icon/64x64/energy توانائی

تجدید شدہ سی پیک کا چارج پاکستان ملٹری کے ہاتھ میں جبکہ صوبوں کو ایک طرف کردیا گیا ہے

ایک نئی سی پی ای سی اتھارٹی کے تحت فیصلہ سازی کو مرکزی بناکر ان صوبوں کی خود مختاری ختم کی جارہی ہے جہاں راہداری کے اہم منصوبوں پر کام ہوگا۔ اس عمل سے سی پی ای سی کا مستقبل اور اس کے ماحولیاتی نتائج مزید غیر واضح ہوگئے ہیں-

جو کبھی پاکستان کے لئے خوشحالی کی راہ سمجھا جاتا تھا اب وہ ایک پریشان کن موضوع بن گیا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) پر بہت کم پیشرفت ہوئی ہے ، جس کو بیجنگ اور اسلام آباد نے دونوں ممالک کے مابین دوستی کا سنگ بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

سن 2015 میں چینی صدر چی جنپنگ کے پاکستان کے تاریخی دورے کے دوران ، چین نے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبوں کے لئے 46 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب تک یہ راہداری پاکستان میں صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے اپنے مقصد سے دور ہے۔ 

حالیہ برسوں میں ہونے والی سست روی کا  کچھ سبب اسلام آباد میں نئی حکومت کی طرف سے اس منصوبے میں کم  دلچسپی  ہے جو معاشی اور انتظامی چیلنجز میں الجھی ہوئی ہے- 

2018 میں وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے فورا بعد ، ایک اعلی مشیر ، عبدالرزاق داؤد نے عندیہ دیا کہ سی پی ای سی کے تمام منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ داؤد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا ، چین کو نواز شریف کی سابقہ حکومت نے “بہت سے منصوبوں میں بہت سازگار شرائط” دی تھیں- 

 سی پی ای سی پروجیکٹس کو وفاق – صوبوں  اور بین الصوبائی کشیدگی کو ہوا دینے کے لئے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سن 2010 میں منظور کی گئی 18 ویں ترمیم کے قانون کے تحت ، صوبوں کو مالی اور قانون سازی کی خودمختاری حاصل ہے اور وفاق قدرتی وسائل کی صوبائی ملکیت قبول کرنے کا پابند ہے۔ تاہم ، سی پی ای سی کے تحت منصوبے پاکستان اور چین کے مابین ہیں ، جس سے منصوبے کے مذاکرات پر وفاقی حکومت کو کنٹرول حاصل ہے۔

“پاکستان میں بین الصوبائی سیاسی اور معاشی تفاوت کی حالت پر سی پی ای سی سے وابستہ کچھ مایوسی کی وجوہات ہیں” ،لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے سیاست کے اسسٹنٹ پروفیسر عمیر جاوید نے کہا۔ ” ۔سی پی ای سی ریاست سے ریاست تعاون کا معاہدہ ہے۔ پاکستان   میں ، کثیر الجماعتی کانفرنسوں اور کبھی کبھار وزیراعلیٰ کی سطح کے اجلاس کو حقیقی منصوبوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اسے آسان الفاظ سمجھ لیں کہ سی پی ای سی پاکستان کے سیاسی نظام میں ایک مرکزی طاقت ہے جو وفاقی حکومت کی جھولی میں بہت سے وسائل اور اختیارات ڈالتی ہے۔” 

یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے ایشیاء ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ، کیترین ایڈنی کہتی ہیں کہ  یہ “بیجنگ سے سرمایہ کاری کے پیکیج کے کامیاب نفاذ کے لئے وفاق- صوبے کے تعلقات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں”۔ 

”  سی پی ای سی کےتحت متفقہ پروجیکٹس کسطرح حقیقت کا روپ دھارتے ہیں، نئی سلک روڈ سے منسلکہ ممالک میں معاملات کی پیشرفت کے لئے  یہ ایک قوی مثال ثابت ہوگی”، اڈینی پاکستان کے وفاقی نظام پر سی پی ای سی کے اثرات پر اپنے حالیہ مضمون میں لکھتی ہیں۔

