آب و ہوا

پاکستان پانی کے پیاسے گنے کے لئے کپاس سے دور ہو رہا ہے

گنے کی منافع بخش کاشت، ساتھ ہی سخت موسمیاتی جھٹکے برداشت کرنے کی صلاحیت نے کسانوں کو کپاس کی کاشت سے دور کردیا ہے-
اردو
<p>Due to lack of investment, research and helpful policies, cotton is making way for sugarcane in Pakistan [image courtesy: CABI]</p>

Due to lack of investment, research and helpful policies, cotton is making way for sugarcane in Pakistan [image courtesy: CABI]

 ” کپاس کے کاشتکاروں کے لئے گزشتہ سال پوری دہائی کے دوران سب سے مشکل رہا” ، جنوبی صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے ایک 54 سالہ کاشتکار قاضی عبدل ستار کہتے ہیں- ستار اپنے کھیت میں کپاس کی 60 فیصد کم پیداوار کا حوالہ دے رہے تھے- انہوں نے بتایا کہ جو تھوڑی بہت فصل ہوئی بھی  تو وہ سفید مکھیوں کے حملے کی وجہ کرکم معیار کی تھی- اس سال انہوں نے اپنی 70 ایکڑ زمین ‘زیادہ منافع بخش’ فصل یعنی گنے کے لئے تیار کی ہے- 

کپاس کی کم پیداوار کے پیچھے اور بھی عوامل کارفرما رہے- ستار،  درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ اور غیر متوقع بارشوں کو الزام دیتے ہیں جن کیوجہ سے کپاس کی فصل تباہی کا شکار ہوئی- کپاس کلی سے لیکر پھول کی تشکیل تک مختلف حساس مدارج  سے گزرتی ہے جن میں نمی کا خاص کردار ہے- 

ان مشکل حالات کا شکار وہ اکیلے نہیں  ہیں- صوبہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں، کھیت کی مالک رابعہ سلطان کپاس بیلٹ کے ان کاشت کاروں  میں سے ایک ہیں، جو، ایک دہائی کے دوران، گنے کی کاشتکاری کی طرف مائل ہوئے ہیں۔

1.5 ملین مرد کاشتکاروں پر مبنی کمیونٹی میں رابیعہ سلطان خاتون  ہونے کی وجہ کپاس کی ایک منفرد کاشتکار ہیں وہ کہتی ہیں کہ “گرمی کا تناسب ابنارمل رہا ہے”- وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح درجہ حرارت میں اچانک دس ڈگری اضافے سے کپاس کے پھول تیار ہونے سے پہلے ہی  جھڑ جاتے- ” میں نےآج تک ستمبر کر مہینے میں اتنی سخت گرمی نہیں دیکھی”-

2017 میں پنجاب میں سب سے زیادہ کپاس کی پیداوار کے لئے پہلی انعام وصول کنندہ رابیعہ سلطان کہتی ہیں کہ کپاس کے سکڑتے کھیت دیکھ کر انہیں افسوس ہوتا ہے- “کپاس ایک ایسی فصل ہے جسے صرف خواتین ہی چنتی ہیں ، لہذا اس میں کمی خواتین کے کام کا امکان کم کردے گی- یہ ایک موقع ہے جو ان سے چھن گیا ہے”- 

رابیعہ سلطان نے گذشتہ سال اپنے  100 ایکڑ کپاس کیے کھیت میں نصف حد تک کمی کردی تھی اور اب وہ زیادہ منافع بخش گنے اور چاول کی فصل کے لئے اس میں مزید کمی  کریں گی- 

“کپاس ایک ایسی فصل ہے جسے صرف خواتین ہی چنتی ہیں ، لہذا اس میں کمی خواتین کے کام کا مواقع کم کردے گی- یہ ایک موقع ہے جو ان سے چھن گیا ہے” رابیعہ سلطان کا کہنا ہے -( تصویر بشکریہ سی اے بی آئی)

