آلودگی

لاہور دن بدن دھند میں غائب ہوتا جارہا ہے

حکام بھارت کو مورد الزام ٹھہرا رہے  ہیں، اگرچہ ہوا دوسری سمت سے چل رہی ہے-
اردو

 لاہور کی رہائشی ، ارم محسن ، اس سال موسم سرما کی آمد سے پریشان تھیں۔

کوویڈ ۔19 کی دوسری لہر کے دوران ، جس نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، یہ شہرجیسے دھند کے ایک کمبل میں لپٹا ہوا ہے۔ “ہوا میں دھاتی بو بسی ہوئی ہے ، جلد پہ خارش محسوس ہوتی ہے اور جسم پردھول جمنے کا ایک احساس ہوتا ہے ،” ارم محسن کہتی ہیں- 

“ایک بھورے رنگ کی کہر نمایاں ہے جس نے آسمان کو دھندھلا دیا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک پرانی سیپیا تصویر دیکھ رہے ہیں-“

اسکول پرنسپل کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتیں ان کے مطابق “کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو مکمل نظرانداز کردیا گیا اور اکتوبر سے کورونا وائرس کا دوبارہ آغاز ہوگیا” – وہ دیکھ رہی ہیں کہ ان کے خاندان اور ساتھیوں کو ” سانس لینے میں شدید دشواری ہورہی ہے”- 

لاہور اور فیصل آباد کا  ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) نومبر کے اوائل میں ہمسایہ بھارت کے نئی دہلی سے بھی بدتر تھا.- فیصل آباد میں 440 اور لاہور 321 ریکارڈ کیا گیا جس میں باریک ذرّات (PM2.5) کی مرتکز مقدار 270 مائکرو گرام فی مکعب میٹر (μg / m³) تھی- 2.5 مائکرون سے چھوٹے ذرّات خاص طور پر خطرناک ہیں کیونکہ یہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ پھیپھڑوں اور خون کے دھارے میں داخل ہوسکتے ہیں۔

جولائی 2019 (بائیں) اور نومبر 2020 (دائیں) کو مین بولیورڈ گلبرگ لاہور کے رہائشی نے ایک آفس سے علاقے کی تصویر لی ہے جو یہ منظر پیش کررہی ہے۔ [تصویر بشکریہ احمد مزمل]
جولائی 2019 (بائیں) اور نومبر 2020 (دائیں) کو مین بولیورڈ گلبرگ لاہور کے رہائشی نے ایک آفس سے علاقے کی تصویر لی ہے جو یہ منظر پیش کررہی ہے۔ [تصویر بشکریہ احمد مزمل]

عالمی ادارہ صحت کی رہنما ہدایات PM2.5 کے لئے 25 μg / m³، ریاستی حکومت کی 35 μg / m³- 

پاکستان کے اسپیس اینڈ اپرایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپرکو) کے مطابق  پنجاب کے 36 اضلاع میں سے 28 اضلاع میں اس نومبر دھواں کی سطح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ امریکی سفارتخانہ ، جو ریئل ٹائم AQI ڈیٹا رکھتا ہے ، مستقل طور پر ناقص اعداد دکھا رہا ہے۔ 

سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے تجزیہ کار، داور بٹ کہتے ہیں، “300 سے اوپر کی اے کیوآئ کے لئے – جو کہ مضر ہے – اگر ایک گھنٹے سے زیادہ عرصہ کے لئے اے کیو آئی یہی رہتا ہے تو پروٹوکول کے مطابق  وارننگ دینی چاہیے-” لیکن کوئی انتباہ نہیں دیا گیا، صرف سرکاری ویب سائٹ پر مشورے دیے گۓ- 

دی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے شہر میں صرف تین مانیٹر ہیں ، جبکہ داور بٹ کا  کہنا ہے کہ نظریاتی طور پر کم از کم 30 ہونے چاہئیں۔ بدقسمتی سے ان تینوں سے حاصل کردہ معلومات کے حوالے سے بھی شبہات تھے۔ “لاہور کا مرکزی حصہ (جیل روڈ) سب سے زیادہ آلودہ ہے ، لیکن کسی وجہ سے یہاں کے PM2.5 کی سطح مضافاتی علاقوں سے بہت کم ہے۔” 

پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے ڈائریکٹر جنرل خرم شہزاد  “انتہائی پیچیدہ حکومتی مانیٹروں کے  ذریعہ ماہرین جو اعداد و شمار کررہے ہیں” ان کی صداقت کے بارے میں پراعتماد ہیں- وہ پر امید تھے کہ اس سال کا دھواں پہلے کی نسبت کم مہلک ہوگا۔ 

شہزاد نے کہا ، “ہم جانتے ہیں کہ پابندی کے باوجود بھوسہ جلانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے ، لہذا ہم سپارکو کی طرف سے بھیجے گۓ گرمی کے نقشے متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو بھیجتے ہیں تاکہ جلد اقدامات کیے جائیں- نومبر کے پہلے ہفتے میں ، سپارکو نے 1،290 علاقوں کی نشاندہی کی جہاں بھوسہ جلایا جا رہا ہے۔ 

اس کی تائید صحافی فرح ناز زاہدی نے کی۔ پنجاب سے گزرتے ہوئے ، انہوں نے دیکھا “کھیتوں کی بڑی تعداد سے دھواں نکل رہا ہے۔”  دن کے وقت بھی حد نظر محدود تھی- 

“اسموگ کی وجہ سے ہم اپنی گاڑی کے شیشے نیچے نہیں کر سکتے تھے لہذا ائر کنڈیشنگ پہ گزارہ کرنا پڑا۔” شہزاد نے بتایا کہ حکومت نے انوائرنمنٹل کنٹرول سسٹم (ای سی ایس) کے بغیر چلنے والی 366 فیکٹریوں کو سیل کردیا ہے۔ “ہم نے 140 اضافی فیکٹریاں بھی بند کردیں جو پلاسٹک اور ربڑ کو بطور ایندھن استعمال کررہی تھیں۔” ایسے کارخانے بھی ہیں جن میں ای سی ایس موجود ہیں لیکن ان کواستعمال نہیں کرتے۔ شہزاد نے کہا ، “ان پر نگاہ رکھنے کے لئے ، ہم نے سی سی ٹی وی لگایا ہے اور اپنے دفاتر سے ان پر نظررکھ سکتے ہیں۔” 

اس علاقے کے 7،530 اینٹوں کے بھٹوں میں سے 1،268 کو توانائی سے چلنے والی زگ زیگ ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا گیا ہے جس سے کوئلے کے استعمال میں تقریبا  20 فیصد کمی واقع ہوتی ہے- 5،200 بھٹوں کو 31 دسمبر تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم ، بہت سارے  ابھی بھی رہے ہیں کیونکہ پنجاب میں تقریبا 80٪ تعمیرات اینٹوں کا استعمال کرتی ہیں- 

بھٹوں پر تقریبا 2. 23 لاکھ روزانہ اجرت کے ملازمین کام کررہے ہیں- 

ہوا صاف کرنے والی مشینوں کے استعمال میں اضافہ

ماہرین صحت نے پچھلے چار سالوں میں لاہور میں سانس کی بیماریوں ، آنکھوں کے انفیکشن اور الرجی میں شدید اضافہ دیکھا ہے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ آلودہ ہوا ڈپریشن، الزائمر اور یہاں تک کہ ناقص تعلیمی کارکردگی کا باعث ہے۔ 

“پھیپھڑے آلودگی، بشمول تمباکو نوشی سے خراب ہوجاتے ہیں اور وہ کسی بھی طرح کے بیکٹیریل ، وائرل یا فنگل انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں”، انڈس اسپتال میں متعدی امراض کے شعبہ کی سربراہ نسیم صلاح الدین نے بتایا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ  کمزور پھیپھڑوں والے افراد کو کوڈ – 19 سے متاثر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

دسمبر 2019 کی لاہور کے شالیمار گارڈن کی ایک اور تصویر- [تصویر بشکریہ ندا سہیل چودھری]
دسمبر 2019 کی لاہور کے شالیمار گارڈن کی ایک اور تصویر- [تصویر بشکریہ ندا سہیل چودھری]

وکیل خالد ابراہیم ، جو گالف کے شوقین ہیں ، مگر ساتھ ہی دمہ کے مریض ہیں، وہ اس سیزن میں گولف کلبوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں- انہوں نے کہا ، “لاہور میں گولفنگ کے لئے موسم خزاں اور موسم سرما کا وقت بہترین ہے۔” لیکن ان کے “گلے میں  خراش ہورہی ہے” اور وہ “ہوا میں راکھ کی بو محسوس کررہے ہیں”۔ 