قریب تین سال کی خاموشی کے بعد ، پاکستانی حکومت نے ایک بار پھر سی پی ای سی کو فروغ دینا شروع کیا ہے۔  ہیش ٹیگز  #PakistanMovingForward  اور #CPECMakingProgress  کیساتھ منصوبوں پر جاری کام کے اعلانات والے ٹویٹس کا سیلاب سوشل میڈیا پردیکھنے میں آیا ہے

بیانیہ ایک ہی ہے: یہ راہداری پاکستان چین تعلقات کو مزید مستحکم کرے گی ، ملک کو معاشی مشکلات سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق ، حالیہ پیشرفتیں اس  بات  کی طرف اشارہ ہے کہ اس تجدید کے پیچھے طاقت ور فوج کارفرما ہے۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات فوج کیلئے کلیدی اسٹریٹیجک مفاد رکھتے ہیں، جسے وہ ہندوستان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتی ہے۔ 

یہ اطلاعات ہیں کہ پاکستانی اور چینی حکومتیں خفیہ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر چینی فوجی جیٹ طیاروں ، اسلحہ سازی اور دیگر ہارڈویئروں کی تعمیر میں پاکستان کی توسیع کر رہی ہیں۔ 

مزید برآں ، ایک نئی  سی پی ای سی اتھارٹی (سی پی ای سی اے) – ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی زیرقیادت ایک سرکاری ادارہ ، راہداری کی جارحانہ تشہیر کر رہا ہے ، اور اس کا دفاع کررہا ہے ، حالانکہ اس راہداری کا حقیقت میں کیا ہو گا اس کی بہت کم  تفصیلات جاری  کی گئی ہیں۔

سرکاری cpec.gov.pk ویب سائٹ پر دستیاب معلومات سطحی ہیں ، اور منصوبوں سے متعلق حکومتی معلومات کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا مشکل ہے ، کیوں کہ چیئرمین میڈیا کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں۔ 

یہ تنقیدی جائزہ لینے کے لئے کہ سی پی ای سی کہاں تک پہنچا ہے اور اسکا مستقبل کیسا دکھتا ہے ، اس بات کو دیکھنا ضروری ہے کہ جو وعدہ کیا گیا تھا اس کے تناظر میں کیا حاصل ہوا ہے اورطاقت کی رسثہ کشی کے کیا نتائج نکلیں گے- 

کوویڈ -19 کے بعد ، یہ دیکھنا بھی اہمیت رکھتا ہے کہ چینی معیشت میں ریکارڈ مندی کے بعد واپس بحالی سے اہداف میں کیا کوئی تبدیلی آۓ گی- 

اس سے بھی زیادہ اہم  سی پی ای سی فریم ورک کے تحت کیے گئے منصوبوں کے ماحولیاتی نتائج ہیں۔ ان  سے کوئلے پر پاکستان کا انحصار بڑھے گا  اورساتھ ہی  مزید بنیادی ڈھانچے اور  بھاری حجم کی نقل و حمل میں اضافے کا باعث ہوگا ، جس سے کاربن کے اخراج بھی اضافہ ہوگا۔ 

یہ خدشات موجود ہیں کہ کوئلہ پاور پلانٹس کاربن ڈائی آکسائڈ  کے اخراج اور اسموگ  کی بڑی وجہ ثابت ہوں گے۔ کیوںکہ کاشغر سے گوادر تک نئی سڑکوں کے نیٹ ورک کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر درخت کاٹنے کی مہم چلائی جاۓ گی۔ اور ایک حالیہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شاہراہ قراقرم پر روزانہ 7،000 ٹرکوں کا اضافہ 36.5 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج کرے گا۔ 

The widening of the road has also led to the clearing of trees [image by: Atta Ullah Nasim]

