آب و ہوا

جنوبی ایشیا کی گرمی کی لہروں سے بچاؤ – پارٹ 3، پاکستان

جنوبی پاکستان میں دنیا کے گرم ترین شہر کہلانے والے شہر کے قریب صحافی سلطان رند 46 ڈگری پر زندگی کی حقیقت بیان کر رہے ہیں
اردو

ایڈیٹر کا نوٹ: تین حصوں پر مشتمل ویڈیو سیریز میں یہ تیسرا پارٹ ہے جو اس بات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے کہ کس طرح جنوبی ایشیا کے کچھ گرم ترین قصبوں اور شہروں میں لوگوں کو غیر فعال بنا دینے والی شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  یہ ویڈیو مئی میں گزشتہ سال کی غیر معمولی گرمی کی عرصے کے  دوران فلمائی گئی، اوراِسے اس سال کے گرم موسم کے آغاز پر شائع کیا گیا، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے وِلاگرز( ایک شخص جو باقاعدگی سے ایک و ِلاگ -مثال کے طور پر یوٹیوب- پر مختصر ویڈیوز پوسٹ کرتا ہے) شدید گرمی کے وقت اپنی زندگی کا ایک دن شیئر کرنے کے لئے ویڈیو ڈائری استعمال کرتے ہیں۔

ان وِلاگ  ( ایک ذاتی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ جہاں ایک شخص باقاعدگی سے مختصر ویڈیوز پوسٹ کرتا ہے) کے ذریعے، ہم تین مختلف ممالک میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے تجربات کے توسّط سے،  بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے انسانی اثرات  پر اہم معلومات حاصل کرتے ہیں۔ موسمیاتی بحران کی سائنس پر ہماری رپورٹنگ اور تجزیے کی تکمیل کرتے ہوئے، سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبد یلیوں کے اثرات کے  زیرِ اثرشدید  خطروں کی زد میں رہنے والے خطے میں زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہے۔

شکار پور، جنوبی پاکستان میں ایک صحافی سلطان رند کے لئے صبح کا وقت اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ باہر گزارنے کا وقت ہے۔ دن کی گرمی شروع ہونے سے پہلے، وہ درختوں کے نیچے چارپائیوں پر بیٹھ کر لوک گیت گا کر اپنا دل بہلاتے ہیں۔ لیکن راحت کا یہ لمحہ زیادہ دیر نہیں چلتا۔ جیسے ہی شکار پور(جوجیکب آباد  جسے اکثر دنیا کا گرم ترین شہر کہا جاتا ہے، کے ساتھ ہی واقع ہے)  پر سورج طلوع ہوتا ہے ، رند اپنے دھوپ کے چشمے لگا کر قریبی قصبے میں پھلوں کے اسٹال کی طرف رخ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تربوز کے ٹکڑے کھانا ان طریقوں میں سے ایک ہے جو وہ گرمی میں خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے اختیار کرتے ہیں۔

جب رند قریبی پرائمری اسکول کا دورہ کرتے ہیں تو اُنھیں معلوم ہوتا ہے کہ گرمی کی وجہ سے بہت سے طلباء غیر حاضر ہیں۔ اسکول میں بجلی کی بندش کی وجہ سے جب پارہ 46 ڈگری سیلسیس تک بڑھ جاتا ہے تو طلباء کے لئے اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

موسم بہار 2022 میں، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کو متاثر کرنے والے شدید درجہ حرارت نے ایک اور زاویے سےخطرے کی گھنٹی  بجانے کا کام کیا کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں شدید موسمی واقعات کے امکان کو بڑھا رہی ہے۔ اس سال مارچ اور مئی کے درمیان پاکستان اور بھارت میں مزید گرمی کی لہریں آنے کا امکان ہے۔

صحت پر پڑنے والے فوری اثرات کے ساتھ ساتھ، گرمی کی لہر کی جلد آمد پورے پاکستان میں پیچیدہ نتائج کا باعث بنتی ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ربیع (موسم بہار میں فصل کی کٹائی) کی فصلیں توقع سے پہلے پک جائیں گی، اور دیگر کھڑی فصلوں کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کے پہاڑوں میں، گزشتہ سال موسم گرما کے جلد اور غیر معمولی طور پر گرم آغاز نے گلگت بلتستان کے کسانوں کو گزشتہ سالوں کے مقابلے، گندم کی فصل پہلے بونے پر مجبور کر دیا، جس سے فصلوں کے چکر میں تبدیلی آئی۔

گرم تر درجہ حرارت توانائی کی طلب کو بڑھاتا ہے – جس کا صاف مطلب ہے کہ فوسل فیول(قدرتی ایندھن ) پر بہت زیادہ انحصار کرنے والی معیشتوں میں کاربن کے اخراج میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک شدید گرمی کے وقت اپنی آبادی کو وقتی تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے  گرمی کو کم کرنے کے لئے موثر ایکشن پلان کی اشد ضرورت ہے جوقدرتی ایندھن سے چلنے والے ایسے منصوبے تجویز نہ کرے جو کاربن بم  چھوڑیں، بلکہ کم  لاگت پر مبنی تحفظ پسندانہ  منصوبے شروع کروائے۔

فوٹیج طاہر جان بھٹو نے بنائی۔

جنوبی ایشیا کی گرمی کی لہروں سے بچاؤ پر ہماری ویڈیو سیریز کا پارٹ نمبر 1 اور پارٹ نمبر  2 دیکھیں۔