آب و ہوا

موسمیاتی اثرات کے تناظر میں افغانوں کی آواز کہیں نہیں سنی جا رہی

طالبان سے بین الاقوام کی بےتعلقی کا مطلب یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر افغانستان کو تمام بین الاقوامی حلوں تک رسائی سے خارج کردیا گیا ہے
اردو
<p>بلوچا، شمال مغربی افغانستان میں پانی لانے کے دوران ایک افغان لڑکی سستا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے، اس ملک کو پانی کے بڑھتے ہوۓ عدم تحفظ کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ (تصویر بشکریہ مستیسلاف چرنوف / الامی )</p>

بلوچا، شمال مغربی افغانستان میں پانی لانے کے دوران ایک افغان لڑکی سستا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے، اس ملک کو پانی کے بڑھتے ہوۓ عدم تحفظ کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ (تصویر بشکریہ مستیسلاف چرنوف / الامی )

مسلسل تین سالوں سے، افغانستان متواتر خشک سالی اور سیلاب کا سامنا جنہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدّت اختیار کرلی ہے۔ اور اس کے باوجود، مسلسل تین سال سے افغانستان کو اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس آف دی پارٹیز (سی او پی) سے باہر ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے وقف ہے۔

کوپ28 کا اختتام 13 دسمبر 2023 کو ہوا اور اس میں تقریباً 200 ممالک نے شرکت کی۔ کانفرنس کے قابل ذکر نتائج میں سے ایک، نقصان اور تباہی کے فنڈ کا آغاز تھا، جو موسمیاتی آفات کے شکار ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کے فی کس اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کا شمار دنیا میں سب سے کم اخراج والے ممالک میں ہوتا ہے، پھر بھی 2023 میں اسے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کے انڈیکس پر (صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن کے بعد) چوتھے نمبر پر رکھا گیا۔ اس کے باوجود اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد سے، افغانستان موسمیاتی مسائل پر عالمی مذاکرات سے باہر ہے۔

طالبان کی قیادت میں افغانستان کی فی الحال اقوام متحدہ میں نمائندگی نہیں ہے۔ نومبر 2022 میں کوپ بیورو نے افغانستان کی شرکت سے متعلق فیصلہ موخر کر دیا، جس سے ملک کوپ28 سے باہر ہوگیا۔ کوپ بیورو کے منتظم یو این فریم ورک کنونشن  آن کلائمیٹ چینج نے، نے اس التوأ کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔

بین الاقوامی ایجنسیاں اور عطیہ دہندگان طالبان کے ساتھ شمولیت یا ان کو قانونی حیثیت دینے سے گریزاں ہیں۔ عسکریت پسند گروپ بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس سے روابط کے لئے جانا جاتا ہے اور 2011 سے ان پر اقوام متحدہ کی پابندیاں لاگو ہیں۔ اگست 2021 سے، عالمی بینک سمیت کئی ممالک اور ایجنسیوں نے امداد پر منحصر افغانستان کے لئے مالی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ مارچ 2022 میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو اسکول جانے پر پابندی  کے بعد عالمی بینک نے معطلی کا دوسرا سیٹ نافذ کیا۔ متاثرہ امداد وصول کرنے والوں میں کم از کم 32 موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے منصوبے شامل ہیں۔

موثر حکمت عملی اور منصوبوں پر عمل درآمد کا فقدان

افغانستان میں، موسمیاتی سائنسدانوں اور کارکنوں کو تشویش ہے کہ اس مسلسل  بے دخلی سے تیزی سے بڑھتے موسمیاتی  جھٹکوں سے نمٹنے کی ملک کی صلاحیت پر سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ افغان کمیونٹیز کے اندر پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے میں پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہو۔ 

ریفیوجی انٹرنیشنل کے ایک فیلو، قیام الدین اکرام کہتے ہیں، “موسمیاتی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ بھی ہے جس پر سیاست نہیں کی جا سکتی”۔ وہ جلاوطنی میں رہنے والے چند افغانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے آزادانہ حیثیت سےکوپ28 میں شرکت کی۔