منصوبہ

چین کو خطے میں مؤثر اثر و رسوخ کے لئے ایک پلیٹ فارم  فراہم کرنے کے علاوہ ، اس راہداری کا مقصد بحری جہاز کے ذریعے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے ارد گرد جانے کے بجائے مغربی چین سے زمین کاٹ کر تیل ، گیس اور دیگر تجارتی راستوں کے لئے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے کو مختصر کرنا ہے۔ اسلام آباد اور بیجنگ میں محققین کی مشترکہ طور پر لکھی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مشرق وسطی اور یورپ میں کاشغر اور منزل بندرگاہوں کے مابین ایک اوسط 40 فٹ شپنگ کنٹینر کے لئے نقل و حمل کے اخراجات کم ہوں گے۔ چین یورپ کے ساتھ تجارت کرنے والے اخراجات میں 1،350 امریکی ڈالر (32.9٪)  فی کنٹینر اور مشرق وسطی میں فی کنٹینر 1،450 امریکی ڈالر (41.4٪) کی بچت کرے گا۔ 

پاکستان کے لئے بھی یہ امید موجود تھی کہ اس راستے میں تعمیر کردہ مجوزہ خصوصی معاشی زون (ایس ای زیڈز) سے دسیوں ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ مقامی صنعت (ٹیکسٹائل سے لے کر آٹوموبائل تک) چینی سرمایہ کاری کو راغب کرے گی۔ 

طویل المدتی منصوبہ ، جسے دونوں حکومتوں نے 2017 میں منظور کیا تھا ، میں اس راہداری کو 2020 تک تشکیل دینے کی بات کی گئی تھی- مجموعی طور پر ، توانائی کے 23 منصوبے ، سات بڑے روڈ اور ریل نیٹ ورک ، نو ایس ای زیڈ اور ایک توسیع شدہگوادر بندرگاہ ،  سی پی ای سی کے مرکز میں واقع ہے۔ 

پانچ سال بعد ، ” جلد نتائج والے” توانائی کے منصوبوں – بڑے پیمانے پر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں اور سڑک کے کچھ منصوبوں پر پیشرفت ہوئی ہے۔ 

بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سے، cpec.gov.pk کے مطابق ، ایک روڈ منصوبہ فعال ہے اور دوسرا “کافی حد تک مکمل” ہے۔ باقی یا تو “کام جاری ہے” (کسی قسم کی تعمیری تفصیلات کے بغیر) یا زمین کے حصول کے مرحلے پر ہیں-  7 ارب امریکی ڈالر لاگت کا مرکزی ایم ایل ون منصوبہ ، جس میں 1،872 کلومیٹر طویل پشاور اور کراچی ریلوے لائن کی اپ گریڈ اور توسیع شامل ہے ، 2016  سے جون 2020 تک طے شدہ فریم ورک معاہدے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ صرف اس سال حکومت نے اس منصوبے کے لئے ٹینڈروں کے لئے بولی لگانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس سے قبل پاکستانی حکومت نے لائن کو اپ گریڈ کرنے کی ڈیڈ لائن 2021  رکھی  تھی، جسے اب آگے بڑھا کر  2024  میں کردیا گیا ہے۔ اربوں ڈالر کے اس منصوبے کے لئے مالی اعانت کے انتظامات کی تفصیلات ابھی واضح نہیں ہیں۔

 

ایس  ای  زیز پر ابھی تک تعمیراتی کام شروع ہونا باقی ہے ، جو ابھی تک یا تو فزیبلٹی یا زمین کے حصول کے مراحل میں ہے۔ گوادر بندرگاہ منصوبہ – جس میں سی پی ای سی کے تحت ایکسپریس وے ، ہوائی اڈے ، بریک واٹرس اور برتھنگ والے علاقوں کی تعمیر شامل ہے۔ بڑے پیمانے پر نامکمّل ہے- 

