پانی

پاکستان کی طرف سے نظرانداز انڈس ڈیلٹا رفتہ رفتہ سمندر میں غرق ہورہا ہے

اگر حکام نے تیزی سے اقدامات نہیں کیے تو ، انڈس ڈیلٹا کا وجود ختم ہوجائے گا ، جس سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور ماحولیاتی نتائج کا امکان ہے-
اردو
<p>Boat sailing across the Indus [image by: Altaf Siyal]</p>

Boat sailing across the Indus [image by: Altaf Siyal]

“جو آپ نہیں دیکھ سکتے، آپ محسوس نہیں کرسکتے ہیں ” یہ جملہ افریقی نژاد پاکستان کی پہلی قانون ساز ، تنزیلہ قمبرانی نے یہ جملہ ان غریب طبقات کی حالت زار کو سمجھنے کے لئے استعمال کیا جو اپنے زمانے کے خوشحال انڈس ڈیلٹا کے باسی ہیں- قمبرانی ، جن کی شیدی برادری صوبہ بلوچستان اور سندھ  میں مکران کے ساحلی علاقوں میں آباد ہے ،کہتی ہیں کہ غربت کی سطح “ناقابل یقین” ہے- پاکستان کی ماحولیات اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے مشہورانڈس ڈیلٹا،  دنیا کا پانچواں بڑا اور مینگروز کے جنگلات میں ساتویں نمبر پر ہے۔

اس کی بین الاقوامی اہمیت کے اعتراف میں ، ویٹ لینڈ کو 2002 میں رامسار سائٹ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا- یہ وہ جگہ ہے جہاں ، دلدل ، ندیوں اور مینگروو کے جنگلات کا ایک پیچیدہ نظام تشکیل دیتا عظیم دریاۓ، سندھ بحیرہ عرب میں جاکر گرتا ہے- جب تیزی سے بہت دریا سمندر میں گرتا ہے تو اپنے پیچھے زرخیز مٹی چھوڑ جاتا ہے جو زرخیز مثلث زمین تشکیل دیتی ہے-

تاہم ، حکومت کی جانب سے ڈیم کی تعمیر اور پانی کی بد انتظامی کے نتیجے میں دریا کے بہاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ، جس کے نتیجے میں ڈیلٹا سکڑ گیا ہے ، اور انسانی جان اور ماحولیات دونوں کو خطرہ ہے۔ بہتے ہوئے میٹھے پانی کی عدم موجودگی سمندری پانی ڈیلٹا میں داخل ہوجاتا ہے ، جس سے مٹی اور آبی ذخائر تباہ ہورہے ہیں اور یہ انسانوں ، جانوروں یا فصلوں کے لئے ناقابل استعمال ہوتا جارہا ہے۔ 

پچھلے سال ،دی تھرڈ پول نے رپورٹ دی تھی کہ ڈیلٹا سے لگ بھگ 12 لاکھ افراد پہلے ہی کراچی منتقل ہوچکے ہیں۔ سالوں سے ، ڈیلٹا میں آباد افراد ذریعہ معاش ختم ہونے ، بیماریوں میں اضافے اور شہروں میں نقل مکانی پر مجبور ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں جو پہلے ہی گنجان آباد ہیں- قمبرانی نے کہا ، “آپ کے جتنے جاننے والے ہیں سب میں ہیپا ٹائٹس سی مثبت آیا ہے”- یہاں کئی ایکڑ اراضی ہے جہاں کچھ نہیں اگ سکتا ، اور لوگ صرف اس وجہ سے رہنے پر مجبور ہیں کیوںکہ ان کے

پاس نقل مکانی کے وسائل موجود نہیں- انہوں نے کہا ، ان لوگوں کی حالت زار کو سمجھنے کے لئے ، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو خود ڈیلٹا کا دورہ کرنا ہوگا- 

پھر بھی  برداروں کی فریاد اور اور ماہرین کی طرف سے 2018 میں شائع ہونے والے  اپنی نوعیت کے پہلے مطالعہ میں کی جانے والی زبردست سفارشات کے باوجود، کچھ زیادہ تبدیلیاں نہیں آئیں- 

نقصان کا تخمینہ 

اس تحقیق نے کچھ چونکا دینے والے انکشافات کیے۔ انتہائی حیران کن دریافتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ، پچھلی دو صدیوں کے دوران ، ڈیلٹا میں 92٪ کمی واقع ہوئی ہے۔

