icon/64x64/nature حیاتی ماحول

جنوبی ایشیاء میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار اپنے زوروں پہ ہے

حکام کا کہنا ہے کہ ذریعہ معاش کے خاتمے اور غیر مرکوز توجہ کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
<p>Armed forest guard looking out over Brahmaputra River, Kaziranga National Park, Assam, India [image: FLPA / Alamy]</p>

Armed forest guard looking out over Brahmaputra River, Kaziranga National Park, Assam, India [image: FLPA / Alamy]

حکام کا کہنا ہے کہ ذریعہ معاش کے خاتمے اور غیر مرکوز توجہ کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔

جیسے ہی جنوبی ایشیاء کے ممالک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے میں مصروف ہوۓ، جنگلات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث مجرموں نے اسکا فائدہ اٹھانا شروع کردیا-

حکام کی توجہ لاک ڈاؤن پابندیوں کو نافذ کرنے پر مرکوز ہونے کی وجہ سے، شکاریوں کو پکڑے جانے کا خوف کم محسوس ہونے لگا۔ نتیجتاً ، ہندوستان ، پاکستان اور نیپال کے حکام نے بتایا کہ غیر قانونی شکار میں اضافہ ہوا ، جس میں معدومیت کےخطرے سے دوچار جانوروں اور نایاب پرندوں کا شکار بھی شامل ہے۔ معاملات کو مزید بدتر ہوۓ، جب کوویڈ ۔19 لاک ڈاؤن کے معاشی نتائج کی بنا پر ذریعہ معاش سے محروم لوگوں نے بھی گزر اوقات کے لئے غیر قانونی شکار کا رخ کیا-

یہ اس رجحان کی پیروی ہے جسکا آغاز جنوب مشرقی ایشیاء ، افریقہ ، برازیل اور کولمبیا میں پہلے ہی ہوچکا ہے: یعنی کوویڈ ۔19 پابندیاں پوری دنیا میں نافذ ہونے کے بعد سے غیرقانونی شکار اور جنگلات کی کٹائی میں اضافہ ہوا ہے۔

وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کے تحفظ کے سربراہ جوزف والسٹن کہتے ہیں “، جنوب مشرقی ایشیاء جیسی جگہوں پر، شہر سے دیہی علاقوں میں بہت بڑی نقل مکانی دیکھنے میں آئی ہے جہاں لوگوں نے راتوں رات شہروں میں اپنی ملازمت کھو دی۔ انہیں اب گزارے کے لئے غیر قانونی شکار ، لاگنگ یا دیگر سرگرمیوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جو فطرت کو تباہ کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے”-

جنوبی ایشیاء کا بھی یہی حال ہے- ماحولیاتی تحفظ پسندوں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں غیرقانونی شکار کی رپورٹس صرف معاملے کی اوپری سطح ہے-

پاکستان میں ، حکام کے مطابق مارچ سے اپریل کے عرصے میں غیر قانونی شکار کے لئے متعدد مقدمات درج ہوۓ ہیں – نیپال میں ، حالیہ برسوں میں غیر قانونی شکار کے سب سے زیادہ تشویشناک واقعات سامنے آۓ ہیں- بنگلہ دیش واحد ملک ہے جہاں غیر قانونی شکار کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ، حالانکہ تحفظ پسند جنگلی حیات کو لاحق خطرے کےحوالے سے فکرمند ہیں۔ اگرچہ ان ممالک نے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کا کئی سال مقابلہ کیا ہے ، لیکن حالیہ لاک ڈاؤن سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بلیک مارکیٹ کی جڑیں ابھی بھی مضبوط ہیں۔

پاکستان کے کچھ حصوں میں اسمگلنگ تین گنا بڑھ گئی

شمالی علاقہ خیبر پختون خوا (کے پی) میں ، 22 مارچ سے 12 مئی تک لاک ڈاؤن کے دوران شکار اور غیر قانونی شکار کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ ” 20 مارچ سے 30 اپریل تک ، ہم غیر قانونی شکار کے 600 مقدمات کی ریکارڈ اندراج کر چکے ہیں” ، کے پی کے محکمہ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ میں ڈویژنل وائلڈ لائف آفیسر محمد نیاز نے کہا- انہوں نے کہا کہ عام دنوں میں، کل کیسز 150 سے 200 کے درمیان رہتے ہیں-

