز گاؤں خانوٹ میں پچھلے چار سالوں میں ادارے میں پیدائش کی تعداد میں اضافہ  زچہ بچہ مرکز میں شمسی توانائی کی آمد کی وجہ سے ہوا ہے- 

صحرا میں اور قومی گرڈ سے منقطع، ان علاقوں میں رات بدترین ہوتی ہے، خاص طور پر گرمی کے مہینوں میں جب درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔ 

خانوٹ کے مدر اور چلڈرن ہیلتھ سنٹر میں سولر پینلز کی تنصیب سے ادارے میں پیدائشوں میں اضافہ ہوا ہے- [ تصویر بشکریہ زوفین ابراہیم]

“آپ شدید گرمی میں زچگی کے دوران عورت کی اذیت کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں ، جس پر مچھروں کی فوج سخت اور بے رحمانہ حملہ کررہی ہو،” خانوٹ ایم ایچ سی میں معاون عملے کی سینئر ممبر عزیزہ رب نواز نے کہا۔ 

دائیوں کے لئے ، اندھیرے میں کام کےدوران بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی حفاظت کے علاوہ ، بلوچ نے کہا کہ اگر وہ ٹارچ کی روشنی میں اندام نہانی کی مرمت کریں اور پیدائش کے بعد کے خون بہنے کے انتظامات کریں تو زچہ کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔ 

2019  کے تازہ ترین پاکستان  میٹرنل مورٹیلیٹی سروے (پی ایم ایم ایس) کے مطابق، پاکستان میں زچگی کی شرح اموات کا تناسب 2006-07 میں ہر 100،000 زندہ پیدائشوں میں 276 اموات سے گھٹ کر 186 ہو گیا ہے۔ لیکن ان اعداد کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں فی ایک لاکھ زندہ پیدائشوں میں بالترتیب 224 اور 298 زچگی اموات ہیں اور اموات کی یہ مجموعی شرح ناقابل قبول بلند سطح پر برقرار ہے۔ پنجاب میں شرح سب سے کم 157 ، اس کے بعد خیبر پختونخوا 165 پر ہے۔ 

بہت سی نوجوان خواتین ، جیسے دو بچوں کی کوئی بیس سالہ ریشمہ پیرزادو، کسی سہولت میںزچگی کرنا چاہتی ہیں-  “یہ جگہ [خانوٹ ایم ایچ سی] میرے گاؤں خاصئی سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے ، لیکن میں جامشورو شہر کے مقابلے میں یہاں آنے کو ترجیح دیتی ہوں جو میرے گاؤں سے بھی اتنا ہی دور ہے،” انہوں نے کہا- ” یہاں ماحول صاف اور دوستانہ ہے-“

“انہوں نے رات کے وقت میرے لئے ایک ہیٹر  بھی چلا دیا ،”  موسم سرما میں اپنے دوسرے بچے کی پیدائش یاد کرتے ہوے انہوں نے کہا۔ ان کے گاؤں میں بجلی نہیں ہے ، اور بہت سے گھرانے شمسی پینل استعمال کرکے خود ہی بجلی پیدا کرتے ہیں ، لیکن “ہیٹر چلانے کے لئے یہ کافی نہیں ہے”۔

خانوٹ میں بجلی ہونے سے مرکز میں عملے کے اوقات کار میں بھی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ گھر جانے کے لئے جلدی نہیں ہوتی ہے۔ “میں اس مرکز میں سکون سے ہوں جہاں پانی اور روشنی اور گرمی میں ہمیں ٹھنڈا رکھنے کے لئے ایک پنکھا موجود ہے ، بجاۓ گھر کے جہاں ہم بجلی کی طویل المیعاد تکلیف برداشت کرتے ہیں،”  ایک اورہیلتھ ورکر بختاور کھوسو نے کہا۔ 

خانوٹ ایم ایچ سی کی سربراہ ، ثمینہ پروین نے اپنی میز پر اندراجات کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے ساتھ ، “ہم اپنے کام کو ڈیجیٹلائز کرسکتے ہیں ، جس کا مطلب ہے ہمارے لئے کم کاغذی کارروائی”۔

کھوسو نے اتفاق کیا ، کہا کہ اکثر خواتین اپنی فائلوں یا الٹرا ساؤنڈ رپورٹس کے بغیر چلی آتی ہیں ، بعض اوقات بچوں کے ویکسی نیشن کارڈ کے بغیر بھی اور کہتے ہیں کہ وہ کھو گۓ ہیں یا بارش میں وہ خراب ہوگۓ ہیں۔ “ان رجسٹروں  میں ان کے ریکارڈز تلاش کرنے میں ہمیں وقت لگتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں دوبارہ ٹیسٹ کرنے پڑتے ہیں۔ کمپیوٹر میں ان کے میڈیکل ریکارڈ کے ساتھ ، ہمیں صرف انکا نام درج کرنا پڑے گا اور ان کی ساری طبی تاریخ ہمارے سامنے ہوگی۔”