2017 کے بعد کی سست روی

خرم حسین انگریزی روزنامہ ڈان میں کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جنہوں نے 2015 سے سی پی ای سی پروجیکٹس پر نظر رکھی ہے- ان کے مطابق ، سست روی خاص معنی رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا ” ابتدائی نتائج کا پروگرام – جس کے تحت  چین اور پاکستان سڑکوں کا ایک نیٹ ورک اور مٹھی بھر پاور پلانٹ تعمیر کرنے جارہے تھے – کافی حد تک مکمّل ہوچکے ہیں- اس کے باوجود ، ابتدائی نتائج  پروگراموں کے آغاز کے بعد ہی اصلی سی پی ای سی شروع ہوگا۔ اس میں  ایس  ای  زیز چلانے ، گوادر کا ایک فعال بندرگاہ اور چینی صنعت کو ایس  ای  زیز کے تحت پاکستان میں منتقل کرنا ہے۔ اور یہیں پرمنصوبہ اٹک گیا ہے ”،حسین نے کہا۔ 

جب ان سے سست روی کی وجوہات پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے کہا: ” اس حکومت نے زمینوں کے حصول ، نقل مکانی وغیرہ جیسے چیلنجوں پر قابو پانے کو ترجیح نہیں بنایا۔ اگر آپ حکومت سے پوچھتے ہیں ، تو وہ آپکو ایک خوشگوار تصویر پیش کریں یہ تاثر دینے کے لئے کہ کام جاری ہے- لیکن حقیقتاً معاملات جمود کا شکار ہیں”-

اینڈریو اسمال ، جو امریکی تھنک ٹینک جرمن مارشل فنڈ کے سینئر ٹرانزٹلانٹک فیلو ہیں اور کتاب دی چین پاکستان ایکسس: ایشیاء نیو جیو پولیٹکس کے مصنف ہیں ، اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ 

“بہت سارے ممکنہ منصوبے جو اصل 46 بلین امریکی ڈالر مالیت کا حصّہ تھے ان پر اب بات چیت نہیں کی جارہی- لہذا یہ اصل تصور کیۓ گۓ کے مقابلے میں مجموعی طور پر ایک چھوٹا پیکیج ہے حالانکہ یہ کوئی معمولی رقم نہیں- مزید پہلے سے دیے گۓ 19 بلین ڈالر  اور صدر چی کے آنے والے دورے نے سی پی ای سی کے دوسرے مرحلے میں تھوڑی تیزی پیدا کردی ہے-” 

اس کے باوجود ، چین تھوڑا سا پیچھےہٹ گیا ہے۔

“یہ صرف سست روی کا سوال ہی نہیں ہے – جو 2017 میں پاکستان کی معاشی صورتحال کو مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد سے جاری ہے – بلکہ چین متعدد وجوہات کی بناء پر زیادہ محتاط ہوگیا ہے”، اسمال کہتے ہیں- انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو وسیع پیمانے درپیش ناسازگار صورتحال کو ”  سی پی ای سی کے ٹھنڈا پڑنے” کی وجہ قراردیا ہے- 2017 کے بعد سے بیجنگ نے آؤٹ باؤنڈ سرمایہ کاری پر پابندیاں سخت کردی ہیں ، اعلی معیار کے منصوبوں کی ضرورت پر زور دیا ہے ، اور بڑے پیمانے پر پارٹی کی نگرانی  پر بھی زور دیا ہے۔

“کچھ عملی بیوروکریٹک رکاوٹیں بھی ہیں ، نیز مختلف مفاداتی گروپوں کے اعتراضات سے بھی نمٹنا شامل ہے ، جیسے خصوصی اقتصادی زونوں کے بارے میں پاکستانی کاروباری خدشات۔” 

نئی سی پی ای سی اتھارٹی

سی پی ای سی میں پیش رفت کس شکل میں ہوگی  اس کا کافی حد تک اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سی پی ای سی اے کو کس طرح تشکیل دیا گیا ہے اور اس کا مینڈیٹ کس طرح بنایا گیا ہے۔ اکتوبر 2019 میں حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ اتھارٹی تشکیل دی جس نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو بائی پاس کیا۔ 

