آب و ہوا

راۓ : پاکستان کی نئی حکومت کو سابقہ موسمیاتی کامیابیوں پر کام جاری رکھنا چاہیے 

پاکستان کے سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم لکھتے ہیں، حکومتیں آتی جاتی رہیں گی لیکن موسمیاتی تبدیلی یہیں موجود رہے گی۔
اردو
<p><span style="font-weight: 400;">پاکستان کے سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، ملک امین اسلم، نومبر 2021 گلاسگو میں سی او پی 26 کے دوران  (تصویر بشکریہ الامی )</span></p>
<p>&nbsp;</p>

پاکستان کے سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، ملک امین اسلم، نومبر 2021 گلاسگو میں سی او پی 26 کے دوران  (تصویر بشکریہ الامی )

 

جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے پاکستان بیچ طوفان کی زد میں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان اس مسئلے کا بہت کم ذمہ دار ہے، ہمارا شمار ان سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے جو ناحق اسکا شکار ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان کی درجہ بندی ان تین ممالک میں کی گئی جو گزشتہ دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی سے مسلسل سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک کی فہرست میں شامل رہے ہیں۔ 

گلیشیئرز سے مینگرووز تک، پاکستان شدّت اور بے رحمی سے بڑھتی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج سے نمٹنے کے لئے اپنی مسلسل جدوجہد میں کسی رکاوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس پس منظر میں یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں پاکستان کو ماحولیاتی معاملات میں عالمی سطح پر ایک رہنما کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یواین انوائرنمنٹ پروگرام نے پاکستان کو جنگلات کے تین عالمی چیمپئنز میں سے ایک نامزد کیا؛ ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے چار ” فطرت کے لیڈرز” میں سے ایک پاکستان کومنتخب کیا گیا؛ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے انرجی ٹرانزیشن میکانزم کے چار علمبردار ممالک میں سے ایک منتخب کیا گیا ہے؛ اور اب ہم اقوام متحدہ کے عالمی یوم ماحولیات 2022 کی میزبانی بھی کریں گے۔ یہ کامیابی اتفاقاً نہیں ہوئی۔ اسکی منصوبہ بندی احتیاط سے کی گئی تھی اور اسے چار بنیادی ستونوں پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 

آب و ہوا اور فطرت کے لیے ایک وژن

سب سے پہلے، پاکستان کا موسمیاتی نقطہ نظر واضح اور قابل فہم تھا۔ اسکا وژن دوجہتی تھا جوکہ صاف توانائی اور فطری تقاضوں پہ مبنی حل تیار کرنے پہ مرکوز تھا۔ ان دونوں کے کارفرما قابلِ تعین اہداف تھے تاکہ گرین دعووں کا زمینی عملدرآمد یقینی بنایا جاۓ اور انکی شفاف مانیٹرنگ ممکن ہو۔  یہ ماڈل سراسر کامیاب تھا جب تک کہ  اس پہ عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا۔ 

اس کے بعد، 2030 تک پاکستان کی توانائی کی پیداوار کا 60 فیصد کاربن صفر توانائی پر منتقل کرنے کے ہدف کے لئے درآمد شدہ کوئلے کے پروجیکٹس کو نۓ ہائیڈرو پاور منصوبوں میں تبدیل کردیا گیا- ہائیڈل انرجی کے 10 نئے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کیا گیا اور سرخ فیتے کا شکار ہوا کے 1200 میگاواٹ کے منصوبے شروع کئے گئے۔ اسی طرح، ملک کی پہلی الیکٹرک وہیکل (ای وی) پالیسی، 2030 تک 30 فیصد برقی نقل و حمل کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے شروع کی گئی۔

سیاسی تقسیم سے بالاتر رہتے ہوۓ آب و ہوا سے ہم آہنگ  تعمیری راستے کو انتخابی چکروں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے
ملک امین اسلم خان 

فطرت پہ مبنی حل کے دوسرے ستون پر بات کی جاۓ تو 2014 اور 2018 کے دوران صوبہ خیبر پختون خواہ میں “بلین ٹری سونامی ” کی کامیاب تکمیل کے ساتھ پاکستان حقیقی طور پرعالمی رجحان ساز کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کے بعد،   کمیونٹی پر مبنی الپائن کے جنگلات کی تخلیق نو اور دریائی  میدانوں میں جنگلات کی نئی شجرکاری سے لے کر ساحلی پٹی کے ساتھ مینگرووز کی افزائش تک، پورے پاکستان میں 10 بلین ٹری سونامی پروگرام کی باری آئی۔ ملک نے اپنے محفوظ علاقوں میں بھی توسیع کی اور قومی پارکوں کی تعداد 30 سے بڑھا کر 45 کردی گئی۔  پارکوں کے انتظام کے منصوبے تیار کئے گۓ؛ اور صوبوں میں ملک کی پہلی نیشنل پارکس سروس کے ساتھ ساتھ فطرت کے تحفظ کے نئے قوانین کے آغاز کی بنیاد رکھی۔ ‘لیونگ ریورز’ اور ‘ریچارج پاکستان’ کے اقدامات پاکستان کے دریائی ماحولیاتی نظام کی بحالی کو یقینی بنانے اور اس کی تباہ شدہ دلدلی زمینوں کو بحال کرنے کے لئے ڈیزائن کئے جا رہے ہیں۔ 

