آب و ہوا

کوپ 28 کیا ہے، اور جنوبی ایشیا کے لئے اس کی کیا اہمیت ہے؟

جیسا کہ کوپ 28 موسمیاتی سربراہی اجلاس قریب آرہا ہے، ہم ان امور کی وضاحت کرتے ہیں جو اس میں زیر بحث آئیں گے اور متحدہ عرب امارات کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس کو تنازعات نے کیوں گھیر رکھا ہے
<p>بہت سے ماحولیاتی گروپوں اور مبصرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کوپ 28 کی میزبانی متحدہ<br />
عرب امارات کر رہا ہے جو خود بڑی مقدار میں فوسل فیولز پیدا کرنے والا ملک ہے لہذا یہ بات<br />
غیر تسلی بخش نتائج کا سبب بن سکتی ہے (تصویر: مارٹن میسنر / الامی)</p>

بہت سے ماحولیاتی گروپوں اور مبصرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کوپ 28 کی میزبانی متحدہ
عرب امارات کر رہا ہے جو خود بڑی مقدار میں فوسل فیولز پیدا کرنے والا ملک ہے لہذا یہ بات
غیر تسلی بخش نتائج کا سبب بن سکتی ہے (تصویر: مارٹن میسنر / الامی)

کوپ 28 اس سال کا اقوام متحدہ کا اہم موسمیاتی سربراہی اجلاس ہے، جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق
یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کے فریقین کی اٹھائسویں کانفرنس
آف پارٹیز (COP) ہے۔ یہ اجلاس کنونشن میں 198 دستخط کنندگان کو اکٹھا کرے گا، جو ہر سال
موسمیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے اور اس کے اثرات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوششوں پر
تبادلہ خیال کرنے کے لئے ملتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تمام رُکن ممالک کے علاوہ یورپی یونین بھی
(UNFCCC) کے فریق ہیں۔

2015 میں پیرس معاہدے پر دستخط کے بعد سے، کلائمیٹ کوپس نے گلوبل وارمنگ کو “2 ڈگری
سینٹی گریڈ سے کم” رکھنے کے اپنے مقاصد کی طرف توجہ مرکوز کی ہے اور “درجہ حرارت
میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کی سطح سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی
کوششوں میں مسلسل پیشرفت کی ہے” تاکہ یہ دونوں اہداف عملی طور پر حاصل کئے جا سکیں۔

کوپ 28 کب اور کہاں منعقد ہوگی؟
کوپ 28 کا صدر کون ہے؟
کوپ 28 میں کن باتوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا؟
کوپ28 متنازعہ کیوں ہے؟
انڈیا اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کوپ 28 سےکیا نتائج حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟

کوپ 28 کب اور کہاں منعقد ہوگی؟

کوپ 28 متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 30 نومبر سے 12 دسمبر 2023 تک منعقد ہوگی۔
سربراہی اجلاس کے انعقاد کے لئے ایکسپو سٹی دبئی کا انتخاب کیا گیا ہے، جو شہر کے جنوب میں
ایک بہت بڑا مقام ہے جسے پہلی بار عالمی میلے ایکسپو 2020 کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔

کوپ 28 کا صدر کون ہے؟

جیسا کہ جنوری میں اعلان کیا گیا تھا، کوپ 28 کے صدر سلطان احمد الجابر ہوں گے، جو متحدہ
عرب امارات کے صنعت اور جدید ٹیکنالوجی کے وزیر اور ساتھ ہی ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی کے
چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی ہیں۔ اس تقرری کو ماحولیاتی گروپوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا
ہے اور بہت سے لوگ اِن عہدوں کو باہم متضاد سمجھتے ہیں۔

Sultan Ahmed Al Jaber in a robe giving a speach
کوپ 28 کے صدر، سلطان احمد الجابر، ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی ہیں
(تصویر: کامران جبریلی / الامی)