افغانستان میں، اکرام موسمیاتی موافقت، ماحولیاتی تحفظ، موسمیاتی انصاف اور تعلیم سے متعلق منصوبوں پر نجی مشیر تھے۔ 2021 سے اکرام، افغانستان واپس آنے سے قاصر ہیں کیونکہ طالبان ناقدین کو پریشان کرتے ہیں، وہ  بیرون ملک سے افغانوں کے لئے مہم چلا رہے ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی کی مدد کی ضرورت ہے۔

اکرام نے دی تھرڈ پول کو بتایا، ” ہم ابھی سے لوگوں کے روزگار میں خلل دیکھ رہے ہیں، 80 فیصد سے زیادہ افغان براہ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت اور لائیوسٹاک پر انحصار کرتے ہیں۔” اس کی وجہ سے “اندرونی نقل مکانی، دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت، اور بہت سے لوگ سرحدوں سے بھی باہر جا رہے ہیں”۔

اکرام مزید کہتے ہیں، “کئی دہائیوں کے تنازعات نے افغان عوام کی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں کو پہلے ہی ختم کر دیا ہے۔”

سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک سینئر وزٹنگ فیلو گوتم مکھوپادھیا کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں پابندیاں ایک غیر مناسب ہتھکنڈا ہیں۔ مکھوپادھیا افغانستان اور میانمار میں ہندوستان کے سابق سفیر بھی ہیں، میانمار کو فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد سے کوپ مذاکرات سے خارج کر دیا گیا تھا۔

 مکھوپادھیا کہتے ہیں، “اگرچہ پابندیاں کسی نہ کسی طرح کچھ بہتری کے لئے دباؤ کی ایک شکل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے معصوم لوگ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں، چاہے اس کی وجہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی میں کمی  ہے یا ترقیاتی فنڈز پر پابندیاں۔ لیکن زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب  یہ پابندیاں، عالمی اہمیت کی حامل موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کی کاوشوں میں خلل ڈال رہی ہیں”۔

“ہمیں کسی کو بھی پیچھے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اور خاص طور پر، ان لوگوں کو نہیں جو صرف دوسرے لوگوں کے اخراج کے نتائج بھگت رہے ہیں۔”

افغانستان کا بحران

کوپ28 کے دوران جب نقصان اور تباہی فنڈز کا آغاز کیا گیا تو افغانستان کی صورتحال پر خاص توجہ دی گئی۔ فی الحال اس فنڈ کو بہت ہی محتاط طریقے سے وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ اس کا صرف  700 ملین امریکی ڈالر کا پول موسمیاتی آفات سے دوچار ممالک کے لئے درکار تخمینی کل کے 0.2 فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم، بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے بغیر، افغانستان اس تک بھی رسائی کی امید نہیں کر سکتا۔

 افغان پانی کے انتظام کے ماہر اور کابل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر عاصم مایار پوچھتے ہیں، “فنڈ کا مقصد ان ممالک تک پہنچنا تھا جو سب سے زیادہ کمزور ہیں، لیکن اگر افغانستان کے لوگوں کو اس سے خارج کردیا جائے تو اس مقصد کو پورا ہونے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟”

2021 سے افغانستان بڑے پیمانے پر انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔  ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ طالبان کا قبضہ اور امدادی پابندیاں ہوں، لیکن شدید بحران طویل مدتی خشک سالی کے دور، اور بارش اور برف باری کے نمونوں میں تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ اس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے، جس سے کھیتی باڑی پر منحصر ملک میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ بھی ہے جس پر سیاست نہیں کی جاسکتی
قیام الدین اکرام، ریفیوجی انٹرنیشنل فیلو