اس کے اختیارات وسیع ہیں- سی پی ای سی اے  کا پاکستان میں راہداری کے تمام منصوبوں پر کنٹرول ہوگا اور اس کے مندرجہ کام ہوں گے: تعاون کے شعبوں کی شناخت کے لئے چین کے ساتھ  رابطہ کرنا؛ صوبوں اور وفاقی حکومت کے مابین اتفاق رائے کو یقینی بنانا؛ سی پی ای سی “بیانیہ کی تعمیر”  اور تحقیق کرنا۔  اگرچہ 18 ویں ترمیم نے وسائل پر صوبوں کو خودمختاری دے دی ، لیکن اس نئے آرڈیننس سے اتھارٹی کو “متوازی حکومت” کا درجہ   مل گیا ہے۔ چونکہ مسودہ قانون ابھی عوامی سطح پر نہیں لایا گیا ، لہذا یہ واضح نہیں ہے کہ سی پی ای سی اے صوبوں کے کردار پر کتنا اثر ڈالے گا۔ 

لیکن ڈرافٹ کےحوالے سے ملنے والی اطلاعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سی پی ای سی اے کو سی پی ای سی پروجیکٹس کو کنٹرول کرنے اور وضع  کرنے کے لئے غیر معمولی اختیارات ہوں گے۔

عمیر جاوید کے مطابق ، “اس مسئلے کا ایک حصہ اس وجہ سے ہے کہ کس طرح شفافیت کو قربان کرتے ہوۓ سول اور اب فوجی قیادت نے راہداری کی  قریباً بیمثال حیثیت کو تشکیل دیا ہے ، جبکہ شفافیت پر کسی بھی کوشش کی قربانی دی ہے۔ وفاقی حکومت کے نوکرشاہی کردار – جس کے ذریعے فوج کے کنٹرول کی ضمانت دی گئی ہے – سے سی پی ای سی کے اس مرکزیت والے پہلو کو مزید تقویت ملی ہے “.

ساوتھ ایشیاء ڈیموکریٹک فورم کے لئے اپنے ایک تبصرے میں ، ایس اے ڈی ایف کے ڈائریکٹر ریسرچ سیگ فریڈ او وولف نے کہا کہ مرکزی سی پی ای سی کے ادارے کا منصوبہ نیا نہیں ہے- فوج اور اس سے متعلقہ حلقوں کی جانب سے اس کی طویل عرصے سے وکالت کی جارہی ہے ، لیکن سابق وزیر اعظم شریف نے اسے مسترد کردیا۔

وولف لکھتے ہیں کہ جب کہ ایک مجموعی اتھارٹی ہم آہنگی اور کارکردگی کو بہتر بنائے گی ، سی پی ای سی اے کو جس طریقے تشکیل دیا جارہا ہے وہ بنیادی اصلاحات لانے کے لئے پاکستانی قیادت کے پس وپیش کو ظاہر کرتا ہے۔ فوج  نے، جو ملک میں اہم سیاسی طاقت کی حامل ہے ، اتھارٹی کی سربراہی اور معاملات کو تیز کرنے کے لئے اپنے ہی ایک فرد کی تقرری حاصل کرلی ہے- 

فوج کے جنوبی کمان جو صوبہ بلوچستان کا احاطہ کرتا ہے، کے سابق سربراہ عاصم سلیم باجوہ ، سی پی ای سی اے کے چیئرمین ہیں ، لیکن وہ سی پی ای سی پر پریس بشمول  تھرڈ پول سے گریز کررہے ہیں- پچھلے مہینے ایک صحافی کی طرف  سے  ان کے اثاثے ظاہر کرنے میں مبینہ ناکامی کے بارے میں رپورٹ کے بعد باجوہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل میں الجھ گۓ– انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن وہ اور وزیراعظم دونوں واضح تھے کہ ان کی سی پی ای سی کی تقرری تنازعہ سے متاثر نہیں ہوگی۔

سی پی ای سی اے اور اس کی کرسی قانونی چارہ جوئی اور قانونی کارروائی سے محفوظ ہیں۔

اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ، باجوہ نے سست روی کے بارے میں سخت تردید کرتے  نظر آتے ہیں۔