ریموٹ سینسنگ اور جیو اسپاشیل  ٹولز کی مدد سے ، یونیورسٹی کے پانچ محققین کی جانب سے کئے گئے 15 ماہ طویل مطالعے میں یہ دریافت ہوا کہ سیلابی میدانوں کا تقریبا 60 فیصد ساحل بنجر تھا ، جبکہ 32٪  زیر آب تھا- مصنوعی سیارے کی تصاویر سے یہ انکشاف ہوا کہ سن 1990 میں مینگروز والا سیلابی میدان 16فیصد سے کم ہوکر 10 فیصد  ہو گیا تھا، حتی کہ2017  تک ، حکومت اور تحفظ پسندوں کی مشترکہ کاوشوں کے باوجود ، یہ  محض 13٪   تک بڑھ  سکا- 

تحقیق کی قیادت کرنے والی جامشورو میں مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی (MUET) کے پروفیسر الطاف سیال، اس کے مرکزی مصنف ہیں- انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، “جب ڈیلٹا ایک فروغ پزیر ماحولیاتی نظام تھا ، اس میں 17 ندیاں تھیں۔ آج ، صرف دو فعال ندیاں رہ گئ ہیں” –

شواہد نے درج ذیل وجوہات کی نشاندہی کی: ڈیلٹا میں دریا کے بہاو میں کمی کے نتیجے میں زرخیز مٹی کے ذخائر میں کمی ، سطح اور زیر زمین سمندری پانی کی مداخلت؛ زمینی تناسب ، سطح سمندر میں اضافہ ، آب و ہوا کی تبدیلی ، اور انسانی سرگرمیاں – ان سبھی نے دنیا کے سب سے بڑے ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک کے سکڑنے اور انحطاط میں کردار ادا کیا ہے۔  

گلیشیر اس نظام کا حصّہ ہے

جیسا کہ ہندوکش ہمالیہ کے گلیشیئر جوکہ دریاۓ سندھ کے بہاؤ 80 فیصد ہے، تیزی کے ساتھ پگھلتا ہے- ایک غیر متوقع انداز میں لیکن مختصر مدت کے لئے بڑی آبادی کو فراہمی برقرار رکھنے کے لئےکافی ہونا چاہئے- تاہم ، ناقص پالیسیوں اور نامکمل منصوبوں نے ڈیلٹا اور زمینی پانی دونوں کو تباہ کردیا- 

یہ نتائج نے رہائشیوں کے تجربات کا عکس ہیں۔  ضلع ٹھٹھہ کے کھارو چن نامی گاؤں کے قریب رہنے والے گلاب شاہ نے بتایا کہ ان کے کنبہ کے پاس 6،500 ایکڑ اراضی ہے جسے وہ بیچ کر شہر منتقل ہونا چاہتے ہیں لیکن خریدار نہیں ہیں۔ اور اگر وہ فصلیں کاشت کرنا چاہیں بھی تو ، وہ کسان ڈھونڈنے سے قاصر ہیں کیونکہ پینے کے پانی کی شدید قلت کے سبب لوگ اس کے گاؤں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ “میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے” گلاب شاہ کہتے ہیں- 

اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ڈیلٹا کی 88.4٪ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی تھی ، جن میں سے 31.4٪ “غریب ترین غریب” تھے- 

معیشت ماحول سے برتر ہے

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیموں اور بیراجوں کے ذریعہ زور آور دریاۓ  سندھ کوقابو  کرنا شاید سب سے بڑی غلطی تھی- ماحولیاتی ماہر اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے انڈس فار آل پروگرام کے سابق کوآرڈینیٹر ناصر پنھور کہتے ہیں، دریائے سندھ اور اس کے مضافات پر آبی ذخائر تعمیر کیے گئے تھے تاکہ زراعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات  کے  ساتھ ساتھ بعد میں صنعتی ترقی

کی ضرورتوں کو بھی  پورا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ ڈیلٹا زرخیز مٹی سے محروم  ہوگیا  ہے کیونکہ معاشی ترجیحات، ماحولیاتی نتائج غالب آگئیں جو آنے والے برسوں میں پریشانی کا باعث بنیں گی- انہوں نے دریا کے بہاؤ کی سمت موڑنے پر ڈیلٹا کے شدید انحطاط کا الزام لگایا۔  ” یہ فطرت میں انسانی مداخلت کی بدترین مثال ہے”

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور عنصر ، نہروں ، بیراجوں اور آبی ذخائر کا پیچیدہ نظام ہے- جس نے دریائے سندھ ، جہلم اور چناب سے پانی کی سپلائی ان علاقوں میں منتقل کی جہاں پہلے مشرقی دریاؤں کے ذریعہ فراہمی کی جاتی تھی- یہ انتظام ستمبر 1960 میں بھارت اور پاکستان کے مابین طے شدہ انڈس واٹرز ٹریٹی کے تحت بھارت کو جانے والے پانی کی تلافی کے لئے کیا گیا تھا۔ 

فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے برطانوی دور میں آبپاشی کا نظام تیار کیا گیا تھا ، جس نے انڈس بیسن کو ایک گنجان آباد علاقے میں تبدیل کردیا تھا- اس کے بعد سے وسیع پیمانے پر انسانی مداخلتیں منفی ماحولیاتی نتائج کا باعث بنی ہیں- 

سیال نے مزید کہا کہ ڈیموں کا ایک سلسلہ تعمیر کیا گیا تھا: 1965 میں ورسک ڈیم ، اس کے بعد 1967 میں منگلا ڈیم اور 1968-76 کے دوران تربیلا۔ 

انہوں نے متنبہ کیا کہ مزید ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے میں ڈیلٹا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر بجلی کی ضرورت ہو تو ، شاید دریا سےچلنے والے پلانٹس پر غور کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ وہ پانی کے لئے  زیادہ رکاوٹ نہیں بناتے ہیں۔ پھر بھی ، انہوں نے زور دیا کہ ہوا اور شمسی توانائی بہترانتخاب ہیں ، خاص طور پر جب دونوں وسائل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں-

حیاتیاتی تنوع کو ایک دھچکا

سیال کے مطابق ، ڈیلٹا کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ حیاتیاتی لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ “پیداواری مقامات” ہیں ، ان کا  بھرپور حیاتیاتی تنوع ہجرت کر کے آنے والے پرندوں اور جانوروں کو پناہ گاہ اور قدرتی طور پر افزائش کی جگہ  فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ، انہوں نے کہا کہ وہ ڈیلٹا اور اس کے آس پاس کے لاکھوں لوگوں کو ، خاص طور پر زراعت میں کام کرنے والے افراد کو معاش فراہم کرتے ہیں۔ 

بہرحال، بہاوپر ڈیموں کی تعمیر ، زرخیز مٹی میں کمی کا باعث بنی جس نے دریائے سندھ کے رہائشیوں کو زراعت میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا- پنہار نے 2019 ورلڈ بینک کے مطالعے کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ دریائی زرخیز مٹی جو قبل از ترقیاتی  ہر سال اندازاً  270 ملین ٹن   ہوا کرتی تھی آج گھٹ کر محض 13 ملین ٹن رہ  گئی  ہے-

“بہاؤ میں کمی کے نتیجے میں ڈیلٹا میں نمایاں کھارا پن پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے پودوں کے تنوع میں کمی واقع ہوئی ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں ڈیلٹا میں پروان چڑھنے والی آٹھ میں سے چار پودوں کی قسمیں غائب ہوگئیں- 

اس کے علاوہ ، MUET کے پاکستان – امریکہ سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز ان واٹر کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پانی کا 78٪ تک پینے یا کھیتی باڑی کے لئے نا مناسب ہے۔  اگر بدتر نہیں تو، زمینی پانی اتنا ہی خراب ہے- شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ زمینی پانی کے نمونوں میں سے 94٪ تک کلورائڈ  کی مقدار محفوظ حد سے زیادہ ہے- 

 یہاں تک کہ  ریورس اوسموسس (آر او)  پلانٹ  سے لئے گۓ پانی کے نمونوں میں ہمیں  آرسینک  کی  مقدار ڈبلیو ایچ او کی طرف سے مقرر کردہ جائز حد سے زیادہ ملی-  تحقیقاتی ٹیم کے ایک ممبر ، غلام شبیر سولنگی نے کہا جو کہ کشتیوں کے ذریعہ نالوں سے پانی اور مٹی کے نمونے اکٹھا کرنے گئے تھے۔ 

سیال نے کہا کہ شدید  انحطاط کے باوجود ، پاکستان کا سب سے زیادہ متاثرہ حصہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آبی نظام کی ناقص تفہیم

عوام یا پالیسی سازوں کے مابین اس بارے میں تفہیم بہت کم  ہے کہ دریا کا بہاؤ سمندر کے لئے کیوں ضروری ہے۔ “ڈیلٹا کو ایک ناکارہزمین سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ سے میٹھے پانی کے اخراج کو بھی ’بربادی‘ کہا جاتا ہے” ، پنھوار نے کہا- “انڈس ڈیلٹا کی اہمیت کے بارے میں ہر ایک کو شعور اور احساس دلانا ضروری ہے”- 

“اگر ڈیلٹا کو دریائے سندھ سے میٹھا پانی نہ حاصل ہوا تو یہ مر سکتا ہے”، سیال نے کہا- انہوں نے وسطی ایشیا کے بحیرہ ارال کی مثال دی جو سیریر دریا کےاوپری بہاؤ پر بند باندھنے کی وجہ سے ڈرامائی انداز میں سکڑ گیا-  

