توانائی

تجزیہ: پاکستان میں کوئلے کے پلانٹس جلد بند کرنا معاشی حوالے سے ایک بہتر فیصلہ ہے

انڈونیشیا کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے حنیہ اِساد کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی کوئلے کے پلانٹس قبل از وقت بند کرنے سے فائدہ ہوگا
اردو
<p>پاکستان میں تھر کول بلاک نمبر- ون کول پاور پروجیکٹ کا ایک منظر۔ پاکستان کا تھرمل فلیٹ (پاور پلانٹس جو توانائی پیدا کرنے کے لئے فوسل فیولز کا استعمال کرتے ہیں) ملک بھر میں استعمال ہونے والی بجلی کا 60 فیصد پیدا کرتا ہے۔ (تصویر: ژنہوا / الامی)</p>

پاکستان میں تھر کول بلاک نمبر- ون کول پاور پروجیکٹ کا ایک منظر۔ پاکستان کا تھرمل فلیٹ (پاور پلانٹس جو توانائی پیدا کرنے کے لئے فوسل فیولز کا استعمال کرتے ہیں) ملک بھر میں استعمال ہونے والی بجلی کا 60 فیصد پیدا کرتا ہے۔ (تصویر: ژنہوا / الامی)

فوسل فیولز پر مبنی بجلی کی پیداوار کا خاتمہ ہماری توانائی کی منتقلی (فوسِل فیولز سے پیدا کی جانے والی توانائی سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی) میں کامیابی کی کلید ہے اور موسمیاتی مذاکرات میں بحث کا ایک اہم نکتہ رہا ہے۔ کوئلے کے استعمال کا مرحلہ وار ختم کیا جانا ایک ایسا موضوع تھا جو کوپ 28 (کانفرنس آف پارٹیز 28) کے مختلف مباحثوں میں غیر متوقع طور پر سامنے آیا۔ تیرہ مزید ممالک پاورنگ پاسٹ کول الائنس میں شامل ہوئے، جن میں بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک اور امریکہ اور متحدہ عرب امارات جیسے تیل اور گیس برآمد کنندگان شامل ہیں۔ اگرچہ فوسل فیولز کا استعمال مرحلہ وار ختم کئے جانے کے پیچھے سائنس بالکل واضح ہے ، لیکن یہ بڑا سوال اب بھی ہمارے سامنے ہے کہ اس کی مالی اعانت کیسے کی جائے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کا انرجی ٹرانزیشن میکانزم (ای ٹی ایم) اس سوال کا جواب دینے کی ایک کوشش ہے۔ اس اسکیم کا مقصد ترقی پذیر مارکیٹوں کے لئے سرمائے کو قابل رسائی بنانا ہے جو اپنے پاور جنریشن مکس میں فوسل فیول سے دور منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ اس میں مارکیٹ پر مبنی میکانزم اور رعایتی گرانٹس اور قرضوں کا امتزاج تجویز کیا گیا ہے تاکہ مالکان کو آلودگی پھیلانے والے اثاثوں کو معاہدے سے پہلے بند کرنے میں مدد مل سکے، جبکہ انہیں متبادل کے طور پر قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جاسکے۔

امید افزا ہونے کے باوجود، ایک ایسے معاہدے پر اتفاق ہونا جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو بہت مشکل ہے۔

پہلے سودے کا اندازہ لگانا

انڈونیشیا کا اپنے 660 میگاواٹ کے سیریبون-ون کول پاور پلانٹ کو قبل از وقت بند کرنے کا معاہدہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا پہلا سرکاری انرجی ٹرانزیشن میکانزم معاہدہ ہے۔ نومبر 2022 میں سیریبون یا چیریبون الیکٹرک پاور کے مالکان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے گئے تھے۔ اس میں 12 سال پرانے پلانٹ کے لئے ری فنانسنگ معاہدے کی تجویز دی گئی ہے جس سے اس پاور پلانٹ کی 40-50 سال کی مُدّتِ عمر میں 10-15 سال کی کمی آئے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اب ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اِس معاملے کا کوئی تصفیہ نہیں ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ بات چیت کتنی پیچیدہ اور وقت طلب ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس معاملے میں عوام کی شرکت کم ہی رہی ہے جو اِس مذاکراتی عمل کو سمجھنے میں مشکل پیدا کرتی ہے اور اِس وجہ سے یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ پلانٹ کے بجلی کی خریداری کے معاہدے کو سات سال قبل ختم کرنے کے لئے ایک “غیر پابند” فریم ورک معاہدے کا اعلان دسمبر میں کوپ 28 میں کیا گیا تھا ، لیکن اصل کاروائی ابھی کچھ مہینوں تک متوقع نہیں ہے۔

