آب و ہوا

انٹرویو: موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صرف ایک وجہ ہے

پاکستان میں سیلاب سے ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ جاری ہے، دی تھرڈ پول نے اس سلسلے میں ملک کے موسمیاتی تبدیلی کے ممتاز ترین ماہر علی توقیر شیخ سےگفتگو کی
اردو
<p>صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں سیلاب۔ پاکستان میں اس سال کے تباہ کن مون سون سیلاب کے پیچھے<br />
موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا عنصر ہے، لیکن منصوبہ بندی اور غربت نقصان کی حد کا تعین کرنے میں بہت بڑا<br />
کردار ادا کرتے ہیں۔ (تصویر: فیاض عزیز/ الامی)</p>

صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں سیلاب۔ پاکستان میں اس سال کے تباہ کن مون سون سیلاب کے پیچھے
موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا عنصر ہے، لیکن منصوبہ بندی اور غربت نقصان کی حد کا تعین کرنے میں بہت بڑا
کردار ادا کرتے ہیں۔ (تصویر: فیاض عزیز/ الامی)

پاکستان میں اب تک کے آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں پہلے ہی 350 سے زائد بچوں سمیت
1,100 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، اور باون
لاکھ لوگوں کو سیلاب کی مصیبتوں سے نجات دلانے کا مشکل کام اب فلڈ ریسپانس پلان کے کندھوں پر آ پڑا

ہے۔پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن نے برسات کے اس موسم کو “مونسٹر مون سون” کا نام
دیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پانی کے اندر ڈوبا ہوا ہے۔

نقصان کا پورا تخمینہ لگانے میں ابھی فی الحال کچھ وقت لگے گا۔ لیکن اس سیلاب کی وجہ سے پورے ملک میں
انفراسٹرکچر (سڑکوں ، پلوں ، اور نکاسی آب کے نظام) کو نقصان پہنچا ہے۔ اور عارضی تخمینوں کے مطابق یہ
نقصانات تقریباً 10 ارب امریکی ڈالر کے قریب ہیں۔

تصویر بشکریہ علی توقیر شیخ

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جو آب و ہوا سے پیدا ہونے والے خطرات کی زد میں رہتا ہے اور
یہاں کے سخت موسمی حالات ایک چیلنج ہیں جس سے پاکستان کو نمٹنا پڑے گا، باوجود اس کے کہ عالمی گرین
ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن کیا 2022 کے سیلاب میں بڑے
پیمانے پر جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا تھا؟ مستقبل میں دوبارہ ایسا ہونے سے بچنے کے لیے کیا کیا
جا رہا ہے؟

دی تھرڈ پول نے علی توقیر شیخ جو موسمیاتی تبدیلی، ترقی اور موسمیاتی رسک مینجمنٹ پر پاکستان کے ممتاز
ماہرین میں سے ایک ہیں، کے ساتھ 2022 کے سیلاب، ان کی وجوہات، اب تک کے ردعمل اور آ ئندہ کے لیے
لائحہ عمل ترتیب دینے کے حوالے سے گفتگو کی۔

دی تھرڈ پول: پاکستان کو ہر چند سال بعد سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن 2009 کے بعد سے تقریباً ہر سال
ہی سیلاب آتا رہا ہے۔ کیا سیلابی ریلوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟ اور تباہی کیوں بڑھ رہی ہے؟

علی توقیر شیخ: یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ خشک سالی، گرمی کی لہروں اور
گلیشیئرز کے پگھلنے کو سیلاب کے مقابلے میں واضح طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے،
لیکن سیلاب کو موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب کرنا بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے جڑے واقعات اور انکے اثرات کو سمجھنے کے حوالے سے سائنسی علم اور
ٹیکنالوجی میں کافی بہتری آئی ہے- اب سائنسدان موسموں کی ماڈلنگ (یعنی کمپیوٹر سے جڑے جدید آلات کے
ذریعے اصل موسمیاتی نظام کا خاکہ تیار کرنا اور اس کی بنیاد پر موسموں کی پیش گوئی کرنا) کر سکتے ہیں
اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اصل میں کتنا نقصان ہوا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے
کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر سیلاب کا امکان بڑھ جائے گا۔