اس میں کوئی  عجیب بات نہیں کہ گنے کی  کاشت کو بطور بہتر ‘متبادل’  دیکھا جارہا ہے- یہ ناصرف موسم کے اتار چڑھاؤ کو برداشت کر سکتا ہے بلکہ اس میں افرادی قوت بھی کم لگتی ہے- ساتھ ہی یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ شوگر انڈسٹری کو سیاسی اشرافیہ اور بااثر زمینداروں کے خاندانوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے اور نتیجتاً انڈسٹری سازگار پالیسیوں سے محظوظ ہوتی رہی ہے- 

یہ شوگر ملوں کے بااثر مالکان کا  اثر و رسوخ ہے جن کی گنے کی کاشت کے لئے سازگار پالیسیوں نے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے مل کر پاکستان  میں کپاس کی پیداوار کو متاثر کیا ہے- یہ معاملہ کپاس کے لئے تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی کمی سے پیچیدہ ہوگیاہے- جس کے نتیجے میں فصلوں کا معیار ناقص، مارکیٹ میں کم قیمت اور صنعت میں نمو رک گئی ہے- اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ، پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے پانچویں نمبر جیسی  قابل فخر پوزیشن سے محروم ہوجاۓ گا- 

نہ صرف کپاس اور اس کی مصنوعات مجموعی ملکی  پیداوار کا 10 فیصد ہیں بلکہ یہ ملک کی غیر ملکی زرمبادلہ کا 55٪  بھی کماتے ہیں- 2018 میں پاکستان کی کل برآمدات جوکہ 23.7 بلین امریکی ڈالر تھی، کا  50 فیصد سے زائد حصّہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا رہا ہے جو تقریباً 13.53 بلین امریکی ڈالر بنتا ہے- 

کپاس سے گنے تک منتقلی دونوں فصلوں کے لئے تیار کی جانے والی زمین میں تبدیلی سے ظاہر ہے- کپاس کی کاشت کرنے والے کھیتوں میں پچھلے پانچ سالوں میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ گنے میں گذشتہ آٹھ سالوں میں 40٪ کے قریب اضافہ دیکھنے میں آیا ہے- کاشتکار 14.4 ملین گانٹھوں کے ہدف کے مقابلہ میں بمشکل 9.86 ملین گانٹھ روئی جمع کر سکے تھے- اس سال ، پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے 15 جنوری تک جننگ فیکٹریوں میں پہنچنے والی روئی کی فصل میں 20٪ کمی ریکارڈ کی- اس کے نتیجے میں ، ٹیکسٹائل کی صنعت پاکستان کی برآمدات میں اپنی شراکت کو یقینی بنانے کے لئے خام کپاس کی درآمد پر مجبور ہوگئی- 

“پاکستان کا مقامی مطالبہ رسد سے تجاوز کر گیا ہے ، اور جس نے ہمیں خام کاٹن کی درآمد پر تقریبا 2 2 ارب ڈالر تک خرچ کرنے پر مجبور کردیا ہے” ،ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سربراہ حماد نقی خان نے بتایا- بطور نقد فصل ، کپاس کا ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں اہم کردار ہونا چاہئے ،مزید یہ کہ وزیر اعظم کے زرعی ایمرجنسی پروگرام میں اسے ترجیح کے طور پر شامل کیا جانا چاہئے، انہوں نے کہا- 

تاہم ، حقیقت بالکل مختلف ہے۔ جبکہ گندم ، چاول اور گنے کی پیداوار بڑھانے کے لئے 19.3 بالترتیب  بلین روپے (115 ملین امریکی ڈالر) ، 11.4 بلین روپے(68 ملین امریکی ڈالر) اور 4 ارب روپے(24 ملین امریکی ڈالر) مختص کیے گۓ ہیں کپاس حکومت کی ترجیحی فہرست میں کہیں نہیں ہے- 