سفارشات

اس رپورٹ کے مرکزی مصنف نے بتایا ہے کہ سطحی سمندری پانی کی دخل اندازی کے لئے ، ڈائکس اور لیویز کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈیلٹا کی مقامی کمیونٹیز کے مطالبات میں شامل تھا کیونکہ اس سے انہیں کراچی کی منڈیوں تک فوری اور آسان رسائی مل سکے گی-

تاہم ، آبی وسائل کے ماہر ، حسن عباس نے کہا کہ ڈائیکس مینگروو جنگلات کے لئےضروری سمندری لہروں میں مدخل ہوتا ہے اور ڈائکس پر سڑکیں تیز سیلابوں کو سمندر میں گرنے میں رکاوٹ بنیں گی نتیجتاً آنےوالے کئی ماہ تک کمیونٹیز سیلابی میدانوں میں پھنس جائینگی- 

“ڈیلٹا کے ذریعے ساحلی شاہراہ ایک اچھا خیال ہے جب تک کہ یہ سمندری لہروں کے ساتھ ساتھ قدرتی سیلاب کے بہاؤ میں مداخلت نہیں کرتا” انہوں نے کہا- تحقیق میں 38 کلو میٹر ساحلی شاہراہوں کی لمبائی 200 کلو میٹر تک بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔

کچھ اقدامات سیال کی رپورٹ سے بہت پہلے شروع ہوچکے تھے- قمبرانی نے 87 کلو میٹر طویل سندھ کوسٹل ہائی وے کا ذکر کرتے ہوئے اسے ایک “اچھا اقدام” قرار دیا لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اسے مکمل ہونے میں ایک دہائی لگے گی۔

سیال نے مزید کہا کہ اس بات کے قطعی ثبوت موجود ہیں کہ جب بھی ڈیلٹا میں لیویز تعمیر کی گئیں وہاں سطحی سمندری پانی کا دخل  کم سے کم رہا۔ انہوں نے نیدرلینڈ کی مثال دی ، جہاں سمندری پانی کے سیلاب سے بچنے کے لئے لیویز تعمیر کی گئی ہیں- 

دیگر سفارشات میں بائیوسلین زراعت کو فروغ دینا شامل ہے۔ جس میں قدرتی آبی ذخائر میں کیکڑے اورجھینگوں کی افزائش  کی حوصلہ افزائی کی جاۓ، لکڑی کے لئے مینگروز کو زیادہ کاٹنے اور گرانےپر پابندی عائد کی  جاۓ ، اوچیٹو اور اولڈ پناری جیسے سوکھے چینلز کو بحال کیا جاۓ، نہروں جیسے پیانیاری اور پھولیلی کے آخری سرے پر پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جاۓ، اور میٹھا پانی  شامل کرکے نمکین جھیلوں کو بحال کیا جاۓ- 

لیکن  سب سے اہم بات جو اس تحقیق میں بتائی گئی وہ یہ کہ ماہرین کے بین الاقوامی پینل کی تجویز کے مطابق کوٹری بیراج کے نیچے سالانہ 8.6 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کا بہاؤ یقینی بنایا جاۓ- افسوس کی بات یہ ہے کہ ، اس رپورٹ کو عام ہونے کے تقریبا تین سال بعد بھی، حکومت کی طرف سے کسی بھی سفارش پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ 

“ہم سے ایک سال قبل وزارت منصوبہ بندی براۓ ترقی اور خصوصی اقدام نے رابطہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے ہماری تحقیق دیکھی تھی اور ڈیلٹا کے حالات کو بہتر بنانے کے طریقہ کار پر ہم سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے ، لیکن اب تک کی رپورٹ کی بنیاد پر کچھ ٹھوس کام نہیں ہوا”، USPCAS-W کے پروجیکٹ ڈائریکٹر بخشل لاشاری نے کہا۔

قانون ساز قمبرانی نے سیال کی رپورٹ کے بارے میں نہیں پڑھا تھا اور نہ ہی سنا تھا- لیکن بحرین کے ساحلی شہر بدین سے تعلق رکھنے والے فرد کی حیثیت سے ، وہ سمندری دخل ، پانی کی لاگنگ اور نمکینی کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں – 

“ہم وفاقی اور صوبائی حکومت کے نوٹس میں یہ مسئلہ لانے کے لئے  کوششیں کر کر کے تھک گۓ۔ اگرانہوں نے ڈیلٹا کی حالت زار کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو آنے والے 50 برسوں میں پاکستان کا نقشہ بدل جائے گا ، جب تمام ڈیلٹا بحیرہ عرب میں غرق ہو جائے گا”-