زیادہ تر کیسز میں بڑے شہروں کی کچھ منڈیوں کو سپلائی کرنے کے لئے پکڑے گئے پرندوں اور جانوروں کی اسمگلنگ شامل تھی ، ان منڈیوں کو ضروری سامان کے لئے کھولنے کی اجازت تھی۔ “صرف ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹ میں ، میری ٹیم نے 220 شکاریوں اور پوچرز کو پکڑا جو دریائے سندھ کے قریب سرگرم تھے” ، مقامی ڈسٹرکٹ وائلڈ لائف آفیسر،خان ملوک نے کہا۔

سب سے بڑا کیس 24 مارچ کو ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور، 65 ڈیموزیل کرینوں کی اسمگلنگ تھی۔ پرندے ایمبولینس میں بندھے پاۓ گۓ ان کے سر کپڑے سے ڈھنپے ہوۓ تھے- ایمبولینس کے آپریٹر لاش لے جانے کا دکھاوا کررہے تھے ، خان ملوک نے بتایا-

صوبہ بلوچستان کے جنگلات اور جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر شریف الدین نے کہا کہ کے پی میں اسمگلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ صوبہ، انڈس فلائی وے کے ذریعہ ہندوستان سے سائبیریا واپس ہجرت کرنے والے پرندوں کے لئے ایک اہم آرامگاہ ہے۔

منافع بخش تجارت

 

پشاور میں پرندے بیچنے والے محمد صہیب نے بتایا ، پوچنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے اور لوگوں نے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران محکمہ وائلڈ لائف کی سرگرمیوں میں کمی کا فائدہ اٹھایا- صہیب نے اعتراف کیا کہ اس دوران شکاریوں کے ذریعہ پرندوں کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔

پرندوں کے شکار میں بڑا پیسہ ہے۔ کرینیں اور دیگر نایاب اقسام فروخت کرنے والے شکاری ماہانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے آسانی سے کما سکتے ہیں- ایک کرین 7،000 روپے ( 44 امریکی ڈالر) سے لے کر 20 لاکھ (12،500 امریکی ڈالر) تک کما کر دے سکتی ہے-

صہیب نے متنبہ کیا ، “کھلی منڈی میں نایاب جنگلی حیات کی قیمت لوگوں کو اس غیر قانونی عمل کی طرف راغب کررہی ہے ، جو پہلے ہی سے معدودیت کی شکار جنگلی حیات کیلئے خطرہ ہے۔”

وائلڈ لائف کے عہدیداروں کا خیال ہے کہ وائلڈ لائف کی خفیہ تجارت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگوں کو لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار سمیت دیگر آمدنی کے ذرائع ڈھونڈنا پڑے ہیں، کیونکہ کمرشل تجارتی سرگرمیاں رک گئی ہیں- ناصرف پیشہ ور شکاری ، بلکہ عام لوگ بھی حکام کی توجہ مرکوز نہ ہونے کی بنا پر غیر قانونی تجارت کیطرف چلے گئے ہیں –

فرصت کے ان دنوں میں شیخی بگھارنے کی غرض سے فارغ نوجوانوں کیطرف سے سوشل میڈیا پر شکار کیےگۓ جنگلی حیات کی تصویریں بھی شکار میں اضافے کا سبب بنی ہیں، محکمہ وائلڈ لائف کے عہدیداروں نے تھرڈ پول کو بتایا-

نیپال میں معدودیت سے دوچار نسلوں کی ہلاکت

نیپال میں ، معدودیت سے دوچار جنگلی حیات سے متعلق بڑے واقعات نے ملک میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار میں اضافے کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے ۔

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ذریعہ معاش کے خاتمے ، نقل و حرکت پر پابندی اور سیاحت میں سست روی جیسے بہت سے عوامل سےشکاریوں کو صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی ترغیب ملی ہے-

25 اپریل کو ، کوویڈ – 19 لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے ایک ماہ بعد ، ایورسٹ کے نیچے ، ساگرماٹھا نیشنل پارک کے اندر چھ کستوری ہرن کی لاشیں ملی تھیں۔ پارک کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں یہ “غیر قانونی شکار کا ایک بدترین کیس” تھا۔