اگست 2023 میں شائع ہونے والے اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق، 29 ملین سے زائد افغان (آبادی کا 68 فیصد) کو زندہ رہنے کے لئے فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ جون کے آخر میں، ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ اندازہ ہے کہ مئی اور اکتوبر 2023 کے درمیان کم از کم 15 ملین افغانوں کو خوراک کی شدید عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سید سمیع اللہ حکیمی دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں، “اس بحران کی وجہ براہ راست موسم میں ہونے والی تبدیلیوں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔” کابل یونیورسٹی میں زراعت کے پروفیسر، حکیمی طویل عرصے سے کسانوں میں موافقت پیدا کرنے کے لئے سمارٹ ایگریکلچر ٹیکنالوجیز کے استعمال کی وکالت کررہے ہیں۔ یہ ان چند ماہرین میں سے بھی ہیں جو طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد بھی یہیں موجود ہیں۔

حکیمی کہتے ہیں، ’’بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے  افغانستان میں گلیشیر پگھلنے لگے ہیں۔ “1990 اور 2015 کے درمیان کئے گئے سروے کے مطابق، افغانستان کے شمال میں تقریباً 406 مربع کلومیٹر کا برفانی علاقہ ضائع ہو گیا، جس سے پانی کے ذرائع متاثر ہوئے۔”

دریں اثنا، 2017 کے ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ افغانستان کے دریائی بیسن سکڑ رہے ہیں: کابل، پنج آمو، ہلمند، ہری روڈ-مرغاب اور شمالی دریاؤں کے بیسن کی مجموعی آبی سطح کا حجم 1969 اور 1980 کے درمیان 57 بلین کیوبک میٹر سے کم ہوکر 2007 اور 2016 کے دوران  49 بلین کیوبک میٹر رہ گیا۔ موسم کی بدلتی ہوئی ساخت نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

حکیمی کہتے ہیں، ’’گزشتہ تین دہائیاں زرعی برادریوں کے لئے  مشکل رہی ہیں۔

گنواۓ گۓ مواقع

اگرچہ حکیمی کوپ 28 میں شرکت کرنے سے قاصر رہے، لیکن اس میں ہونے والی پیشرفت پر انکی گہری نظر رہی۔ کوپ میں افغان نمائندگی نہ دیکھ کر انہیں دکھ ہوا۔

افغانستان میں بڑھتے ہوئے موسمیاتی بحران کی روشنی میں، حکیمی کا کہنا ہے کہ ملک کو مستقبل کی کانفرنسوں سے بےدخل  کرنا اس کے لوگوں کے لئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے: “پہلے ہی مشکلات کا شکار  ملک نے یہ موقع گنواء دیا۔ نہ صرف ہم افغان کسانوں کی مدد کے لئے سرمایہ کاری کی کوشش نہیں کر سکتے بلکہ بےدخل ہونے کی وجہ سے ہم فوری موافقت کے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے فنڈز بھی حاصل نہیں کر سکتے، جیسے کہ آبی وسائل کا انتظام، ڈیموں کی تعمیر، اس کا افغانستان پر شدید منفی اثر پڑے گا۔”

حکیمی کی مایوسی اکرام کی باتوں سے بھی عیاں تھی، “کوپ 28 تقریباً ہر ملک یا ایجنسی دوسروں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے، علم، ٹیکنالوجی اور وسائل کا اشتراک کر رہی ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ لیکن افغانستان کو ہر  موقع پر سائیڈ لائن کیا گیا۔ یہ بہت افسوسناک تھا۔” 

اکرام کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوپ28  کے ہر ایونٹ میں افغانستان کا ذکر کیا جس میں انہیں خطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں ایک ایونٹ “ایڈوانسنگ کوآپریشن آن اسائلم اینڈ مائیگریشن” شامل تھا، جو یورپی کمیشن کے زیر اہتمام موسمیاتی نقل مکانی پر ایک ضمنی پینل تھا۔ اکرام نے شریک ماہرین تعلیم اور طلبہ کو وارننگ دی، ” موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ آفات سرحدوں تک محدود نہیں ہیں۔ اگر افغانستان انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے تو یہ خطے میں پھیلے گا، جس سے نقل مکانی، سیاسی عدم استحکام اور عدم تحفظ جنم لیں گے۔”۔”