کچھ مخالف افراد #CPEC کو سست ہونے کا غلط تاثر  دے رہے ہیں۔ حال ہی میں منصوبوں پر ناصرف کام کی رفتار تیز ہوئی ہے ،  مرحلہ 2 شروع کرنے کے لئے بڑےپیمانے پر کام کیا گیا ہے۔ جلد آ رہا ہےڈالر 7.2 بلین ایم ایل -1 ، ہائیڈل پاور کے دو منصوبے  3.5 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ، ایس ای زیڈز اور زراعت۔ دائرہ کار اصل میں بہتر ہوا ہے- 

اگست میں خارجہ پالیسی کے ایک مضمون میں تجزیہ کار عارف رفیق نے لکھا: “بلاشبہ باجوہ کا انتخاب اس یقین پر ہوا ہے کہ وہ خاص طور پر سیکورٹی کے خدشات کو دور کرسکتے ہیں- بیجنگ بلوچستان میں دہشت گردی سے پریشان ہے ، جہاں علیحدگی پسندوں نے حالیہ برسوں میں چینی اہداف پر حملے تیز کردیئے ہیں۔ باجوہ نے تین سال تک فوج کے مرکزی ترجمان کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور انہیں فوج کے میڈیا مینجمنٹ گیم کو ڈیجیٹل دور میں لیجانے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ فوج سی پی ای سی کو بدنیتی پر مبنی غیر ملکی پروپیگنڈہ مہم کا ہدف سمجھتی ہے  اور انکا مقابلہ کرنا چاہتی  ہے (مثال کے طور پر ، متعدد سینئر امریکی عہدیداروں نے عوامی سطح پر اس پروگرام کی استحکام ، شفافیت اور یہاں تک کہ اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں) – ” 

انہوں نے مزید کہا: “لیکن اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ فوج نے باجوہ اور سی پی ای سی کو سویلین حکومت   سے اقتدار کر بڑے حصّے کے حصول کے لئے بطور چال استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔”

اڈینی نے کہا کہ چین اور فوج دونوں ہی محسوس کرتے ہیں کہ ایک مرکزی اتھارٹی سی پی ای سی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے قابل ہوگی۔ 

انہوں نے متنبہ کیا ، “لیکن سی پی ای سی  کو کامیابی حاصل کرنے اور پاکستانی عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ، یہ انتہائی اہم ہے کہ سی پی ای سی اتھارٹی اپنے فیصلے سازی کے عمل میں صوبوں کو بھی شامل کرے۔” 

فلپپو بونی کے ساتھ کی گئی ان کی تحقیق ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان جیسے تاریخی طور پر پسماندہ صوبوں کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ میں سی پی ای سی منصوبوں کی اعلی تکمیل کی شرح کو ظاہر کرتی ہے۔ 

سی پی ای سی – ایک ناقص گرین ماڈل

سی پی ای سی کے تحت ہونے والی اصل پیشرفت کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر کی ہے۔ اس نے اشد ضروری توانائی فراہم کی ہے لیکن پاکستان کی طویل قلت کو دور کرنے کا یہ ایک گندا اور مہنگا طریقہ ہے۔ 

سی پی ای سی کے تحت اب تک کوئلے کے چھ پلانٹ تعمیر ہوچکے ہیں ، جنہوں نے 2019 تک گرڈ میں تقریبا   5000 میگاواٹ بجلی شامل کی ہے – مزید ابھی پائپ لائن میں ہیں- اس نے ایسے ملک میں آلودگی کو مزید بگاڑا ہے جہاں شہر پہلے ہی زہریلی فضائی آلودگی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں ایک سال میں 128،000 قبل از وقت اموات ہوتی ہیں- 

Protestors in Abbottabad demonstrate against lack of compensation, environmental degradation [image by Mohammad Zubair Khan]

ماحولیاتی وکیل اور کارکن احمد رافع عالم راہداری کی ناقص ماحولیاتی ذمہ داری کے بارے میں اپنے خیالات  نہیں چھپاتے- 