ریٹائرمنٹ فریم ورک تجویز کرنا

ایک ای ٹی ایم ٹرانزیکشن (کاروائی) جیسا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اِس کا خاکہ ترتیب دیا ہے، اِس کے مطابق بہتر ہوتا ہے کہ اس میں موجودہ پلانٹ کے مالکان، حکومت، اور انرجی ٹرانزیشن میکانزم سرمایہ کاران کے درمیان ایک معاہدہ شامل ہو۔

انسٹی ٹیوٹ آف انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالسز (آئی ای ای ایف اے) کی اکتوبر 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق، قبل از وقت ریٹائرمنٹ اسکیم کے لئے اہل ہونے والا کوئی بھی اثاثہ عام طور پر یہ تین اہم خصوصیات رکھتا ہے:

1.    عوامی شعبے کے نقطہ نظر سے، حکومت کم سے کم ادائیگی کرتی ہے لیکن بجلی کے گرڈ سے اثاثہ کے خاتمے تک زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہے۔

2.    مالکان کے نقطہ نظر سے، کاروبار معمول کے مطابق معاشی طور پر کمزور نظر آتا ہے کیونکہ پاور پلانٹس کو چلانے کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں اِس وجہ سے طلب کم اور ساتھ ہی آمدنی بھی کم ہوجاتی ہے یا پھر پلانٹ کو مستقبل قریب میں بھاری مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

3.    ایک سرمایہ کار کے نقطہ نظر سے، ایک اچھا امیدوار نسبتا سستا ہوگا، جبکہ اس کی ریٹائرمنٹ (پاور پلانٹس کو ان کی مُدّتِ عمر پوری ہونے سے قبل بند کر دینا) تک معقول منافع حاصل ہوتا رہے۔

مزید برآں، یہ  پلانٹ کی مثالی ریٹائرمنٹ اس سے وابستہ برقی گرڈ کو بہت زیادہ متاثر نہیں کرے گی اور اس وجہ سے توانائی کی حفاظت پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ پلانٹ مالکان کے پاس پہلے ہی ڈی کاربنائزیشن اور نیٹ- صفر اخراج کے وعدوں کو اُن کے کاروباری پورٹ فولیو میں شامل کیا جائے گا۔ پلانٹ کو پہلے ہی ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب نہیں ہونا چاہئے، جو معاہدے کے ماحولیاتی فوائد کو نقصان پہنچائے گا اور ممکنہ طور پر مالکان کو زیادہ معاوضہ دینے کے ناپسندیدہ تاثر کا باعث بنے گا۔

اگر سیریبون-ون پلانٹ کے لئے طویل، طے شدہ مذاکرات کوئی اشارہ ہیں تو، اب بات چیت کی ضرورت ہے

نجی ملکیت والا سیریبون-ون پاور پلانٹ یقینی طور پر اِن میں سے تمام تو نہیں مگر زیادہ تر شرائط کو پورا کرتا ہے۔ درمیانی عمر کے پاور پلانٹ کے ملٹی نیشنل کارپوریٹ مالکان فوسِل فیولز سے پیدا کی جانے والی توانائی سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے پوری طرح قائل ہیں اِس لئے پلانٹ کے پہلے ہی ضرورت سے زیادہ برقی توانائی فراہم کرنے والے جاوا-بالی گرڈ سے نکلنے سے انڈونیشیا کی توانائی کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ مزید برآں، 300 ملین امریکی ڈالر اس کے مالکان کے لئے مناسب معاوضہ ہے، کیونکہ یہ پلانٹ پہلے ہی قرض سے پاک ہے لہذا صرف کھوئی ہوئی آمدنی کا حساب لیا جانا چاہئے۔