سیلاب کے دوران ہونے والے زیادہ تر نقصانات دراصل ناقص حکومتی اقدامات اور کمزور معیشت کی وجہ سے
ہوتے ہیں۔

ایک مؤثر اور مضبوط تر مون سون سسٹم کے نتیجے میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، اور یہ مون سون اب زیادہ شدید
ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا موسمیاتی تبدیلی سیلابوں میں اضافے کا ایک اہم عنصر ہے۔ ہمیں سندھ میں موسلادھار
بارشوں، بلوچستان میں ابل پڑنے والے سیلاب، کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں شہری سیلاب، جنوبی
پنجاب اور زیریں سندھ میں اچانک سیلاب، اور گلگت بلتستان میں برفانی سیلابوں سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ یہ سب
کچھ ظاہر کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون سسٹم نے اپنا روایتی راستہ بدل لیا ہے اور اس
کے پاکستان میں انسانی تحفظ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں۔

لیکن ہم صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو سیلاب سے ہونے والی تباہی میں اضافے کی بنیادی وجہ قرار نہیں دے
سکتے۔ اگرچہ سیلابوں میں اضافہ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، اور موسمیاتی تبدیلی
ایک خطرہ ہے جو ہمارے لیے مسلسل بڑھ رہا ہے، سیلاب کے دوران ہونے والے زیادہ تر نقصانات دراصل
ناقص حکومتی اقدامات اور کمزور معیشت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلی کو اپنی منصوبہ بندی میں
شامل نہیں کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہمارا ملک اس تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی زد میں رہے
گا۔

موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کی جانب سے موسمیاتی اثرات، موافقت اور ضرر پذیری سے متعلق ایک
حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی اثرات پہلے کی رپورٹوں کے تجزیے سے کہیں زیادہ
تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو ان تنبیہات پر دھیان دینا چاہیے تھا۔

اگر 1995، 2003، 2007، 2010 اور 2022 کی طرح پاکستان میں آنے والے شدید سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کا گراف بنایا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دریائی سیلابوں
سے ہونے والے نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اگر لوگ دریا کے کناروں پر مکانات بنا کر رہنا شروع کر دیتے ہیں تو اور اگر حکومتی ادارے اتنے کمزور ہوں
کہ وہ انہیں روکنے کے بجائے نہ صرف انہیں وہاں بسنے کی ترغیب دیں بلکہ ان کے لیے اسکول اور ہسپتال
بنائیں اور بجلی کے کنکشن بھی فراہم کرنا شروع کر دیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ریاست خود موسمیاتی
تبدیلی کے اس خطرے کو ان کی نظام کی جڑوں میں داخل کر رہی ہے اور اپنی کمزور طرز حکمرانی سے اس
غلط طرز عمل کو خود ہی ہوا دے رہی ہے۔

تو کیا ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے ہونے والی ہجرت کا ایک خطرناک چکر دیکھ رہے ہیں کیونکہ کمیونٹیز
اُن علاقوں میں آباد ہو رہی ہیں جہاں انہیں آباد نہیں ہونا چاہیے؟

جی ہاں. میں نالے کے قریب کسی ایسے علاقے جو موسمیاتی خطرے کی زد میں
ہو میں جاکر گھر بنانا پسند نہیں کروں گا۔ پسماندہ افراد بھی اسے پسند نہیں کرتے لیکن وہ ان ضرر پذیر علاقوں
میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان علاقوں کو سیلاب، مٹی کے تودوں اور برفانی طوفانوں کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔آبادی
میں اضافہ، جن علاقوں میں وہ آباد ہیں، اور جس قسم کی گھروں میں وہ رہ رہے ہیں یہ تینوں عوامل مل کر
سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔

[سیلاب کے نقصان کی] کچھ وجہ موسمیاتی تبدیلی اور کچھ وجہ کمزور انفراسٹرکچر اور غربت ہے اور کچھ
وجوہات ان دونوں کا مجموعہ ہیں ۔ جب ہم کسی چیز کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں یا ہم کسی خاص علاقے پر
کام نہیں کرنا چاہتے تو ہم اسے صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے وصف کر دیتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا اصل اثر زرعی پیداوار میں کمی اور لچک میں کمی ہے۔ مثال کے طور پر، جب تھرپارکر
[صوبہ سندھ کا ایک ضلع] میں خشک سالی آتی ہے تو لوگ زندہ رہنے کے لیے کہیں اور جا کر آباد ہو جاتے ہیں۔
وہ بڑے شہروں میں چلے جاتے ہیں اور خشک سالی سے بچنے کے لیے نالے کے قریب گھر بنانے کی کوشش
کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ دو مصیبتوں میں سے برتر مصیبت کا انتخاب کر بیٹھیں۔ آپ نے غربت سے
بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑا لیکن اب موسمیاتی خطروں کی زد میں رہنے کی وجہ سے آپ کی جان جوکھم میں
ہے۔

اپنے علاقوں میں کم از کم انکے پاس سماجی سرمایہ ہوتا ہے جبکہ نئے علاقوں میں وہ پسماندہ ہو جاتے ہیں۔
پیسے اور بیک اپ کے حوالے سے کوئی سیکورٹی نیٹ نہیں ہے۔


کراچی سیلاب سے اتنا بری طرح متاثر کیوں ہوا ہے؟

کراچی کا انفراسٹرکچر ناکافی ہے۔ اگر کسی بھی ترقی یافتہ شہر میں اتنی بارش ہو تو کسی کو کچھ معلوم نہیں
ہوگا کیونکہ ان کا بنیادی انفراسٹرکچر بڑا ہے اور کام کر رہا ہے۔ جبکہ ہم اب بھی نکاسی آب کے لیے برطانوی
دور کی پائپ لائنوں پر انحصار کر رہے ہیں جو کہ 1947 سے پہلے، کراچی کی 46,000 آبادی کے لیے
بچھائی گئی تھیں۔ اب آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے ، جبکہ سرکاری مردم شماری اس سے کم تعداد ظاہر
کرتی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف نقصانات ہو رہے ہیں اور سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں بلکہ بچے مر رہے ہیں اور بیماریاں
پھیل رہی ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں بارشوں نے ساٹھ سالہ ریکارڈ توڑا ہے۔ بلوچستان کیوں اتنا برا اور غیر متوقع طور پر
سیلاب سے متاثر ہوا ہے؟

میں نے حال ہی میں اس بارے میں لکھا ہے کہ سطح سمندر میں اضافے سے ساحلی سیلاب میں اضافہ ہوا ہے،
جبکہ سمندر میں زیادہ درجہ حرارت بادلوں کو زمین پر مزید دور تک سفر کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے،
جس میں بلوچستان کے وہ حصے بھی شامل ہیں جہاں پہلے سیلاب نہیں آیا تھا۔ بلوچستان میں سیلاب بار بار آرہے
ہیں جس کو خلیج بنگال سے شروع ہونے والے روایتی مشرقی مون سون کے بجائے ان مغربی موسمی اثرات سے
منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موسمی چکر میں اس تبدیلی نے بلوچستان کے عام طور پر غیر مون
سونی علاقوں میں سیلابی ریلوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے۔

کیا پاکستان کے پاس آفات سے نمٹنے کے نظام کا کوئی مناسب منصوبہ ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ ہماری منصوبہ بندی اوپر سے نیچے کی طرف ہے۔ جسکے تحت یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ہی
حل سب کے لیے موزوں ہے۔ اگر آپ کو کسی علاقے کے لیے کسی خاص چیز کی ضرورت ہے تو پالیسی
سازوں کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے علم، صبر یا وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس مقامی حکومت میں مضبوط
ادارے نہیں ہیں، اور ان کو شاید مختلف وجوہات کی بنا پر کمزور رکھا گیا تھا۔ اس وقت مقامی سطح پر ایک خلا
ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین کو نافذ کرے اور نقد رقم کی ادائیگی کو محفوظ علاقوں میں رہنے کے ساتھ
لازمی قرار دے۔

مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان صرف تعاون کی کمی نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان وسائل کا
مقابلہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے حاصل اختیارات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں جس سے وہ
استفادہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ تمام حکومتوں میں یہی معاملہ رہا ہے۔

اگر مزید وسائل صوبوں کے پاس جاتے ہیں، تو اس سے صوبائی حیثیت کو تقویت اور اس کے دائرہ کار میں
اضافہ ممکن ہے ، جیسا کہ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے بعد دیکھا ہے جس نے صوبوں کو زیادہ خودمختاری اور
وسائل دیے ۔ صوبوں کو حکومت کے تیسرے درجے یعنی اضلاع اور ذیلی اضلاع کی سطح پر وسائل منتقل
کرنے کی ضرورت ہے۔


جب ہم بحالی کے مرحلے میں داخل ہوں تو آگے کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

فوری اور طویل مدتی حل کے درمیان تنازعہ ہے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کے سر پر چھت نہیں ہے اور ان
کی کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، اس لیے انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے، اور یہ حکومت کے مفاد میں ہے کہ
وہ انہیں مدد فراہم کرے۔ لیکن ہم جیسے لوگ طویل مدتی بحالی کی لچک دیکھنا چاہتے ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہےکہ گھروں کو دوبارہ بہتر طور پر تعمیر کرنا بھلا دیا جاتا ہے اور دریں اثناء کچھ دوسرے بحران
پیدا ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے حکمت عملی بنانے والوں کی توجہ نئے بحرانوں کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے۔

گھروں کو دوبارہ بہتر طور پر تعمیر کرنے کی ایک اچھی مثال یہ ہے کہ جب حال ہی میں کینیڈا میں سیلاب آئے
تو حکومت نے کہا وہ متاثرہ لوگوں کی مدد اس وقت کرے گی جب وہ ساحلی علاقوں میں گھر نہیں بنائیں گے۔
حکومت کے اس فیصلے نے نقد رقم کی ادائیگی کو بہتر تعمیر کرنے کے ساتھ منسلک کیا۔

پاکستان میں اگر کوئی سیلاب سے بے گھر ہو جائے تو حکومت کہتی ہے کہ پندرہ ہزار روپے لے کر اپنا گھر
دوبارہ تعمیر کرلو۔ لیکن مکان اگلے سال دوبارہ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا کیونکہ وہ انہی نازک علاقوں
میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین کو نافذ کرے اور نقد رقم کی ادائیگی کو محفوظ علاقوں میں رہنے کے
ساتھ مشروط قرار دے۔

امداد اور بحالی کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اپنی تمام سخاوت کو صرف امداد کی
طرف لے جاتے ہیں۔


مستقبل میں نقصان سے بچنے کے لیے مضبوط انفراسٹرکچر اور بہتر تعمیر کرنا کتنا ضروری ہے؟

ہمیں تفصیلی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو مٹی کے گھروں کو مضبوط بنانے میں مدد کریں، اور ان کی
چھتیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکیں بجاے اسکے کے وہ گر جائیں۔ چاہے پلازے ہوں، یا دیہی علاقوں میں
گھر یا جھونپڑیاں آپکو ان کی تعمیر کے لیے ایک معیار کی ضرورت ہے۔ انفراسٹرکچر کے لیے ہمیں ایسے رہنما
اصولوں کی ضرورت ہے جو سیلاب اور آفات سے نمٹنے کے لیے ہماری بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کر
سکیں۔

ہم نے ابھی تک موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت میں اضافہ نہیں کیا ہے، اور اس کے نتیجے میں سیلاب اور دیگر
آفات کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک آب و ہوا کے
خطرے سےجلد دوچار ہونے والا ملک ہیں، اور ہمیں اس بڑی سطح کے نقصان سے بچنے کے لیے موافقت کی
حکمت عملیوں کی اشد ضرورت ہے۔

مترجم: عشرت انصاری