“سی پی ای سی نے آب و ہوا کے بحران کو نظرانداز کیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی ، ترقی اور اصلاحات کی جانب سے شائع کردہ طویل المیعاد سی پی ای سی پلان میں موسمیاتی تبدیلیوں کا صرف ایک بار ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی ‘آب و ہوا کی تبدیلی کے ممکنہ اثر’ کے تناظر میں۔ آب و ہوا کے بحران سے متعلق ہر فرد کے لئے  یہ خطرے کی گھنٹی ہونی چاہئے۔”  

بی آر آئی کے لئے سی پی ای سی  کو ایک پوسٹر چائلڈ کی حیثیت سے پیش کیے جانے سے ، اس کی گرین اہلیت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ ” جب کہ پیرس معاہدے پر چین دستخط کنندہ ہے اور صدر چی جنپنگ نے یہاں تک کہ 2017 کے ورلڈ اکنامک فورم میں عالمی رہنماؤں سے معاہدے پر “قائم” رہنے کی اپیل کی۔ کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھر پاکستان کو فروخت کرنے میں اس عزم کا بہت کم ثبوت نظر آتا ہے” عالم کہتے ہیں۔

” اگرکوئلہ منصوبے کے مطابق بن گیا تو پاکستان کاربن کے کثیف اخراج کے راستے پر چل پڑے گا” ، جنگ میں مقیم این جی او گرینویشن حب (جی حب) کے اسسٹنٹ پروگرام ڈائریکٹر گو ہانگیو نے کہا جو پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کا تجزیہ کررہے ہیں- 

کوئلے سے دوسرے خطرات لاحق ہوسکتے  ہیں۔ چینی مالی اعانت سے چلنے والے کوئلے کے پلانٹ پاکستان کو درآمدی ایندھنوں پر انحصار کم کرنے یا توانائی کی سلامتی کے مسائل حل کرنے میں مدد نہیں دیں گے- جی حب کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا۔

پاکستان کو 2022 تک توانائی کی فراہمی میں اضافی گنجائش کا سامنا ہے ، اور بجلی کی صلاحیت کی ادائیگیوں کی مد میں بہت بڑا مالی بوجھ ، انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل انیلیسیس (آئی ای ای ایف اے) کے انرجی فنانس تجزیہ کار سائمن نیکولس نے ایک حالیہ رپورٹ میں استدلال کیا۔ 

چینی سرکاری کمپنیوں (ایس او ایز) نے ایسے عہدیداروں کے ساتھ منافع بخش سودے کیے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ چین کا سیکنڈ ہینڈ کوئلہ واحد قابل عمل آپشن ہے۔ 

اب پاکستانی حکومت نے چین سے سی پی ای سی پروجیکٹس پر آسان ادائیگی کی شرائط مانگی ہیں کیونکہ موجودہ پلانٹس غیر فعال ہیں۔

سی پی ای سی کوئلے کے منصوبے پاکستان کی اپنی گرین پالیسیوں کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کی 2019 کی متبادل توانائی پالیسی جو حال ہی میں حرکت میں آئی ہے، 2030 تک قابل تجدید ذرائع سے ہونے والے 30 فیصد مرکب توانائی کا  عہدکرتی ہے ، جو ابھی4٪  ہے۔ 

وزیر اعظم پاکستان پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کے مشیر ملک امین اسلم کے اور بھی بڑے عزائم ہیں: “پاکستان صاف توانائی کے مستقبل کے لئے پرعزم ہے اور 2030 تک 60٪ کے صاف اور گرین انرجی مرکب کی طرف منتقلی کا ارادہ رکھتا ہے- لیکن اس کے لئے بڑے پیمانے پر پن بجلی کی ضرورت ہوگی ، جو اپنے ساتھ ماحولیاتی مسائل ، یا بڑے پیمانے پر بدلاؤ لاۓ گا- 