پاکستان کا ماڈل

آئی ای ای ایف اے کے دیگر ممکنہ ای ٹی ایم مارکیٹوں کے تجزیے میں پاکستان کو ایک امکان کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس کے تھرمل پاور فلیٹ میں درمیانی عمر کے، درمیانے سائز کے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) یا ڈیزل پلانٹس موجود ہیں جو قبل از وقت ختم کیے جا سکتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان کے پاور گرڈ میں کوئلے کا حصہ انڈونیشیا کی طرح زیادہ نہیں ہوسکتا ہے، لیکن اس کا تھرمل فلیٹ ملک بھر میں استعمال ہونے والی بجلی کا 60 فیصد پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ 30 جون 2022 ء تک پاکستان میں نصب تھرمل صلاحیت کا صرف 70 فیصد (18.75 گیگا واٹ) نجی ہاتھوں میں تھا (جسے انڈیپینڈنٹ پاور پرچیزرز یا آئی پی پیز کے نام سے جانا جاتا ہے) اور سرکاری ملکیت والی سینٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی (سی پی پی اے – جی) واحد ادارہ ہے جو بجلی کی خریداری کے ان معاہدوں کو ختم کرسکتا ہے۔ فراخدلانہ الاؤنسز جیسے ڈالر انڈیکسیشن، فکسڈ گنجائش چارجز، طویل مدتی بجلی کی خریداری کے معاہدے اور ادائیگیوں کے لئے خودمختار گارنٹی اکثر اِن پلانٹس کو مارکیٹ کی طاقتوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

پاکستان میں تھرمل پلانٹس درآمد شدہ ایندھن جیسے کوئلہ، فرنس آئل اور ایل این جی پر بھی چلتے ہیں، جو غیر ملکی کرنسیوں میں خریدے جاتے ہیں اور قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ اور سپلائی چین کے مسائل سے مشروط ہیں۔n

غیر مستحکم مراعات اور ضرورت سے زیادہ زرمبادلہ پر مبنی ایندھن کے اس امتزاج نے صلاحیت کی ادائیگی کے ایک ایسے جال کو جنم دیا ہے جسے پاکستانی ریاست ہلا نہیں سکتی۔ اگست میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے دوران وزارت توانائی نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے مالی سال 2022-2023 کے دوران آئی پی پیز کو صلاحیت کی ادائیگی کے طور پر 1.3 ٹریلین روپے (4.6 ارب ڈالر) ادا کئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے کیونکہ 2023-2024 کے لئے پاکستان کا پورا وفاقی بجٹ 14.5 ٹریلین روپے ہے۔

ان نازک حالات میں، اِس طرح کے اثاثوں کو ریٹائر (مُدّتِ عمر پوری ہونے سے قبل بند) کرنا معاشی اور ماحولیاتی دونوں لحاظ سے ایک معقول فیصلہ نظر آتا ہے۔ آئی ای ای ایف اے کی مذکورہ بالا پاکستان کے حوالے سے رپورٹ میں تین تھرمل آئی پی پیز سیف پاور، ہالمور پاور اور سفائر الیکٹرک کی نشاندہی کی گئی ہے جو مناسب ای ٹی ایم ٹیسٹ کیسز بنا سکتے ہیں۔

آئی ای ای ایف اے کے نتائج کے مطابق، اِن میں سے ہر پلانٹ کو 15 سال کی عمر میں ریٹائر(بند) کرنے پر مجموعی طور پر 108 ملین امریکی ڈالر کی تخمینہ قیمت بنے گی اور جبکہ اِس کے مقابل تقریباً 18 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج سے بچا جاسکتا ہے۔

یہ پلانٹس مجموعی طور پر گرڈ کو فراہم کی جانے والی توانائی کا 2 فیصد سے بھی کم ہیں، لہذا اِن پلانٹس کو قبل از وقت بجلی کی پیداوار سے روکنے پر پاکستان کی توانائی کی سلامتی کو خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے اضافی گنجائش کی ادائیگی کے بدلے حکومت کو فی پلانٹ 210 ملین ڈالر تک کی بچت ہوسکتی ہے۔

