icon/64x64/nature حیاتی ماحول

کاون ہاتھی کی رہائی نے پاکستان میں چڑیا گھروں پر بحث ایکبار پھر چھیڑ دی ہے

ہاتھی کے عالمی دن پر ، ہم اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر سے کاون ہاتھی کو ملنے والی آزادی پر خوش ہیں، جہاں اسے کئی سالوں تک نامناسب حالات میں رکھا گیا-
<p>Kaavan at the Marghazar Zoo in November 2019 [Image by: Muhammad bin Naveed]</p>

Kaavan at the Marghazar Zoo in November 2019 [Image by: Muhammad bin Naveed]

وکیل اویس اعوان کو اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کے اس فیصلے پر خوشی ہے ، جس نے اس مئی میں یہ فیصلہ دیا کہ کاون نامی ایک متاثرہ ایشیائی ہاتھی کو اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر سے کمبوڈیا منتقل کیا جانا چاہئے۔

اعوان نے کہا ، “ہم خوش قسمت تھے کہ ایک ایسا جج پایا جو جانوروں کی فلاح و بہبود کے کاز کو سمجھتا اور اس کے لئے جذبات رکھتا ہے۔” 

کاون کو 1985 میں ، جب وہ ایک سال کا تھا ، سری لنکا نے پاکستانی حکومت کو بطور تحفہ دیا تھا۔ 

“میرے بچے اور یہاں تک کہ میرے پوتے پوتیاں بھی کاون کو دیکھ کر بڑے ہوئے، اسے رخصت کرنے میں دکھ توہوگا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ  آگے اس کا مستقبل  خوبصورت ہے  وہ امن و سکون کے ساتھ  رہے گا۔ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم بی) کے صدر ، انیس الرحمن نے کہا۔ 

کاون کو ستمبر سے قبل کمبوڈیا کے ایک جاۓ امان میں منتقل کردیا جائے گا اور کورٹ نے بورڈ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مرغزار چڑیا گھر کا انتظام سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کاون کی محفوظ منتقلی کی نگرانی بھی کرے- 

جج نے یہ بھی ہدایت کی کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رکھے ہوئے دیگر 878 جانوروں کو حکم کے 60 دن کے اندر اندر منتقل کردیا جائے۔

اس فیصلے خیرمقدم  پورے پاکستان میں اور دنیا بھر میں کاون کے لئے مہم چلانے والوں نے جوش و جذبے کے ساتھ کیا۔ لیکن اس نے بہت سوں کو ایسے چڑیا گھروں کی اہمیت پر بھی سوال کرنے پر مجبور کیا ہے – خاص طور پر جب پاکستان کے شہروں میں زیادتی کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ 

ہاتھی جو مہم کا محرک بنا

عدالت کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں کاون کے ساتھ روا سلوک سے متعلق مسائل کی تفصیلات بیان کی گئیں اور فیصلے میں اس کا حوالہ دیا گیا- اس میں کہا گیا ہے کہ ہاتھی اپنی “جسمانی ، معاشرتی اور طرز عمل کی ضروریات” سے متعلق “نامناسب” حالات میں رہ رہا ہے۔ باقاعدگی کے ساتھ ایک چھوٹے سے احاطے میں زنجیروں سے جکڑ کر، اسے 2012 سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ اس کا کھانا “غیر معیاری” اور “ناکافی” ہے ، اور اس کے مہاوتوں ، یا نگہبانوں کا ، اس کے ساتھ “منفی رشتہ” ہے۔

2015 میں ، ثمر خان نامی ایک طالب علم نے ہاتھی کی حالت زار پر دنیا کی توجہ دلانے کے لئے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی۔  

اس کی رہائی کو ” تقریباغیر حقیقی ” قرار دیتے ہوئے ، خان نے، جو اب ایک جانوروں کی معالج  ہیں ، اپنی مہم کو یاد کیا۔ 

انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا ، “اس کی تکلیف بہت سے لوگوں نے محسوس کیا، اور اس کے جذباتی پرستار میں اضافہ ہوتا گیا، لوگوں نے پاکستانی سفارت خانوں کے باہر احتجاج کیا۔” 

اس کے بعد انہوں نے کاون کی کہانی لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک فیس بک پیج بنایا۔

ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں یقین تھا  کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ٹول ہے- اس سے پوری دنیا کے لوگوں کو اکٹھا ہونے اور چڑیا گھر کے عہدیداروں کو جوابدہ ٹھہرانے موقع ملا۔ 

“لوگوں نے مشہور شخصیات کو ٹویٹس میں ٹیگ کرنا شروع کردیا۔ ہم نے ایک ٹیمپلیٹ ای میل بنایا اور سینکڑوں افراد کے ذریعہ روزانہ سرکاری عہدیداروں کو خطوط بھیجنے کے لئے اس کا استعمال کیا”، انہوں نے بتایا- امریکی پاپ گلوکار شئیر اس مہم میں شامل ہونے والوں میں سےایک۔ تھیں- 