دوسرا ستون اس عمل پر مبنی وژن کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے اعلیٰ سطح پر سیاسی عزم اور ثابت قدمی حاصل ہے۔ وزیر اعظم کی کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی، جس کی سربراہی عمران خان نے تمام وزرائے اعلیٰ اور چھ متعلقہ وزارتوں کے ساتھ کی، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسیوں پر فیصلے کرنے اور ان پر عمل درآمد کے لیے قائم کی گئی تھی۔ موسمیاتی تحفظ کا یہ وژن سیاسی تقسیموں تک پھیلا ہوا ہے، جس میں حکومت خود حزب اختلاف کے صوبے سے رابطہ کررہی ہے اور خلوص نیت اور معاون فنڈنگ کے ساتھ شراکت داری کررہی ہے۔  

تیسرا، عالمی برادری کی نظروں میں ساکھ کو یقینی بنانے کے لئے شفافیت ضروری تھی۔ حالاں کہ صوبائی اور وفاقی سطح کے آڈٹ کے لئے معمول کے میکانزم موجود تھے لیکن آب و ہوا کے وژن کے تحت کیے گئے اقدامات کو ایک تیسرے آزاد  فریق کے جائزے سے مشروط کیا گیا۔ 10 بلین ٹری سونامی کے کیس میں، ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ایک کنسورشیم نے سالانہ کارکردگی کا جائزہ اور آڈٹ کیا۔

آخر میں، موسمیاتی وژن کے تحت اقدامات سے لوگوں کو فائدہ ہوا۔ چاہے وہ پودوں کی نرسریوں کے ذریعہ گرین ملازمتیں پیدا کرنا ہو، جنگلات کی حفاظت یا پارکوں کے انتظامات ہوں یا الیکٹرک وہیکل یا گھریلو سولر تنصیب کی طرف متقلی سے اخراجات میں بچت، ایک خاص اور واضح توجہ تمام پروگراموں کے مرکزی مقصد یعنی لوگوں کو فائدہ پہنچانے پر تھی۔ 

پاکستان اب راستہ بدلنے کا متحمل نہیں ہو سکتا

پاکستان کی گرین ساکھ نے نہ صرف عالمی توجہ حاصل کرنے بلکہ گرین فنانسنگ کی بھی ٹھوس بنیاد رکھی۔ پاکستان نے گزشتہ سال 500 ملین امریکی ڈالر کا اپنا پہلا گرین بانڈ کامیابی کے ساتھ مارکیٹ میں پیش کیا، جو چھ گنا زیادہ سبسکرائب ہوا۔ ورلڈ بینک نے گزشتہ سال بلیو کاربن کے تخمینے کا پہلا مطالعہ مکمل کیا، جو ملک کے مستقبل کے بلیو بانڈ کو شروع کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سب سے خاص یہ کہ ورلڈ بینک کے ساتھ شراکت میں، پاکستان نے ریاستی قرضوں میں نرمی سے جڑے قدرتی بانڈز میں قسمت آزمائی کی اور فطرت کی پالیسی پر مبنی (تخمینے کے مطابق 1 بلین امریکی ڈالر کے) قرض دینے کی اسکیم پر بھی کام کیا جو تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔  پاکستان وہ واحد ملک بھی بن گیا ہے جس نے  بعداز کووڈ-19 ’گرین اسٹیمولس‘ پیکج کا آغاز کیا۔ اس نے فطرت کی حفاظت اور گرین ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے 120 ملین امریکی ڈالر کی مالی اعانت حاصل کی۔ یہ سب کچھ اوپر بیان کئے گئے چار ستونوں کے ذریعے تعمیر کردہ رفتار کی وجہ سے ہوا۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے بڑھتے ہوئے اور ناگزیر اثرات کے حوالے سے ملک کو درپیش انتہائی خطرے کے پیش نظر، پاکستان عالمی سطح پر تسلیم شدہ راستے کو تبدیل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اب ہماری عالمی ذمہ داریوں (نیشنلی ڈٹرمنڈ کنٹریبیوشن) میں بھی شامل ہے۔

پاکستان عالمی سطح پر تسلیم شدہ راستے کو تبدیل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اب ہماری عالمی ذمہ داریوں میں بھی شامل ہے
ملک امین اسلم خان 

سیاسی تفریق سے بالاتر ہوکر، تسلسل کے ساتھ آب و ہوا سے ہم آہنگ تعمیر کے اس راستے کو انتخابی چکروں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی لیکن موسمیاتی تبدیلی یہیں موجود رہے گی۔ کسی بھی قسم کی تنسیخ، یا حتیٰ کہ سست روی سے، پاکستان کے لیے نہ صرف ماحولیاتی بلکہ سماجی اور اقتصادی اثرات مرتب  ہوں گے۔ 

اس کے برعکس، اس کامیابی کو مستحکم کرنے سے گزشتہ چار سال کی عرق ریزی کے بعد حاصل کی گئی ملک کی عالمی  گرین ساکھ کو بڑھا کر نئی وسعتیں اور مواقع  حاصل ہو سکتے ہیں۔