آب و ہوا

پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے کسانوں کو گرمی کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا

اس سال موسم گرما کے ابتدائی اور زیادہ گرم آغاز نے ہندوکش ہمالیہ میں بلندی پر گلگت بلتستان میں فصلوں کے سائیکل کو تبدیلی پر مجبور کر دیا ہے۔
اردو
<p>ہنزہ، گلگت۔بلتستان میں پہاڑی علاقوں کی ہموار سطحوں پر لگائے جانے والے کھیت۔  کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سال جلدی برف پگھلنے کی وجہ سے زمین خشک ہو گئی ہے اور آبپاشی کے لیے پانی کی کمی ہے۔</p>
<p>(تصویر: ایڈرین ویسٹن</p>
<p>/ الامی)</p>
<p>&nbsp;</p>

ہنزہ، گلگت۔بلتستان میں پہاڑی علاقوں کی ہموار سطحوں پر لگائے جانے والے کھیت۔  کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سال جلدی برف پگھلنے کی وجہ سے زمین خشک ہو گئی ہے اور آبپاشی کے لیے پانی کی کمی ہے۔

(تصویر: ایڈرین ویسٹن

/ الامی)

 

مارچ میں پاکستان کےاہم شہروں میں بے موسمی اور انتہائی زیادہ درجہ حرارت رہا جس سے ہندوکش ہمالیہ میں

    بالائی سندھ طاس کے پہاڑی علاقوں کے کسان بھی متاثر ہوئے ہیں۔                                                             

پچھلی سردیوں میں گلگت بلتستان کے پہاڑی شمالی علاقے میں شدید بارش اور برف باری ہوئی تھی۔ گلگت بلتستان کے غذر ضلع کی وادی یاسین کے ایک کسان، اشرف خان نے کہا کے بارش اور برفباری کے باوجود مارچ میں ان کے کھیت سوکھ گئے اور انہیں اپنی گرمیوں کی گندم پچھلے سالوں کے مقابلے پہلے ہی بونا پڑی۔                                                

محکمہ موسمیات پاکستان (PMD) کی گوپیس میں موجود  موسم گاہ نے غذر میں گزشتہ دہائی کے دوران مارچ اور اپریل میں زیادہ سے زیادہ، کم سے کم اور اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا رجحان ریکارڈ کیا اور 2022 میں گزشتہ 10 سالوں میں سب سے زیادہ درجہ حرارت دیکھا گیا۔

“عام طور پر ہم اپنی گندم اور آلو کی فصلیں 15 سے 25 اپریل کے درمیان بوتے ہیں۔ اس سال مٹی میں خشکی کی وجہ سے ہمیں مارچ کے آخر میں بوائی شروع کرنی پڑی، حالانکہ موسم سرما میں ریکارڈ برف باری ہوئی تھی اور ہم اپریل کے آخر تک فصلیں بونے کا سوچ رہے تھے۔ لیکن مارچ کے مہینے میں غیر معمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے برف اچانک پگھل گئی،” خان نے خطے کے دارالحکومت گلگت سے تقریباً 200 کلومیٹر دور اپنے گھر میں دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا۔                                                                                                                                                                                                                              

محکمہ موسمیات پاکستان (PMD) نے ضلع میں جنوری میں  30 میٹر اور اپریل میں 6 میٹر برفباری کی پیمائش کی۔  جلد برف پگھل جانے کی وجہ سے مٹی خشک ہو رہی ہے اور آبپاشی کے لیے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

 “مٹی میں خشکی صرف ایک پریشانی نہیں ہے بلکہ توقع کے برعکس زیادہ اونچائی پر موجود برف بھی تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئی ہے. ” خان نے کہا ۔

کسانوں نے اس سال مئی کے شروع ہی میں اپنی فصلوں کو معمول سے تقریباً ایک ماہ پہلے سیراب کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر وہ انتظار کریں گے تو برف کا پگھلا ہوا پانی ڈھلوانوں سے نیچے بہہ جائے گا۔  انکی فصلیں چونکہ اوپر تلے واقع پہاڑی علاقوں میں موجود کھڑی ڈھلوانوں کی ہموار سطحوں  پر لگائی گئی ہیں،اس لیئے اس علاقے میں   پگھلے ہوئے پانی سے فصل کی سیرابی اور اسے ذخیرہ کرنے کے لئے کسان کچھ خاص اقدامات نہیں کر سکتے۔

گلگت بلتستان کے باغوں میں وقت سے پہلے پھول کھلنا

غذر کے ایک گاؤں تھوئی جو کہ اپنے باغات کی وجہ سے مشہور ہے وہاں سے تعلق رکھنے والے کسان جوہر علی نے بتایا کہ مارچ کے بعد سے درجہ حرارت مئی کے آغاز کی طرح زیادہ ہے۔ اس صورتحال نے ہمیں جلد کاشتکاری کی سرگرمیاں شروع کرنے پر مجبور کیا۔ ہمارے گاؤں میں بادام، خوبانی، سیب اور دیگرفصلوں کے پھول معمول سے 15 سے 20 دن پہلے شروع ہو جاتے تھے۔ ہمیں اپنی فصلیں جلد بونا پڑتی تھیں۔ پہلے بھی گرم سال آئے ہیں  لیکن اس سال تبدیلی بہت زیادہ نمایاں ہے۔”

