آب و ہوا

تبصرہ: پاکستان کو بائیڈن کے ماحولیاتی سربراہی اجلاس مدعو کیوں نہیں کیا گیا؟

یہ جانتے ہوۓ کہ پاکستان آب و ہوا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے واشنگٹن کو اسے ماحولیاتی تبدیلی کے تعاون سے متعلق مسودے سے باہر نہیں کرنا چاہیے-
اردو
<p> اگست 2020 میں، کراچی ، پاکستان میں سیلاب۔ پاکستان آب و ہوا کی تبدیلی  کے لئے دنیا کے 10 سب سے کمزور ممالک میں سے ایک ہے [تصویر بشکریہ: ایس ٹی آر / ژنہوا / الامی لائیو نیوز]</p>

اگست 2020 میں، کراچی ، پاکستان میں سیلاب۔ پاکستان آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے دنیا کے 10 سب سے کمزور ممالک میں سے ایک ہے [تصویر بشکریہ: ایس ٹی آر / ژنہوا / الامی لائیو نیوز]

 وائٹ ہاؤس نے  22-23 اپریل کو ایک مجازی عالمی ماحولیاتی سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف مدعو کیے گۓ 40 عالمی رہنماؤں کے ناموں کا اعلان کیا ہے. بہت سارے پاکستانی ناخوش ہیں – اور اسکی وجہ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ 

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق ، مدعو قائدین ان ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں جو سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک ہیں، آب و ہوا کے لئے بھرپور قیادت کا مظاہرہ کررہے ہیں، آب و ہوا کے اثرات “خاص طور پرغیرمحفوظ” ہیں یا “نیٹ-زیرو معیشت کے لئے جدید راستے وضع کر رہے ہیں”۔ 

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ  پاکستان کو کاربن کے اخراج کی کم شرح کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تسلیم شدہ شجرکاری کے اقدامات ، سربراہی اجلاس کا اہل بناتے ہیں- (تاہم ، قابل غور بات یہ ہے کہ کاربن کے اخراج کے بارے میں پاکستان کے پاس قطعی ریکارڈ نہیں ہے۔ جس کا ثبوت جنگلات کی کٹائی کی اونچی شرح ، اس کے گندے ایندھن کی بھاری کھپت ، اس کی شدید صنعتی پیداوار اور اس کی ہوا کی ناقص کوالٹی ہے۔) لیکن یہ پاکستان کی آب و ہوا کی تبدیلی سے لاحق شدید خطرہ ہے جو خان کے اس اجلاس میں شرکت کا جواز بنتا ہے۔ 

پاکستان کا زراعت پر بھاری انحصار، پانی کی سنگین قلت ، گنجان آباد ساحلی علاقے، اور سیلاب اور خشک سالی اس کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں-  دنیا کے  10 سب سے زیادہ آب و ہوا سے متاثرہ ممالک میں پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔ 

220 ملین کی آبادی والے دنیا کے پانچویں بڑے ملک کو لاحق اس خطرہ کے کئی انسانی پہلو ہیں۔ دوسرے تمام  زیادہ آبادی والے 10 ممالک کو بائیڈن کے سربراہی اجلاس کے دعوت نامے موصول ہوئے۔ 

تو پھر پاکستان کو مدعو کیوں نہیں کیا گیا؟ کچھ پاکستانی اسے جانی بوجھی سرزنش قرار دے رہے ہیں تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر اسکی کم اہمیت کا احساس دلایا جاۓ یا افغانستان میں یا  انسداد دہشتگردی میں واشنگٹن کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے اسلام آباد کو مجبور کرنے کی یہ ایک تدبیرہے- لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اس وقت نسبتاً ہموار ہیں ، اور واشنگٹن کو اسلام آباد کی مخالفت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے خاص طور پر جب وہ افغانستان میں امن کے مشکل عمل کو تیز کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کررہا ہے۔