گذشتہ سال انہوں نے تقریبا  40،000 روپے  (254 امریکی ڈالر) میں ایئر پیوریفائر خریدا تھا جس نے واقعی میں مدد کی تھی۔ “میں اب بہت بہتر سوتا ہوں”۔ 

ایک 32 سالہ کمپیوٹر انجینئر ، حسن ایس زیدی نے اپنے لاہور کے گھر میں آٹھ ایر پیوریفائر لگائے ہیں ، یہ سب انہوں نے خود بناۓ تھے۔ انہوں نے کہا ، “میں اپنی دو بیٹیوں اور اپنے والدین کے لئے پریشان تھا۔”   وہ تین سالوں سے ان پیوریفائر کو استعمال کررہے ہیں۔ “میں صرف سالانہ فلٹر کو تبدیل کرتا ہوں۔”

خبر پھیل گئی اور زیدی نے دوستوں کے لئے پیوریفائر بنانا شروع کیا۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا ، “پچھلے سال میں نے ایک سو پیوریفائر ایک دوست کی دکان پر رکھواۓ تھے اور وہ تمام فروخت ہوگئے تھے۔” انہوں نے پچھلے سال تقریبا ایک ہزار پیوریفائر 16000 روپے   (102 امریکی ڈالر) میں فروخت کیے۔ اس سال ، وہ توقع کر رہے ہیں کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے اس کی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوگا۔

گاڑیوں سے دھویں کا اخراج سب سےبڑی وجہ ہے

اگرچہ فصلوں کو جلانے اور اینٹوں کے بھٹوں کو ہوا کی آلودگی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ، لیکن مائکرو کلائمیٹ کے ایک ماہر مومن عمران شیخ نے بتایا کہ لاہور ، فیصل آباد ، ملتان ، بہاولپور ، گوجرانوالہ اور راولپنڈی جیسے شہروں میں گاڑیوں سے دھویں کا  اخراج وجہ ہے۔

ای پی اے کے شہزاد نے بتایا کہ اکتوبر کے بعد سے ، لاہور ٹریفک پولیس نے 700 سے زائد گاڑیاں پکڑیں اور دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں سے 25 لاکھ روپے (15،865 امریکی ڈالر) جرمانہ وصول کیا۔ 

سالوں سے ، حکومت پنجاب سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ایک سویڈش وہیکل فٹنس سرٹیفیکیشن کمپنی ، جو 2016 میں قائم ہوئی تھی ، کو پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں مراکز قائم کرنے کا کام سونپا گیا تھا لیکن یہ اب تک غیر فعال ہے۔ گذشتہ ہفتے ، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے کہا تھا کہ وہ اس نظام کو دوبارہ فعال کریں۔ 

ماحولیاتی وکیل اور لاہور کے رہائشی رافع عالم خان نے کہا ، “یہ ہمیشہ گاڑیوں کے معائنے کے نظام کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن میں نے کبھی کچھ ہوتے ہوۓ نہیں دیکھا۔” ان کے پاس بھی اپنی کار کے لئے کوئی سند نہیں ہے۔ 

عمران شیخ نے بتایا کہ کوڑا کرکٹ جلانا لاہور میں آلودگی کی ایک اور وجہ ہے۔ “اس پر پابندی عائد ہے ، لیکن بلا روک ٹوک جاری ہے۔” شہر میں روزانہ تقریبا 6000 ٹن کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے۔ یہ  کچرا لاہور کے واحد لینڈ فل سائٹ تک بہت کم ہی پہنچتا ہے، جو بہرحال اپنی گنجائش تک پہنچ چکا ہے۔ 

بھارت سے آنے والی ہواؤں کو الزام

ای پی اے کے ترجمان نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ پاکستان میں فصلوں کی آتش زدگی کا سلسلہ جاری ہے ، یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ملحقہ علاقوں میں یہ مسئلہ “200 گنا زیادہ خراب ہے” ، اور اس سے ہم پر اثر پڑ رہا ہے کیونکہ سرحد پار سے ہوا چلتی ہے۔

تاہم ، عمران شیخ نے ، نشاندہی کی کہ موسم خزاں میں ، شمال مغرب سے جنوب مشرق تک ، پاکستان سے ہندوستان تک ہوا چلتی ہے۔