icon/64x64/energy توانائی

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے قریب جوہری بجلی گھر کی تعمیر ۔ ۔ ۔اور ماہرین کے خدشات

 کراچی کی بندرگاہ سے 40 کلو میٹر دورچینی انجینئرزکے تعاون سے ایک جوہری بجلی گھر

( نیوکلئیر پاور پلانٹ) تعمیر کیا جارہاہے۔ کراچی ایک کروڑ اور 80 لاکھ آبادی پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔آبادی کے انتہائی قریب اس جوہری بجلی گھر یانیو کلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر کے حوالے سے پاکستانی ماہرین ماحولیات اور ماہرین طبیعات حفاظتی نقطہ نظرسے سنگین خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ماہرین کو لاحق بہت سے خدشات میں سے ایک اس بجلی گھر کا ڈیزائن بھی ہے۔ اس نیو کلیئر پاور پلانٹ کے لیے چینی کمپنی کے ڈیزائن کردہ جو دو ACP-1000 نیوکلئیر ریکٹر حاصل کیے جارہے ہیں وہ اپنی نوعیت کے نئے ہیں اوران کی کارکردگی کا اس سے پہلے دنیا بھر میں کہیں تجربہ نہیں کیا گیا۔ اس نیوکلیئر پلانٹ کو چلانے کے لیے افزودہ ایندھن بھی چین ہی فراہم کرے گا۔ یہ دونوں ریکٹرچین کی ایک کمپنی چائنا نیشنل نیو کلیئر کارپوریشن (China National Nuclear Corporation) میں بدستور تیاری کے مراحل میں ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس ڈیزائن پرکوئی پاور پلانٹ اس سے پہلے دنیا بھر میں کہیں تعمیریا تجربہ نہیں کیاگیاہے حتی کہ چین میں بھی نہیں! 

نامور ماہر طبیعات پرویزہود بھائی اس نئے چینی ڈیزائن کے حوالے سے شدیدتشویش کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے ” صرف وہی ریکٹر خریدے جائیں جنہیں ٹیسٹ کیا جا چکا ہو اور جوقابل بھروسا ہوں، اور اس میں کئی متبادل نظام موجود ہونا چاہئیں جو کسی بھی حادثے کی صورت میں مناسب متبادل فراہم کرسکیں۔ یہ چینی ریکٹر اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔“

خدشے کی بات یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے نہ ہی تو کوئی مباحثہ یا عوامی شنوائی (پبلک ہئیرنگ) کی گئی اور نہ ہی اس منصوبے کے ماحولیاتی تجزیے(Environment Impact Assessment) کی رپورٹ عوامی سطح پر فراہم کی گئی۔ پاکستان کے کثیر الاشاعت اخبار ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق،” پاکستان اٹامک انرجی کمیشن یا پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی نے اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیںدی کہ اس ریکٹر کی وجہ سے اگرکوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تواس کا سدباب کیسے ہوگا اور بچاﺅ کی کیا صورت ہوگی!“

پرنسٹن یونیورسٹی کے Woodrow Wilson School of Public and International Affairs سے وابستہ بین الاقوامی سطح کے نامور ماہر طبیعات ضیا میاں کا کہنا ہے کہ” ایسی کسی بھی صورت حال میں صحت اور ماحولیاتی نتائج ممکنہ طور پر تباہ کن ثابت ہوں گے۔“

اس ایٹمی ریکٹر سے2019ءتک 2,200 میگا واٹ سپلائی نیشنل گرڈ میں شامل کیے جانے کی توقع ہے۔اگرچہ یہ ملک کا پہلا نیوکلئیر پروجیکٹ نہیں ہے مگر اسے اب تک کے نیوکلیئرپاور پلانٹ میں بڑا سمجھا جاسکتا ہے۔ ملک اس وقت بجلی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں نو گھنٹوں سے زائد کی لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے جو کہ صنعتی شعبے کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 9.59 بلین ڈالر کی خطیر لاگت سے شروع کیا جانے والانیوکلئیر پاور کمپلیکس بجلی کے اس بحران کو ختم کرنے میں ایک طویل عرصہ لے گا۔

پنجاب میں چشمہ پاور پلانٹ کے بعد یہ دوسرا بڑا منصوبہ ہے جو نیوکلیئر انرجی یا جوہری توانائی کے شعبے میں پاک چین تعاون کی بہترین مثال ہے۔ پچھلے ماہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہاکس بے کے ساحل کے قریب اس نیوکلئیر پاور پلانٹ سائٹ کا افتتاح کیا اور اعلان کیا کہ پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کے ماہرین کی زیر نگرانی چھہ مزیدجوہری بجلی گھر یا نیوکلئیر پاور پلانٹ لگائے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے اس اعلان سے سائنس دانوں کے خدشات کو اور تقویت ملی۔