ممکن ہے کہ پاکستان کا نام حذف ہونا محض ایک بدقسمت اتفاق ہو، اس کی وجہ یہ کہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس طرح دیکھتا  ہے۔ کئی سالوں سے ، امریکی حکومتوں نے سخت حفاظتی امور اور افغانستان کے ذریعے پاکستان پر سخت نظر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ، جب واشنگٹن 40 ممالک کو آب و ہوا کے اجلاس میں مدعو کیا ، تو پاکستان ان میں  نہیں ہے۔ اس کے بجائے ، یہ ان درجنوں ممالک میں سے ایک ہے جوشرکت کے معیار پر پورے کے باوجود مدعو نہیں کیے گۓ- خان اس غلطی کو ممکنہ طور پر موقع میں بدل سکتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں اپنی قیادت ثابت کرنے کے لئے اپنا موسمیاتی سربراہی اجلاس کا انعقاد کرسکتے ہیں۔ اور وہ دوسرے ترقی پذیر ممالک کو مدعو کرسکتے ہیں، اس طرح گلوبل ساؤتھ کے لئے اپنی حمایت کے عزم کو اجاگر کرسکتے ہیں (جیسا کہ انہوں نے گزشتہ سال قرض معافی کے ساتھ کیا تھا)- 

موسمی تبدیلی تعاون کو فروغ دے گی 

یہاں واشنگٹن کے لئے بھی  سیکھنے کا موقع ہے- عدم اعتماد اور پالیسی کی مختلف ترجیحات کی وجہ سے ، بائیڈن انتظامیہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے تعلقات کو ان خطوط پر وسیع کرنے پر راضی نہیں ہوگی جو مؤخر الذکر کی ترجیح ہے۔ لیکن اگر وسیع باہمی تعاون کے لئے ایک منطقی معاملہ ہے تو ، یہ موسمی تبدیلی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے آب و ہوا کی تبدیلی کو اپنی خارجہ پالیسی کا لازمی حصّہ  قرار دیا ہے ، اور یہ یقینی طور پر پاکستان کی موسمی تبدیلی کے خطرے سے دوچاریت سے آگاہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے بہت سارے اعلی عہدیدار ، بشمول موسمیاتی تبدیلی کے مشیر جان کیری اور خود بائیڈن ، پاکستان کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب کیری باراک اوبامہ کے سکریٹری خارجہ تھے ، تو انھوں نے متروک امریکہ پاکستان اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی مشترکہ صدارت کی جس میں قابل تجدید توانائی کو بنیادی موضوع کے طور پر شمار کیا گیا تھا۔ 

اس ڈائلاگ کی تجدید کرنا آج واشنگٹن میں سخت مشکل ہے۔ ایک حقیقت پسندانہ متبادل اس مکالمے کے ایک جز کو واپس لانا ہے ، یو ایس – پاکستان کلین انرجی پارٹنرشپ، جو ماہرین تعلیم اور نجی شعبے پر مشتمل آب و ہوا پر مبنی ایک نئے مکالمے کی کفالت کے لئے ، اور صاف توانائی ٹیکنالوجیز میں معلومات کے تبادلے اور سرمایہ کاری پرمرتکز ہو۔ 

مزید برآں ، پاکستان میں واشنگٹن کی سب سے بڑی دلچسپی استحکام ہے ، اور ماحولیاتی تبدیلی غیر مستحکم ہو رہی ہے- آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات ہجرت کا سبب بنتے ہیں ، چاہے وہ قدرتی آفات سے اچانک ہو یا قحط سالی اور دیگر حالات کے ساتھ آہستہ آہستہ ، جو پانی پر منحصر معیشت والے لوگوں کو شہروں میں نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں۔ 

دیہاتوں سے شہر تک نقل مکانی نے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے پہلے ہی سے زیادہ آبادی والے شہروں پر اضافی بوجھ ڈال دیا۔ ان وسائل کو فراہم کرنے میں ان کی نااہلی سے بنیاد پرستی کا خطرہ بڑھتا ہے۔ کمزور گروہوں خصوصاً نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت ، انکی نئی برادریوں میں معاشرتی تناؤ اور تشدد کو جنم دے سکتی ہے۔ 