کوپ28 کے دوران کارروائیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے، دی تھرڈ پول نے صرف افغانوں میں افغانستان سے متعلق مسائل کے لئے حقیقی جوش و خروش دیکھا۔

مقامی حل

اکرام کے مطابق، افغانستان کی انوکھی صورت حال یکساں طور پر اختراعی طریقوں کی متقاضی ہے۔ ان میں سے کئی طالبان کو بائی پاس کرتے ہیں، جسے زیادہ تر حکومتیں نادانستہ طور پر بھی جائز نہیں بنانا چاہتیں۔ “افغانستان میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ادارے کام کر رہے ہیں جو ضرورت مند مقامی کمیونٹیوں کو فنڈنگ اور وسائل فراہم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں،”  اکرام کہتے ہیں، “موافقت کے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ فوری مسائل کو مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر حل کیا جا سکتا ہے۔”

مایار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، “طالبان سے پہلے بھی، ایسے منصوبوں کے لئے براہ راست فنڈ حاصل کرنے کے لئے کوئی تسلیم شدہ سرکاری ادارہ نہیں تھا۔ یہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں تھیں جنہوں نے  افغان حکومت کے ساتھ مل کر پروپوزل بنانے اور افغانستان کے اندر موافقت کے فنڈز لانے کے عمل میں ثالثی کی۔” 

طالبان سے پہلے، گرین کلائمیٹ فنڈ کو تمام افغان درخواستیں، افغان سرکاری ایجنسی کے ساتھ شراکت دار ایک بین الاقوامی ایجنسی کے ذریعے جمع کرائی جاتی تھیں۔ مایار کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ ایک بار پھر افغانوں کی مدد کے لیے فنڈز فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم، اب اس کے ساتھ شراکت کے لئے کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے۔

کوپ28 کے آغاز میں جاری کردہ ایک بیان میں، یونائیٹڈ نیشنز اسسٹنس مشن ان افغانستان (یو این اے ایم اے) نے اعتراف کیا کہ اس وقت تک کی کوششیں ناکافی تھیں۔ “انسانی امداد میں کمی ہوتی جا رہی ہے، اور آب و ہوا کی مالی اعانت بڑی حد تک معطل ہے۔”

یو این اے ایم اے نے یہ بھی کہا کہ عالمی ماحولیاتی فورم سے افغان آوازیں غائب ہیں اور ڈی فیکٹو طالبان حکومت اس میں  دلچسپی رکھنے کے باوجود بین الاقوامی حمایت کے لیے سازگار پالیسی یا گورننس ابھی تک قائم نہیں کر سکی۔

حکیمی کا کہنا ہے کہ بینکنگ پر پابندیوں میں بھی نرمی کی ضرورت ہے، “اس وقت، افغانستان میں کام کرنے کی خواہش مند تنظیموں کو بینکنگ  پر پابندیوں کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ میں عطیہ دہندگان حکومتوں اور ایجنسیوں کو یہ بھی مشورہ دوں گا کہ وہ نئی راہیں تلاش کرنے پر غور کریں، جیسے کہ اقوام متحدہ یا بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ کام کرنا جو مقامی این جی اوز کو ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کے لئے فنڈز کی تقسیم میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔”

مایار کہتے ہیں، “یہ ان ترقی یافتہ ممالک کاعزم تھا کہ وہ دنیا کی کمزور آبادیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ “اس مقصد کے حصول کے لئے میکانزم موجود ہیں، انھیں اسے کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔”

جیسا کہ یواین اے ایم اے  نے یکم دسمبر کو کہا، “افغانستان موسمیاتی تبدیلی پر آواز اٹھائے بغیر ایک اور سال نہیں گزر سکتا۔”