انیس الرحمٰن نے کہا کہ شئیر کی تنظیم ، فری دی وائلڈ، اب نقل مکانی کے لئے فنڈ فراہم کرے گی- 

“یہ عمل پیچیدہ ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر کاغذی کارروائی شامل ہے۔ اس کے بعد ، ماہر ویٹس اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا کاون فلائٹ کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ ہے یا نہیں۔  یہ سب ہوجاتا ہے تو ، ایک اسٹیل کا پنجرا تعمیر کیا جائے گا اور کاون کو اس میں جانے کی تربیت دی جائیگی- جس میں دو سے چار ہفتے لگ سکتے ہیں۔” 

آگے کے چیلنجز

جیساکہ لوگ کاون کی آنے والی آزادی کا خیرمقدم کررہے ہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں بائیوڈائیورسٹی کی ڈائریکٹر ، عظمہ خان کچھ تحفظات رکھتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھیں جنہوں نے اس کیس کے بارے میں عدالت کو ثبوت دیا اور کہا کہ نقل و حمل کسی جانور میں شدید تناؤ کی وجوہ بن سکتا ہے- “خدانخواستہ  اس منتقلی کے دوران کچھ ہوتا ہے تو ذمہ داری کون قبول کرے گا؟” کہتی تھی.

عظمیٰ خان نے اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آیا کاون اپنی نئی زندگی میں ایڈجسٹ کرسکے گا، وہ کہتی ہیں “”ایک ایشین ہاتھی کی چڑیا گھر کی اوسط متوقع عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے ، کاون نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بسر کیا ہے ، اب کوشش کی جانی چاہئے کہ اس کے احاطے کو بہتر بنایا جاسکے اور تقویت فراہم کی جائے تاکہ اس کا معیار زندگی بہتر ہو اور وہ زیادہ فعال ہو۔”

اسیری میں ایشیائی ہاتھیوں کی اوسط عمر یورپ میں 47.6 سال اور شمالی امریکہ میں 41.9 سال ہے۔ وہ جنگل میں 60 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فور دی کنزرویشن آف نیچر نے ایشیائی ہاتھی کو معدودیت سے دوچار قرار دیتے ہوۓ سرخ فہرست میں شامل کیا۔

تاہم ، اس واقعہ نے عظمیٰ خان کو کسی نتیجے پر پہنچنے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہا ، “ہماری حکومت کو ایک تزویراتی فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ ہمارے چڑیا گھروں کے لئے مزید کوئی ہاتھی نہ منگواۓ۔” کیونکہ مؤخر الذکر ان کی “پیچیدہ معاشرتی اور نفسیاتی ضروریات” کو پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ 

نارواسلوک کی کوئی حد نہیں 

کاون کی کہانی کی طرف مبذول  بین الاقوامی توجہ کے باوجود ، پاکستان میں عوامی چڑیا گھروں میں بہت کم تبدیلی آئی ہے- چڑیا گھر کے دوسرے جانوروں کی حالیہ اموات نے اس بارے میں نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ آیا پاکستان میں چڑیا گھر ہونے بھی چاہییں یا نہیں- 

آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے 67 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ “چڑیا گھر اپنے رہائشی قیدیوں کو نمائش کے طور پر دکھانے کے سوا کوئی مقصد فراہم نہیں کرتے ہیں۔” 

جولائی میں ، ایک شیر اور شیرنی مرغزار چڑیا گھر سے پنجاب کے قصور میں واقع ایک محفوظ مقام میں منتقل کیے جانے کے دوران ہلاک ہوگئے۔ عظمیٰ خان کے مطابق ، ان کو “اس گرم اور مرطوب موسم میں” منتقل کرنے کے فیصلے سے “نااہلی اور ظلم” کی عکاسی ہوتی ہے۔

اس سال مئی میں ، پشاور چڑیا گھر میں ایک زرافہ  مردہ پایا گیا تھا ، اور حال ہی میں کراچی اور لاہور میں بھی زرافے ہلاک  ہوۓ ہیں ۔ رواں سال مرغزار چڑیا گھر میں تین نیل گاۓ یا نیلے بیل اور ایک شتر مرغ کی موت ہوئی ہے۔ 2018 میں ، ایک ایشین شیر تپ دق سے مر گیا؛ 2014 میں ایک بنگال کا شیر نامعلوم بیماری سے مر گیا تھا۔ اور 2011 میں چار شیرکے بچے مرگئے۔ یہ سب کراچی چڑیا گھر میں ہوا۔ 