پاکستان جوہری خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں: 

 ماہر طبیعات ضیامیاں کا کہنا ہے کہ جاپان میں فوکوشیما جوہری تباہی کے ڈھائی سال گزرجانے کے بعد بھی اب تک تابکاری اثرات کا حامل سیکڑوں ٹن پانی ہر روز سمندر میں شامل ہورہا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی ”وہاں کئی جگہیں اب بھی ایسی ہیں جہاں تابکاری کے اثرات اتنے شدید ہیں کہ وہاں رہنے والے گویا ہر گھنٹے تابکاری کی خوراک لے رہے ہیں ۔ تابکاری کے اثرات کو ختم کرنے میں ممکنہ طور پر تیس سال لگیں گے اورآس پاس کی کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جو کبھی بھی تابکاری سے پاک قرار نہیں دی جاسکیں گی یوں اس جگہ سے بے دخل کیے جانے والے مقامی لوگ کبھی بھی اپنے گھر واپس جانے کی اجازت نہیں حاصل کرسکیں گے۔“

گورنمنٹ پلاننگ کمیشن کے تحت کام والی ایک تنظیم پاکستان واٹر کارپوریشن کے ڈائریکٹرڈاکٹر پرویز امیر نے بھی جاپان کے فوکو شیما اور 1986ءمیں یوکرین میں ہونے والے چرنوبل حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے تابکار آلودگی کی ایک بڑی آبادی پر فوری اور طویل المدتی 

عرصے تک اثر انداز ہونے کے تباہ کن خطرات سے آگاہ کیا۔

ضیا میاں نے ملکی حوالے سے صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ”یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کراچی یا سندھ کے لوگ بلکہ پورا پاکستان اس نئے ریکٹر سے ہونے والی ایک خطرناک جوہری تباہی سے نمٹنے کے لیے متحرک ہوسکتا ہے یا اپنے وسائل کو استعمال کرسکتا ہے۔“

اس جوہری بجلی گھر یا نیوکلیئر پاور پروجیکٹ کے حوالے سے پاکستانی سائنس دانوں کے خدشات کو مزید تقویت اس حقیقت سے مل رہی ہے کہ یہ ریکٹرز تقریباً ایک کروڑ اور 80 لاکھ کی گنجان آبادی کے بے حد قریب تعمیر کیے جارہے ہیں اور کسی بڑے حادثے کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پرنمٹنے کا کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہوگا۔

تحفظ ماحول پر کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم آئی یو سی این کے محمد طاہر قریشی اس سلسلے میں 1971میں تعمیر کیے گئے کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ(KANUPP) کی مثال دیتے ہیں جسے تابکاری خطرات سے محفوظ سرکاری دعووں کے باوجود غیر فعال کردیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ (KANUPP) میں ہونے والے حادثات کا اگرچہ کوئی باقاعدہ اعداد و شمار اور ریکارد نہیں ہے، مگر اس مسئلے سے متعلق معلومات کی شفافیت پر اٹھتے سوالوں پرطاہر قریشی کا کہنا ہے کہ ان کا مشاہدہ ہے کہ پلانٹ سے نکلنے والے پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سمندر میں اخراج کیا جاتا تھاجس سے سمندری حیات خصوصاماہی گیری اور مقامی آبادی کی صحت پر خطرناک اثرات رونما ہورہے تھے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پلانٹ کا حفاظتی نظام ناقابل بھروسا تھا اور ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔ یہ تباہی 1984 ءمیں بھوپال، انڈیا میں کیمیائی پلانٹ کی تباہی سے بھی بڑی ہوسکتی تھی جس میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ جبکہ پلانٹ میں کسی خرابی کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پر اس کا کوئی متبادل نظام بھی موجود نہیں تھا۔

طاہرقریشی کے مطابق، حکام اس کے خطرات کے بارے میں بالکل غیر متعلق اور بے پروا نظر آتے ہیں اور کسی بھی انسانی غلطی کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی کو کم کرنے یا آبادی کو نقصانات سے بچانے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ حالانکہ کسی بھی منصوبے کے آغاز سے قبل یہ تمام احتیاطی تدابیر، قومی اور علاقائی منصوبہ سازوں میں اس حوالے سے آگہی، منصوبے کے ڈیزائن میں زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی اور خطرات کا شکار علاقوں کی نشان دہی منصوبہ بندی میں واضح طور پرشامل ہونا چاہیے ۔