اور جب کہ ماہرین وسیع پیمانے پر ہوا اور شمسی توانائی کی صلاحیت کی نشاندہی کررہے ہیں ، سی پی ای سی – یا کم از کم چینی فنانس نے ابھی تک قابل عمل فریم ورک فراہم نہیں کیا ہے۔ “چینی قابل تجدید توانائی کی کھلاڑی نجی کمپنیاں ہیں اور سی پی ای سی حکومت سے حکومت کا معاہدہ ہے ،” گو نے نشاندہی کی۔ “میں آر ای کمپنیاں سی پی ای سی میں شامل ہوتے دیکھنا چاہوں گا ، لیکن انھیں مالی اعانت میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” کوئلہ کے پلانٹ بنانے والی سرکاری کمپنیاں اس وقت انشورنس کمپنی سینوسور کی خدمات حاصل کررہی ہیں ، جبکہ نجی کمپنیاں نہیں۔ 

شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو اور اپ ڈیٹ سمیت سی پی ای سی کے تحت سڑکوں کا جال دیگر خطرات لائے گا- ” دنیا میں کہیں بھی کرہ ارض پر سب سے زیادہ آب و ہوا حساس ماحولیاتی نظاموں سے شاہراہ گزارنا اور پھر اس پر ڈیزل ٹرانسپورٹ ٹرک چلانا  معقول معاشی ترقی  نہیں سمجھی جاتی- یہ اصل میں ماحول کا قتل ہوگا”، عالم کہتے ہیں- 

سی پی ای سی کے لئے آگے کیا ہے؟

کوویڈ 19 کے بعد بڑے پیمانے پر دباؤ اور معاشی سست روی ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ سی پی ای سی  ناکام ہونےکے لئے نہیں بنا ہے۔ بی آر آئی کے لئے بطور پرچم بردار اس کی حیثیت ، اور وسیع پیمانے پر چین امریکہ مقابلہ   جو جیو اکنامکس پر کھیلا جارہا ہے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہ امریکہ کی مزید جانچ پڑتال کا نشانہ بنے گا”، اسمال کہتے ہیں- مجھے توقع ہے کہ اب اس کہانی کو برقرار رکھنے کے لئے کافی کچھ کیا جائے گا کہ اسکو لاحق چیلنجز کے باوجود پیشرفت ہورہی ہے”- 

ہنری ٹیل مین ، مرچنٹ بینک گریزون پیک  کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ، جو بی آر آئی کی سرمایہ کاری کو قریب سے دیکھ رہے ہیں ، سی پی ای سی کے مستقبل کے بارے میں زیادہ  پرامید ہیں۔ “سی پی ای سی اس بات کی علامت ہے کہ بی آر آئی کس طرح آگے بڑھ رہا ہے – حکومت تا حکومت قرضوں (بڑے بنیادی ڈھانچے کے لئے فنڈز) سے کاروبار تا کاروبار سرمایہ کاری اور” ڈیجیٹل سلک روڈ “کی طرف منتقلی کررہا ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ  جرنیلوں کے  چارج کے اندر  بڑی مقدار میں نجی ایکویٹی پاکستان میں آئے گی۔ 

“فروری 2019 میں میں نے پاکستان کی قیادت کو ایک تجزیہ پیش کیا جس میں 30 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ  ایکویٹی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے جو پاکستان میں آئیگی- جس میں صرف 10٪ چین سے ہے- اس ملک میں ایکویٹی کے آنے کی کوئی بھی بات نہیں کرتا ہے… یہ 200 ملین افراد کے ملک میں صارفین کی معیشت کے ابھرنے کا نتیجہ ہے۔”

لیکن سیاسی اور ماحولیاتی حقائق زمین پر بہت مختلف ہیں۔ جیسا کہ عمیر جاوید نے سن 2016 میں لکھا تھا ، سی پی ای سی شاید ایک “معاشی گیم چینجر” ہوسکتا ہے لیکن اس سے “گہرے سیاسی زخم”   بھی بے نقاب ہوں گے کیونکہ ملک میں مال غنیمت کی غیر مساویانہ تقسیم ہوگی۔ 

زوفین ٹی ابراہیم کی اضافی رپورٹنگ

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.