کوپ 28 میں کن باتوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا؟

کوپ 28 میں بات چیت کا ایک اہم محور پہلا گلوبل اسٹاک ٹیک (موسمیاتی کاروائیوں کا عالمی
جائزہ) ہوگا، اور اِس کے حتمی نتائج دبئی کے سربراہی اجلاس میں ہی سامنے آئیں گے۔ اس دو سالہ
عمل میں فریقین کے ماحولیاتی اقدامات کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور خلا کی نشاندہی کرنا
شامل ہے، یوں اس عالمی جائزے کے ذریعے پیرس معاہدے کے مجموعی نفاذ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کوپ 28 اس بارے میں ایک قرارداد منظور کرے گی کہ یہ اسٹاک ٹیک (جائزہ) کیا دکھاتا ہے، اور
موسمیاتی کارروائیوں کے لئے اس کی سمت کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس میں حکومتوں کی جانب سے
موسمیاتی کارروائیوں کے حوالے سے نئے عہد و پیمان بھی شامل ہوں گے۔

ستمبر میں جاری ہونے والی گلوبل سٹاک ٹیک رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ دنیا پیرس
معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کی راہ پر گامزن نہیں ہے۔ اکتوبر کے اوائل میں، یونائیٹڈ نیشنز
فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج سیکرٹریٹ نے پہلی گلوبل اسٹاک ٹیک کی تالیفی رپورٹ بھی
جاری کی۔

جولائی 2023 میں، کوپ 28 کے صدر نے اعلان کیا کہ سربراہی اجلاس چار “بنیادی تبدیلیوں” پر
توجہ مرکوز کرے گا، جو کہ درج ذیل ہیں:
• فوسل فیولز سے قابل تجدید توانائی کی طرف تیزی سے منتقلی؛
• موسمیاتی مالیات کے انتظامات کو یکسر تبدیل کرنا؛
• موسمیاتی کاروائیوں میں لوگوں اور فطرت کا کردار؛
• خواتین، مقامی لوگوں، مقامی کمیونٹیز، نوجوانوں اور ذیلی قومی اداروں کے منتخب افراد
کی سربراہی اِجلاس میں شمولیت کو یقینی بنانا

ایک ایسی صدارت کے تحت اِن مقاصد کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ اِس وقت فوسل
فیولز پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اظہار رائے اور مجمع کی آزادی پر سخت پابندیاں عائد
کر رہا ہے۔ یہ تحفظات اِس صدارت کو متنازع بنا رہے ہیں اور اس سے موسمیاتی کاروائیوں
میں رکاوٹوں کا اندیشہ ہے۔

کوپ28 میں متوجہ کرنے والا ایک موضوع نقصان اور تباہی کے لئے فنڈ (مالی مدد) پر پیش رفت
ہے، جس میں ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات سے نمٹنے
کے لئے ترقی پذیر ممالک کی ما لی مدد کے لئے رقم کی ادائیگی کریں گے۔ اس طرح کے فنڈ کے
قیام کا معاہدہ، گزشتہ سال مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے کوپ 27 کے سربراہی اجلاس

میں، ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک سخت جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والی کامیابی تھی، لیکن
اس کی افادیت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے اور کتنی رقم حاصل کر سکتا
ہے۔ کوپ27 میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ دو سال کے اندر نقصان اور تباہی کا فنڈ قائم کیا جائے گا، اور
چونکہ اِس فنڈ کے قیام کے حوالے سے ڈیڈ لائن ابھی بھی باقی ہے، اِسی لئے شاید یہ تمام حکومتی
مذاکرات کاروں کے ایجنڈے میں سرفہرست نہ ہو۔ تاہم، سول سوسائٹی کے گروپوں اور ترقی پذیر
ممالک کی جانب سے یہ بحث ہونے کا امکان ہے کہ فنڈ کے قیام پر پیش رفت ناکافی رہی ہے، اور اِن
فنڈز کے اِجرا کے حوالے سے تیز تر اور دوگنی کوششوں کا مطالبہ متوقع ہے۔

کوپ28 متنازعہ کیوں ہے؟

بہت سے ماحولیاتی گروپوں اور مبصرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کوپ 28 کی میزبانی بڑی
مقدار میں فوسل فیولز پیدا کرنے والا ملک متحدہ عرب امارات کررہا ہے اور یہ حقیقت غیر تسلی
بخش نتائج کا سبب بن سکتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب فوسل فیولز کے استعمال کو روکنے کی
کوششوں میں تیزی سے اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درجہ حرارت کو 2 سینٹی گریڈ
کے اندر محدود رکھنا ممکن رہے۔