جوہری ٹیکنالوجی ممکنہ طور پر قابل بھروسا کاربن کی آلودگی سے آزادبجلی پیدا کرسکتی ہے ۔ ۔۔ لیکن کیااس صنعت کو محفوظ بنیادوں پر ترقی دی جاسکتی ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ضیامیاں نے کہا” یہ بالکل بھی محفوظ نہیں ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کیا جوہری سرگرمی محفوظ ہے۔۔ سوال یہ ہوگا کہ کیا آپ جوہری سرگرمی سے متعلق خطرات کو جانتے ہیں؟ اس کے نتائج کتنے خطرناک ہوں گے؟ کون فیصلہ کرے گا کہ جوہری خطرات اور اس کے نتائج قابل قبول ہیں؟ یہ فیصلہ کیسے کیا جاسکے گا؟ اور سب سے اہم، جو لوگ اس کے خطرات کے بارے میں فیصلہ کریں گے، کسی نقصان کی صورت میں کیا وہی لوگ اس کے نتائج بھگتیں گے؟

زیادہ تر ماہرین ایک بڑے شہری مرکز کے قریب ریکٹرز کی تعمیر پر خاص طور پرخدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ تمام جوہری ریکٹرز کو آبادی سے دور تعمیر کیا جائے۔

ڈاکٹرپرویز امیر کا کہنا ہے کہ ” اسے کراچی سے دور لگایا جائے اور اس کی ٹرانسمیشن لائن کا خرچہ برداشت کیا جائے کیونکہ انسانی جان کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔“

جوہری فضلے سے کیسے نمٹا جائے؟

یہاں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ استعمال شدہ فیول کا کیا کیا جائے۔ ضیا میاں کے مطابق ”معیاری طریقہ ءکار کے مطابق استعمال شدہ گرم تابکارایندھن کو ریکٹرسے نکال کر ٹھنڈا کرنے کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر پانی میں ڈالا جائے، اس کے بعد تازہ فیول ریکٹر میں ڈالا جائے۔جس پانی (پول یا تالاب) میں جوہری فضلہ ڈالا جائے گا وہاں وہ کئی سالوں تک پڑا رہ سکتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پانی میں تابکار مادے کی مقدار ریکٹر میں موجود مادے کی مقدار سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ اگر اس تابکار استعمال شدہ ایندھن کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی دوسری متبادل جگہ نہیں ہے تویہ فیول ایک عرصے تک پول میں پڑا رہ سکتا ہے۔“

ضیا میاں نے مزید وضاحت کی کہ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ استعمال شدہ فیول میں آگ لگنے کی صورت میں اس قدر تابکار شعاعیں خارج ہوں گی کہ اتنی کسی حادثے کی صورت میں جوہری ریکٹر سے بھی نہیں خارج ہوں گی۔اس طرح یہ ماحول اور صحت پر مزید خطرناک اثرات ڈال سکتی ہیں۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سائنس داں مکمل طور پر جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف ہیں اور نہ اسے ختم کرنا چاہ رہے بلکہ حکومت کے لیے ان کی تجویز ہے کہ متعلقہ موضوع پر مکالمے کو فروغ دیا جائے اور مباحثے اور مکالمے کے ذریعے محفوظ اور ارزاں سرمایہ کاری کی دیگر ٹیکنالوجی کی جانب بھی توجہ دی جائے۔

ماہر طبیعات پرویز ہود بھائی نے کہا، ”پاکستان کی توانائی کی ضروریات ، دستیاب محفوظ توانائی کی ٹیکنالوجیزمیں سرمایہ کاری کے ذریعے بہت جلد پوری کی جاسکتی ہیں ۔ اس کی ایک مثال انرجی سیور لائٹ بلب ہیں جو اب ہر جگہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے متبادل توانائی کے ذرائع جیسے سورج، ہوا اور پانی سے توانائی کا حصول چاہے اسے خود تیار کریں یاخریدا جائے محفوظ حل ہوسکتا ہے۔“ انہوں نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جوہری بجلی گھروں کی بہ نسبت سورج اور ہوا سے زیادہ سے زیادہ توانائی پیدا کی جارہی ہے ۔

ڈاکٹرپرویز امیر نے پانی کی توانائی کے بارے میں کہا کہ وہ سستا اور بہترین طریقہ ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے ماحولیاتی خدشات بہت زیادہ ہیں مگر انہیں درست مناسب حفاظتی اقدامات کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.