سندھ سے  پنجاب تک کاشتکاروں کی ایک ہی پریشانی ہے- ” میں اس بار کپاس کم اور گنے کی کاشت زیادہ کروں گا”، پنجاب کے کپاس  بیلٹ میں صادق آباد کے ایک کسان حسن عبداللہ کا کہنا ہے- “اس سے پہلے کہ کپاس کی کاشت قابل عمل ہو یا تو فروخت کی قیمت میں اضافہ ہونا چاہئے یا کھاد ، ڈیزل ، اور کیمیکل جیسے اخراجات کی لاگت میں کمی ہونا ضروری ہے”،  انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا-

کپاس موسمیاتی اتار چڑھاؤ برداشت نہیں کرسکتی

جیساکہ ماحولیاتی تبدیلی ‘قابو سے باہر ‘ ہوتی جارہی ہے بہت سے کاشتکار بتدریج گنے جیسے ‘محفوظ’ متبادل کی طرف جا رہے ہیں- کپاس بہت حساس فصل ہے اور کیڑوں کو مرغوب بھی ہے- غیر موافق موسم کے پیش نظر، جاندار فصلوں کی طرف رجوع کرنا عقلمندی ہے”، سندھ میں مقامی کسانوں کی تنظیم کے نائب صدر محمود نواز شاہ کہتے ہیں جنہوں نے متبادل راستہ اختیار کیا- 

سندھ میں تھر کے علاقوں جیسے پانی کی قلت والے خطوں میں بھی گنا اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے- ( تصویر بشکریہ طاہر سلیم )

فیصل آباد میں قائم گنے کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے سی ای او شاہد افغان بھی اس پر اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے گنے کو ‘تناؤ برداشت کرنےوالی گھاس’ قرار دیا- 

” گنے کو پانی کی کمی کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابلے میں مستقل مزاجی کی بنا پر ترجیح دی جاتی ہے” شاہد افغان کا کہنا ہے- ” اگر سیلاب آجاۓ تو کپاس اور چاول جیسی فصلیں شاید مکمّل تباہ ہوجائیں- لیکن گنا تباہی سے بچ جائیگا اور تقریباً دو ماہ تک پانی میں کھڑا بھی رہے گا- پیداوار کو شاید دھچکا لگے لیکن کاشتکار کا مکمّل نقصان نہیں ہوگا اس کے برعکس کپاس کے ساتھ معاملہ مختلف ہے”- 

یہی ایک وجہ ہے کہ پاکستان برازیل ، ہندوستان ، تھائی لینڈ اور چین کے بعد چینی کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے- 

ماحول کا نقصان لیکن سیاست کی خی

کپاس سے گنے کی طرف منتقلی کوئی راتوں رات نہیں ہوئی- رابیعہ سلطان کہتی ہیں ، ” یہ گذشتہ کئی دہائیوں کی ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو پہلے سے طے شدہ یا ڈیزائن کے لحاظ سے شوگر مل مالکان کے حق میں رہیں ہے- ان میں سے بہت سے لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں یا سیاسی حمایت رکھتے ہیں”- 

بااثر شوگر مل مالکان سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں جوپالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں- جب بات سیاسی روابط کی ہوتی ہے تو بلا شبہ ٹیکسٹائل مل مالکان بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں- لیکن ان کا اثرورسوخ شکر کے بادہشاہوں کے مقابل کچھ بھی نہیں- حقائق کی روشنی میں پاکستان کی گزشتہ تین حکمران جماعتوں کے شوگر انڈسٹری سے مضبوط روابط رہے ہیں- در حقیقت ، اس ہی ہفتے، حالیہ چینی بحران کے بارے میں وفاقی تحقیقات میں وزیر اعظم عمران خان کے ایک قریبی ساتھی کا نام لیا گیا تھا۔ 