مزید یہ کہ ، یہ درست وقت ہے۔ س سال کے آخر تک ممکنہ طور پر امریکی فوجیں افغانستان چھوڑنے کے ساتھ امریکا کی گرفت وہاں کافی حد تک کم ہوجائیگی- 20 سالوں میں پہلی بار ، افغانستان  کے تناظر میں واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ اپنے تعلقات کونہیں دیکھے ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ایک نئے زاویے کی ضرورت ہوگی ، اور موسمیاتی تبدیلی ایک مثالی امیدوار ہے۔

ذرا توجہ افغانستان پر

در حقیقت ، افغانستان ہی امریکہ اور پاکستان کے ماحولیاتی تعاون کا محور ہوسکتا ہے۔ واشنگٹن افغانستان اور پاکستان کے درمیان زیادہ خوشگوار تعلقات کا حامی ہے۔ ان کے پاس متنازعہ سرحد ہے اور یہ ایک دوسرے پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہیں جو سرحد پار سے حملے کرتے ہیں۔ طالبانی قیادت کو فراہم کی جانے والی محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے طالبان پاکستان قابو میں ہے ، اور طالبان سے پاکستان کے قریبی تعلقات نے اسے افغان امن عمل میں کلیدی کردار   دیا ہے۔ (اسلام آباد نے طویل عرصے سے اس کی تردید کی ہے کہ وہ طالبان قیادت کو پناہ فراہم کرتا ہے)۔

واشنگٹن بجا طور پر یقین رکھتا ہے کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان بہتر تعلقات افغانستان میں امن کے امکانات کو بڑھائیں گے۔ گذشتہ اکتوبر میں ، افغان مفاہمت کے لئے امریکی خصوصی نمائندے ، زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد اور کابل کے مابین “داخلی امن کے لئے معاون”ایک نئے معاہدے کا کہا– `وہ اسے سرحدی حفاظت کے گرد تصور کرتے ہیں- لیکن واشنگٹن کو دریائے کابل کے لیے ایک بین السرحدی پانی کے معاہدے جستجو کرنے کےلئے بھی پڑوسیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے. 

افغانستان کے نو صوبوں اورپاکستان میں دو صوبوں میں پچیس ملین افراد دریائے کابل کے طاس میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں ، دریائے کابل – جو دریائے سندھ ( پاکستان بنیادی آبی وسیلہ) کا ایک ذیلی دریا ہے پشاور شہر اور اس کے نواح میں کئی ملین افراد کی پینے ، آبپاشی اور پن بجلی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے پانی کے مسائل بڑھنے کے ساتھ ، یہ فراہمی بے حد قیمتی ہوجائیں گی۔ تاہم ، اسلام آباد کو خدشات لاحق ہیں کہ افغانستان کےدوست اور پاکستان کے دشمن بھارت کا دریائے کابل پر ڈیم بنانے کا منصوبہ پاکستان کے بہاو کو متاثر کرے گا۔ افغانستان – پاکستان کے پانی کے معاہدے کی امریکی  کاوش پاکستان کے لئے آب و ہوا سے وابستہ تشویش کو دور کرسکتی ہے اور افغانستان پاکستان تعلقات میں کچھ خیر خواہی پیدا کر سکتی ہے۔ 

اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ   تعلقات کی تشریق نو جو تجارت اور معاشی تعاون کے گرد گھومتے ہیں سے خوش ہے۔ سیکورٹی سے وابستہ امریکا کی اپنے اہداف سے پیچھے ہٹنے میں ہچکچاہٹ کے تناظر میں یہ ایک غلط امید ہوسکتی ہے – موسمیاتی تبدیلی بہتر ذریعہ ہوسکتی ہے جو معاشی اور سلامتی دونوں جہتوں کے ساتھ ایک تیز تر مشترکہ خطرہ ہے، اور جسے نہ ملک اور نہ دنیا نظر انداز کرسکتے ہیں-