“جب ہم اس جگہ پر پہنچے جہاں لاشیں پائی گئیں ، تو ہم نے دیکھا کہ ہرنوں کو جال میں پھانس کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ایک نرہرن کا کستوری غدود نکال لیا گیا تھا”، ساگرماتھا نیشنل پارک کے چیف کنزرویشن آفیسر بھومیراج اپادھیہ نے کہا-

ہمالیائی مسک ہرن ، جسے عام طور پر جنوبی ایشیاء میں کستوری کے نام سے جانا جاتا ہے، اس خطے کے انتہائی خطرے سے دوچار نسلوں میں سے ایک ہے۔ نرکستوری ہرن سے حاصل ہونے والے خوشبودار غدود ہزاروں روپے مالیت رکھتے ہیں، اور پرفیوم اور روایتی ادویات بنانے میں استعمال ہوتے ہیں-

ایورسٹ کے دامن پہ کھمبو کے رہائشی دعوا نورو شیرپا نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ اسی علاقے میں پھندے کے اندر ایک مردہ سنہری عقاب بھی پایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تار کے مزید پھندے بھی ملے تھے-

ایک اور واقعہ میں دیکھا گیا کہ جنوبی نیپال کے پارسا نیشنل پارک میں شکاریوں نے گشت کرنے والے فوجیوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔ نیشنل پارکس اور وائلڈ لائف کنزرویشن ڈیپارٹمنٹ کے انفارمیشن آفیسر بشنو شریستہ نے بتایا کہ ایک فوجی زخمی ہوا، جبکہ ایک شکاری موقع پر ہی ہلاک ہوگیا- پارک کے چیف کنزرویشن آفیسر عامر مہارجن نے بتایا کہ عہدیداروں نے ایک شکاری کو گرفتار کرلیا ، جو کھٹمنڈو میں پینٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا ، اور لاک ڈاؤن کے بعد کام نہ ہونے کی وجہ سے گھر واپس آگیا تھا۔

کنزرویشن کے عہدیداروں نے ان واقعات کے پیش نظر سیکیورٹی کی کوششیں تیز کردی ہیں- شریستھا نے کہا ، “ہمارے تمام دفاتر بھی کھل گئے ہیں جب کہ حکومت نے ہمارا اندراج ضروری خدمات کے تحت نہیں کیا ہے۔”

نیپال کے بیشتر قومی پارکوں میں موسم بہار کے موسم میں سیاحوں کی آمد نظر آتی ہے- اپادھایا نے کہا ، لیکن اس وقت محفوظ علاقے ویران ہیں اور اس لئے جنگلی جانوروں کو مارنے کے کا شکاریوں کو موقع مل گیا ہے۔ “ایورسٹ کا علاقہ موسم بہار کی آمد کے ساتھ لوگوں سے بھر جاتا ، ” انہوں نے بتایا، “لیکن اس سال ، لاک ڈاؤن کیوجہ سے، [شکاریوں] کے لئے جال بچھانا آسان ہوگیا۔”

شریستھا نے کہا، لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی ملک میں جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار اور غیر قانونی لاگنگ سے متعلق متعدد معمولی واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ نیپال کے سب سے مشہور زیرِ تحفظ علاقے چیتوان نیشنل پارک میں ، ایک ہاتھی اور تین مگرمچھوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہیں۔

 

 

انڈیا میں خطرے سے دوچار نسلیں

 

جیسا کہ بھارت میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا- پنجروں میں جنگلی پرندوں سے ، بش میٹ کے لئے پکڑے گئے جانوروں تک اور قیمتی اشیاء کی بین الاقوامی غیر قانونی پوچنگ تجارت تک، ہندوستان کے متعدد حصوں میں رجسٹرڈ پوچنگ میں اضافہ ہوا ہے-