دستاویزات کیمطابق، بہت سے کسانوں نے فصل زوننگ کے بارے میں بات کی ہے- حتیٰ کہ گنے کی کاشت کرنے والے کاشتکار بھی اپنی فصلوں کو متنوع کرنا چاہتے ہیں ، کیونکہ وہ فصلوں پرموسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے فکرمند ہیں- اگرچہ موسمیاتی فصلوں کے زون موجود ہیں لیکن انتظامیہ ناقص ہے- جنوبی پنجاب میں کینال کے خطّے میں گنے کی افزائش جاری ہے حالانکہ یہاں اسکی پانی کی طلب مشکل سے پوری ہوپاتی ہے- 

گندم کو کپاس  کی نسبت 16 بار پانی پلایا جانا ضروری ہے، جبکہ کپاس کو ایک موسم میں چھ سے آٹھ مواقع پر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔  شاہد افغان کے مطابق، گنے کی فصل کے لئے ہر سال اتنا پانی استعمال ہوتا ہے جتنا ملک کے دوسرے بڑے ڈیم، منگلا ڈیم میں ذخیرہ ہوتا ہے – 

پائیدار ترقی کے امور پر کام کرنے والے ایک پاکستانی تھنک ٹینک ، ایل ای اے ڈی نے گنے کے لئے پانی کے استعمال کو دوگنا قرار دیا ہے ، یعنی فصل کو شمالی آب و ہوا والے علاقوں میں ایک ہزار ملی میٹر سے لے کر جنوبی ، بنجر علاقوں میں 1،900 تک  پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کپاس کو متعلقہ علاقوں میں پانی کی ضرورت 587 ملی میٹر اور ایک ہزار ملی میٹر ہے۔

ملتان میں قائم قومی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی سی آر آئی) کے ڈائریکٹر زاہد محمود کا کہناہے  کہ کپاس کو گنے سے زیادہ توجہ اور سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ ایک مشکل پودا ہے- کسان کو سخت چلچلاتی گرمی میں مہینوں کھیتوں پر رہنا پڑتا ہے- اس کے برعکس گنے کیلئے صرف کٹائی کےوقت افرادی قوّت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے- 

آج، سندھ میں 38 اور پنجاب میں 50 شوگر ملیں ہیں جن میں سے تقریباً 40 سیاستدانوں کی ملکیت ہیں- یہ 5.6 ملین ٹن کی ملکی طلب کو آرام سے پورا کرسکتے ہیں- پاکستان میں کل 95 ملیں ہیں۔

“ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی سے زیادہ پیدا کرتے ہیں مزید ملیں لگانے کی ضرورت نہیں” ، شاہد افغان کہتے ہیں- 

پائیدار ترقی کے امور پر کام کرنے والے ایک پاکستانی تھنک ٹینک ، ایل ای اے ڈی نے گنے کے لئے پانی کے استعمال کو دوگنا قرار دیا ہے ، یعنی فصل کو شمالی آب و ہوا والے علاقوں میں ایک ہزار ملی میٹر سے لے کر جنوبی ، بنجر علاقوں میں 1،900 تک  پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کپاس کو متعلقہ علاقوں میں پانی کی ضرورت 587 ملی میٹر اور ایک ہزار ملی میٹر ہے۔

ملتان میں قائم قومی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی سی آر آئی) کے ڈائریکٹر زاہد محمود کا کہناہے  کہ کپاس کو گنے سے زیادہ توجہ اور سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ ایک مشکل پودا ہے- کسان کو سخت چلچلاتی گرمی میں مہینوں کھیتوں پر رہنا پڑتا ہے- اس کے برعکس گنے کیلئے صرف کٹائی کےوقت افرادی قوّت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے- 

آج، سندھ میں 38 اور پنجاب میں 50 شوگر ملیں ہیں جن میں سے تقریباً 40 سیاستدانوں کی ملکیت ہیں- یہ 5.6 ملین ٹن کی ملکی طلب کو آرام سے پورا کرسکتے ہیں- پاکستان میں کل 95 ملیں ہیں۔

“ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی سے زیادہ پیدا کرتے ہیں مزید ملیں لگانے کی ضرورت نہیں” ، شاہد افغان کہتے ہیں- 