دستاویزی فلم ساز اور پاکستان اینیمل ویلفیئر سوسائٹی کی شریک بانی ، ماہرہ عمر نے ٹویٹ کیا ، “اس سال کے شروع میں ، ہم نے چڑیا گھر میں ایک ٹائیگر کو فلمایا ، جس میں زوکوسز کی علامتیں نمایاں تھیں۔”انہوں نے ایک ویڈیو بنائی جس میں دکھایا گیا تھا کہ  ٹائیگر اپنے خالی بنجر پنجرے کے چکر لگا رہا ہے ، اور تماش بین جانور کو اکسا رہے ہیں۔ 

عظمیٰ خان نے کہا کہ اس بدسلوکی کو کئی عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے- 

مرغزار جیسے کچھ چڑیا گھروں میں ، فنڈز کی کمی ہے جس کا مطلب ہے کہ جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے اتنی رقم نہیں ہے۔ تاہم ، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بہت سارے چڑیا گھروں کے لئے ،  مسئلہ معیار کا فقدان ہے جو جانوروں کی بنیادی نگہداشت اور نسلوں کے اعتبار سے احاطوں کی خصوصیات فراہم کرتا ہےاور انتظام کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔ اس مسئلہ کو غیرتربیت یافتہ چڑیا گھر ملازمین نے مزید سنگین بنا دیا ہے- عظمیٰ خان نے کہا کہ کچھ نگہبان ، جن کو اکثر کم تنخواہ دی جاتی ہے ، پڑھ لکھ بھی نہیں سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں چڑیا گھر ہیں جو چڑیا گھروں کے رکھوالوں کے لئے ٹریننگ اور یہاں تک کہ وظائف بھی آفر کرتے ہیں۔ “ہمارے [چڑیا گھر کے عملے] کو وہاں بھیجنا چاہئے تاکہ جانوروں کے پالنے کے روایتی طریقوں سے باہر آسکیں۔ زیادہ تر افراد کو مثبت طریقہ کار کے ذریعہ جانوروں کی تربیت ، یا جانوروں سے مثبت انداز میں تعلقات استوار کرنے کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے” عظمیٰ خان نے کہا۔

چڑیا گھر کی بحث

بدسلوکی کی واقعات پر عوامی اشتعال نے کچھ لوگوں کو چڑیا گھروں کے حوالے سے غور وغوز کرنے پر مجبور کردیا ہے-  اسلام آباد میں مقیم ، جانوروں کےخیرخواہ ایک گروپ ، فرینڈز آف اسلام آباد زو کے ایک رضاکار اور آرکٹیکٹ محمد بن نوید نے کہا ، “میں کہتا ہوں کہ [مرغزارچڑیا گھر ] کو ایک فیملی پارک میں تبدیل کریں جہاں لوگ پکنک منا سکیں۔” 

اس نظریہ کیتائید کرتے ہوئے ، IWMB کے انیس الرحمن نے کہا: “ہمارے پاس چڑیا گھر نہیں ہونا چاہئے اور ناہی ہمیں مزید چڑیا گھر لگانا چاہئے۔” انہوں نے کہا ، جانوروں کو سلاخوں کے پیچھے رکھنا، ہمارے “بچوں کو تمام غلط پیغامات پہنچا رہا ہے۔” 

لیکن ، ساتھ ہی انیس الرحمن کا کہنا ہے کہ ، چڑیا گھر کے جانوروں کو اچانک آزاد کرنا ظلم ہوگا۔ انہوں نے کہا ، “وہ زندہ نہیں رہ پائیں گے ،” انہوں نے مزید کہا کہ چڑیا گھروں کو اس وقت تک رکھنے کی ضرورت ہے جب تک کہ جانور اپنی فطری اموات نہ مرجائیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی خان کی پوزیشن درمیان میں کہیں رہی- انہوں نے کہا ، “میں چڑیا گھروں کے خلاف نہیں ہوں کیونکہ ان میں جانوروں اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اور نجی چڑیا گھروں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی جانور رکھنے والے افراد کا ڈیٹا بیس بنانے کے سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے “چڑیا گھر کی قانون سازی اور معیار” کی اہمیت پر زور دیا تاکہ جب عدالتیں جانوروں کے کیسزاٹھائیں تو وہ چڑیا گھر میں موجود تمام جانوروں کی بہبود دیکھیں۔ 

اسی طرح ثمر خان ، جو بچپن میں چڑیا گھر جا کر جانوروں سے محبّت کرنے لگیں، نے کہا کہ ذمہ دار چڑیا گھر جنگلی جانوروں کے تحفظ ، تحقیق اور بحالی میں مدد کرسکتا ہے- “اچھا وسائل کے ساتھ ایک مناسب طریقے سے چلنے والے چڑیا گھر لوگوں میں جنگلات کی زندگی اور تحفظ کے لئے محبت پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں،” انہوں نے کہا-.

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.