اوڈیشہ میں ، 10 مئی کو سملی پال ٹائیگر ریزرو میں چیتے کی کھال کے ساتھ چار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا- اسی دن ، حکام کو شمال مشرقی ریاست آسام میں کازیرنگا قومی پارک اور ٹائیگر ریزرو میں شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا ایک گینڈا ملا- تحفظ پسندوں کا کہنا ہے کہ ہندوستانی گینڈے مستقل نگرانی کے بغیر زندہ نہیں رہیں گے ، کیونکہ ان کے سینگ تجارتی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

راجستھان میں غیر قانونی شکار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ، جس میں معدودیت کےخطرے سے دوچار ایک صحرائی ہرن چنکارا ، کے کئی کیسز بھی شامل ہیں، جسے ایک بڑے علاقے سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور اب وہ بنیادی طور پر راجستھان میں پایا جاتا ہے۔

کنزرویشن کے مطابق یہ صرف ابتدائی معلومات ہیں- صحرائی ماحولیات کا مطالعہ کرنے والے اور معاشرتی تحفظ پر کام کرنے والے سمت ڈوکیہ کہتے ہیں، “ہمارےاندازے سے ، [مغربی راجستھان میں] کم سے کم 55 شکار ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ شکار کیے جانے والے جانوروں میں چنکارا ، کالے ہرن ، داغ دار دم چھپکلی ، صحرائی خرگوش، پیور ، مانیٹر چھپکلی اور سرمئی فرانکولن شامل ہیں۔

دریں اثنا، کرناٹک کے بانڈی پور ٹائیگر ریزرو میں ، ایک شکاری گروہ دریافت ہوا- 50 کلوگرام چیتل ہرن کا گوشت پکڑا گیا اور نو افراد گرفتار ہوۓ۔ یہ غیر قانونی شکار کے واقعات میں سے ایک تھا- کچھ ملزمان محکمہ جنگلات میں عارضی ملازمت کرتے رہے تھے۔

بنگلہ دیش میں پوچنگ کے کوئی واقعات نہیں

خطے کے باقی حصوں کے برعکس ، بنگلہ دیش میں جنگلی حیات کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران غیر قانونی شکار کو سخت کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باوجود ، ہمارا وائلڈ لائف کرائم کنٹرول یونٹ (ڈبلیو سی سی یو) انتھک محنت کر رہا ہے۔ چونکہ نقل و حمل ممنوع ہے ، لہذا اب جنگلات میں غیر قانونی شکار پر قابو پانا ممکن ہے “، وائلڈ لائف اینڈ نیچر کنزرویشن سرکل کے محافظ جنگلات، مہر کمار ڈو نے کہا-

جنگلات کے چیف کنزرویٹر عامر حسین چوہدری نے کہا ،” بنگلہ دیش میں جنگلی حیات کی انواع کے لئے اپنی منڈی نہیں ہے بلکہ اسے ایک راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے… لیکن وبائی امراض کے دوران بنگلہ دیش میں جنگلی حیات کی غیر قانونی شکار میں کمی آ رہی ہے۔ “

ڈبلیو سی سی یو کے مطابق 2013 اور 2019 کے اختتام کے درمیان جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے 438 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں ، جن میں 2019 میں صرف 107 کیسز ہیں-

لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تجارت جاری ہے۔ کری ایٹو کنزرویشن الائنس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شہریار سیزر رحمان نے کہا کہ کچھ مقامی نسلیں جیسے ہرن ، پینگولن ، لیزارڈ ٹرٹل اور دیسی پرندے اب بھی غیر قانونی شکار اور ملک سے باہر اسمگل کیے جارہے ہیں-

“اب چونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کورونا وائرس کے مسئلے میں مصروف ہیں ، اسمگلروں کو غیرقانونی زمینی بندرگاہوں کے ذریعے تجارت بڑھانے کے مواقع حاصل ہوگئے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں کئی کمیونٹیز اب اپنی روزی روٹی کے لئے جنگلی جانوروں کی غیر قانونی شکار یا انھیں ہلاک کرنے میںملوث ہوگئی ہیں۔ یہ تشویشناک ہے ، “انہوں نے کہا۔

اس اسٹوری کی رپورٹنگ : پاکستان میں عدیل سعید ، ہندوستان میں نیہا سنہا ، نیپال میں اے آر جوشی اور بنگلہ دیش میں نازمون ناہر شیشیر نے کی ہے۔

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.