بڑھتا ہوا درجہ حرارت مزید کیڑوں کو جنم دے رہا ہے جسکی وجہ سے باغات کے مالکان پریشان ہیں۔ تھوئی کی ایک اور کاشتکار زرین بی بی نے کہا کہ خوبانی، سیب اور آڑو پچھلے پانچ سالوں میں کیڑوں سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان کو اپنی آدھی سے زیادہ فصل کا نقصان ہورہا ہے۔”پھل پکنے سے پہلے سرخ ہو جاتے ہیں، اور پھلوں کے اندر چھوٹے کیڑے نمودار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سڑ جاتے ہیں۔

” بی بی نے کہا کہ انھوں نے 2015 میں پھل بیچ کر 180,000 پاکستانی روپے (تقریباً 870 امریکی ڈالر) کمائے، لیکن 2021 میں ان کی کمائی گھٹ کر 100,000 روپے (تقریباً 480 امریکی ڈالر) رہ گئی۔  “پھلوں کا ذائقہ اور شکل بھی بدتر ہو گئی ہے، جس کا مطلب ہے یہ ہے کہ مارکیٹ میں ان کی قدرکم ہوگئی ہے۔”

ماہرین اور کسانوں کا اتفاق رائے

گلگت بلتستان میں پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (PARC) کے علاقائی سربراہ شیر ا حمد نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ خطے کی آب و ہوا واضح طور پر تبدیل ہو چکی ہے، جس کے کاشتکاری پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسم بہار مارچ کے وسط میں شروع ہوتا تھا لیکن حالیہ برسوں میں فروری کے آخر میں شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے موسم سرما مختصرہو گیا ہے۔

ا حمد نے بی بی کے تجربے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ “درجہ حرارت میں اضافے سے فصلوں اور پھلوں میں بھی بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، اور کیڑے مکوڑے اور مکھیاں اکثر ان کو متاثر کرتی ہیں”۔  تاہم، انہوں نے نشاندہی کی کہ طویل تر موسم گرما کی  شدت اونچائی پر فصلوں کو پوری طرح تیار ہونے میں زیادہ وقت دیتی ہیں۔

“پچھلی ڈیڑھ دہائیوں میں درجہ حرارت اور آب و ہوا یقینی طور پر تبدیل ہوئی ہے، جس کے پہاڑی آبادیوں پر مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں،”  محمد ایوب جو کہ گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل سینٹر میں ایک سینئر سائنٹیفک افسرہیں، بی بی کی اس بات سے اتفاق کیا۔                                                  

 
مارچ میں غیر معمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے برف اچانک پگھل گئی
 
اشرف خان، کسان
 

اس انتہائی درجہ حرارت کی وجہ سے گندم کی فصل جولائی میں اچانک پک جاتی ہے، جس کے کچھ منفی اثرات پڑتے ہیں [فصل کے سائز اور معیار کے لیے]،” ایوب نے کہا۔  “اب ہم کچھ علاقوں میں کاشتکاروں کو موسم بہار کے        شروع کی بجائے موسم خزاں کے آخر میں گندم اور پیاز کی بوائی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔” ایوب نے کہا کہ اس سے فصلوں کو “آہستہ آہستہ” اگنے کا وقت ملا جس سے ان کا معیار بہتر ہوا۔                                                       

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD)، WWF پاکستان اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے 2021 میں ایک مشترکہ مطالعہ کیا۔ جس میں گلگت بلتستان کے دو اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک جگہ کے رہائشیوں کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں مقامی تاثرات لیئےگئے۔  رہائشیوں نے محققین کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ 10 سالوں میں بارشوں اور برف باری میں کمی، گرمیوں میں شدید ترین گرمی، سردیاں جو پہلے جیسی سرد نہیں تھیں، اور مزید “غیر متوقع واقعات” دیکھے ہیں۔                                                                                  

صرف آبِ و ہوا ہی ذمےدار نہیں

محکمہ موسمیات پاکستان جی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر فرخ بشیر نے اتفاق کیا ہے کہ اس سال اب تک درجہ حرارت پہلے کے مقابلے میں زیادہ رہا اور  تنبیہ  کی ہے کہ یہ ایک باقاعدہ خصوصیت ہے کہ کچھ سال درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے اور کچھ سال کم ہوتا ہے۔ جب درجہ حرارت یقینی طور پر زیادہ ہونے کے لیے بدلتا ہے تو اسکو صرف آب و ہوا سے منسوخ کرنا غیر حقیقی ہے۔ ہمیں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مرکوز تحقیق اور تجزیہ کی ضرورت  ہے۔              

صرف آب و ہوا مسلسل ہونے والے شدید واقعات کی اکیلے ذمّہ دار نہیں ہے۔ دوسرے عناصر جیسا کہ طرز زندگی میں تبدیلی بھی ایک عنصر ہے۔                                                                                                                            

بشیر نے کہا کہ تعمیراتی کاموں میں کنکریٹ اور ٹن کا استعمال بھی آب و ہوا میں خرابی کا زمہ دار ہے۔روایاتی پتھر اور چھپّر کا استمعال زیادہ بہتر ہے کیونکہ روایتی پتھر اورر چھپّر بہتر ہیٹ انسولیٹرز ہیں جو کے گرمیوں میں عمارات کو ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رکھتے ہیں۔