انرجی ٹرانزیشن میکانزم کی سہولت آب و ہوا کو بہتر بنانے کا راستہ ہموار کرتی ہے

ایشیا کے بیشتر حصوں کی طرح پاکستان کا کوئلے کا بیڑا بھی ابھی اپنے عروج پر نہیں پہنچا ہے، ملک کا سب سے پرانا کوئلے سے چلنے والا پلانٹ صرف چھ سال پرانا ہے۔ مقامی کوئلے کے بیڑے کے استعمال کی شرح نہایت عمدہ ہے اور اِس سے منافع بھی زیادہ حاصل ہوتا ہے، جو اسے موجودہ پلانٹ مالکان کے لئے ایک منافع بخش کاروبار بناتا ہے۔ کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے کے اقدامات کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کیونکہ مستقبل قریب  میں کوئلے کے پلانٹس کی تعمیر اور دیکھ بھال پر خرچ کی گئی رقم کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا۔

جیسے جیسے ان پلانٹس کی عمر بڑھتی جاتی ہے، معاشیات زیادہ سازگار ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود، اگر سیریبون-ون پلانٹ کے لئے طویل اور طے شدہ مذاکرات کوئی اشارہ ہیں، تو اس میں شامل فریقین کی رضامندی کا جائزہ لینے کے لئے اب بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ متفق ہو سکتے ہیں، کچھ نہیں۔

افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ بیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو وسعت دینے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے جبکہ یہ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے اِن پاور پلانٹس کے لئے رقم فراہم کرنے والا واحد ملک ہے۔

 دریں اثنا، موجودہ سی پیک پاور پلانٹ مالکان کو مبینہ طور پر 400 ارب روپے سے زائد کے سی پی پی اے-جی کے غیر ادا شدہ واجبات کی وجہ سے سپلائی چین کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نقد رقم کی کمی اور ایندھن کے اِسٹاک کو برقرار رکھنے سے قاصر اینگرو پاورجن تھر لمیٹڈ، جس پر 65.5 ارب روپے واجب الادا ہیں، نے مئی 2023 میں مکمل طور پر بند ہونے کی دھمکی دی ہے۔ پورٹ قاسم الیکٹرک پاور پر 77.3 ارب روپے واجب الادا تھے اور انہوں نے اسی ماہ سی پی پی اے-جی کو باضابطہ ادائیگی ڈیفالٹ کا نوٹس جاری کیا تھا۔

انرجی ٹرانزیشن میکانزم ایک ایسی سہولت ہے جو آب و ہوا کو بہتر بنانے اور پیچیدہ مالیاتی مشکلات سے باہر نکلنے کا راستہ ہموار کرتی ہے اور اسی لئے یہ مالیاتی مشکلات میں مبتلا کول پاور پلانٹس کے لئے اُمید کی ایک کرن ثابت ہوسکتی ہے۔

معاملہ جو بھی ہو مگر صحیح وقت پر کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے اور اِس حوالے سے مالی اعانت فراہم کرنے کے لئے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کے لئے قابل تجدید توانائی اور اسمارٹ گرڈ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، دونوں ہی تیزی سے اور ساتھ ساتھ ہونی چاہئے جبکہ کمیونیٹیز اور کارکنوں پر اِس کے اثرات کو کم سے کم کرنا چاہئے۔

 دنیا بھر میں کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم  کرنے کے لئے منظم طریقے سے کی جانے والی متعدد تکنیکی فزیبلٹی اسٹڈیز کے باوجود، کوئلے سے چلنے والے اِن پاور پلانٹ کو مرحلہ وار بند کرنے کا صرف ایک کامیاب پائلٹ (ٹیسٹ رن) ہی اِن مرحلوں میں شامل مشکلات کو سمجھنے اور اِنہیں حل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ اگر پائلٹ اچھی طرح سے کام کرتا ہے تو ہم کوئلے کے پلانٹس کو بند کرنے کے لئے ایک بلیو پرنٹ بنا سکتے ہیں جِسے دوسری جگہوں پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ آیا قابل نقل علاقائی ماڈل بنائے جاسکتے ہیں یا نہیں۔