کوپ 28کے صدر کے طور پر سلطان الجابر کی تقرری، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ دنیا کی سب
سے بڑی تیل کمپنیوں میں سے ایک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں جو فوسل فیولز نکالنے میں بھاری
سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر تنقید کی زد میں ہے۔ گرین پیس اس تقرری پر
“گہری تشویش” کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے
کہ “عالمی موسمیاتی مذاکرات میں فوسل فیولز
انڈسٹری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔” کرسچن ایڈ نے کہا کہ “مفادات کا تصادم واضح ہے”، اور یہ

کہ “عالمی موسمیاتی مذاکرات چلانے کے لئے تیل کے ایک با اثر تاجر کا مقرر ہونا ایسا ہی ہے
جیسے کوویڈ-19 جیسی عالمی وبا پر قابو پانے کی ذمہ داری ایک ایسے شخص کو سونپ دی جائے
جو خود اینٹی ویکسینیشن سازشی نظریے کا خالق ہو۔”

الجابر نے اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے جو فوسل فیولز کی کمپنیوں کو
تیل اور گیس کے استعمال میں “مرحلہ وار کمی” کے لئے مذاکرات کی میز پر رکھ سکتے ہیں
لیکن اُن کا طرزِ اظہار اور اِس کے لئے کی جانے والی کوششیں متنازعہ فیہ ہیں، کیونکہ بہت
سے ممالک اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور مہم چلانے والے کارکنان فوسل
فیولز کے “مرحلہ وار خاتمے” کے لئے ایک مضبوط ڈیڈ لائن پر زور دے رہے ہیں۔

دنیا بھر کے سول سوسائٹی گروپوں نے بھی متحدہ عرب امارات کے احتجاج اور اظہار رائے کی
آزادی کے بارے میں پابندی والے قوانین پر تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس بات کو
مدنظر رکھتے ہوئے کہ کلائمیٹ کوپس کے دوران میزبان شہر میں عام طور پر بڑے عوامی
مظاہرے ہوتے ہیں۔ اکتوبر کے اوائل میں، برطانیہ نے اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات سے اس
بات کی یقین دہانی طلب کی تھی کہ سربراہی اجلاس کا میزبان کس طرح کوپ 28کے دوران اظہار
رائے اور مجمع کی آزادی کو یقینی بنائے گا۔

انڈیا اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کوپ 28 سےکیا نتائج حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟

انڈیا اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کوپ 28 میں
بنیادی طور پر ایک چیز کے خواہشمند ہوں گے: پیسہ، اور وہ بھی بہت زیادہ۔

موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ممالک کی طرف سے مالی امداد کے معاملے
نے، اُن ممالک کی مدد کے لئے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین اثرات اور موافقت کے
سب سے زیادہ اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں، تقریباً دو دہائیوں سے موسمیاتی مذاکرات
روکے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک 2009 میں کئے گئے اُس وعدے کو پورا کرنے میں مسلسل
ناکام رہے ہیں جس کے تحت ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی کاروائیوں میں تعاون کے
لئے سالانہ 100 ارب امریکی ڈالر موسمیاتی مالیات کی مد میں فراہم کئے جانے تھے۔ اور
یہاں تک کہ یہ اُس رقم سے بھی بہت کم ہے جو غریب ممالک کو اپنی معیشتوں کو ڈیکاربنائز(
کاربن سے پاک) کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لئے
ضروری ہوگی، اور جس کا تخمینہ اب کھربوں ڈالرز سالانہ میں لگایا گیا ہے۔

جون 2023 میں پیرس میں منعقد ہونے والے نیو گلوبل فنانسنگ پیکٹ کے لئے سربراہی
اجلاس
میں خاص طور پر اُن مسائل کو سامنے لایا گیا جس میں ترقی پذیر ممالک اپنے
قرضوں کی ادائیگی کے لئے موسمیاتی مالیات کے طور پر رقم وصول کرنے سے زیادہ

ادائیگی کرتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک نے عالمی بینک اور اس کے ملحقہ اداروں کی تنظیم
نو، مزید رعایتی اور گرانٹ پر مبنی مالیات اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے قرضوں کی
منسوخی کا مطالبہ کیا۔ اس بات کا قوی اِمکان ہے کہ یہ مسائل کوپ 28 میں
دوبارہ سامنے آئیں گے۔