جینیاتی طور پر تبدیل کیے گۓ بیج

“موسمی اثرات ہی صرف گنے کی  طرف منتقلی کی اہم وجہ نہیں ہیں۔ ہوسکتا  ہے بدلتی آب و ہوا نے کپاس کے لئےچیلنجوں کو بڑھاوا دیا ہو، لیکن گنے کی طرف منتقلی  کے لئے اسے مکمل طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے” ، شاہد افغان کہتے ہیں، جن  کے پاس گنے کی فصل کی پیداوار کی تحقیق ، ترقی اور جدت طرازی کا 30 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ زراعتی تکنیکوں کے بارے میں کم تحقیق اور بیجوں کے معیار کو بہتر بنانے میں ناکامی ، اہم عوامل ہیں- 

انکا کہنا ہے کہ کپاس کی فصل کی مشکلات جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بی ٹی کپاس متعارف کرانے کے ساتھ  شروع ہوئی جو کیڑوں کے مسئلہ سے دوچارتھی۔ “یہ عجیب بات ہے کہ اگرچہ ہم جینیاتی طور پر نظر ثانی شدہ (جی ایم) گنا، مکئی اور چاول نہیں اگاسکتے ہیں ، جبکہ جی ایم روئی جیسی غیر غذائی فصل کی اجازت ہے”- 

انہوں نے کہا کہ اس عمل نے غذائی کڑی کو آلودہ کردیا ہے ، کیونکہ بی ٹی کپاس  مویشیوں ، تیل اور فائبر کے لئے ذریعہ بیج ہے- “یہی وجہ ہے کہ ہم کیڑوں کے مسئلہ پر قابو نہیں پا سکتے”- 

صادق آباد کے کسان عبد اللہ کہتے ہیں، “بی ٹی اپنی افادیت  کھو چکی ہے اور اب اس سے کوئی فوائد حاصل نہیں ہورہے۔ کیڑوں نے ان کے خلاف مدافعت حاصل کرلی ہے”-  اس شعبے میں تحقیق کی سراسر کمی نے اس مسئلے کو اور بڑھادیا ہے- اگر ہمیں کیڑوں پر قابو پانا ہے تو بی ٹی جینز کو مسلسل بہتر بنانا ہوگا- باقی دنیا نے یہی عمل اپنایا ہے اور بی ٹی کی اب چوتھی نسل میں ہے۔ اور ہم پہلی نسل سے  ہی آگے نہیں جا سکے ہیں” عبدللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوۓ کہا- 

مارکیٹ میں کیڑے مار دواؤں کی بھرمار اور بی ٹی کاٹن پر ان کی ’اندھے‘ استعمال کے نتیجے میں کچھ کیڑے بیماریوں کے خلاف مزاحم بن گئے- اس کے برعکس ، فصلوں اور ماحول کو صحت مند رکھنے کے لئے درکار ماحول دوست کیڑے مارے گۓ- ہمارے کسان جو ان پٹ خریدنے کے لئے لیے گۓ قرضوں میں جکڑے ہوۓ تھے انھیں پھسلا کر اورزبردستی یہ کیڑے مار دوائیں خریدنے پر مجبور کیا گیا-

لاعلم اور غیر تعلیم یافتہ کسانوں نے اکثر غلط وقت پر ضرورت سے زیادہ اسپرے کیا ، جس سے کپاس کی فصل کو نقصان پہنچانے والے ان کیڑوں کو ختم کرنے والے ماحول دوست کیڑے بھی ختم ہوگئے- نقصاندہ کیڑوں نے آگے جاکر کیڑے مار دواؤں سے مدافعت حاصل کرلی”، شاہد افغان بتاتے ہیں- 

عبداللہ نے بتایاکہ ان جیسے کسان ، پانچ چھ ماہ کی مدت میں اپنی کپاس کی فصل پر آٹھ سے 15 راؤنڈ کیمیکل چھڑکتے ہیں ، کیونکہ وہ کیڑوں سے بچنے والی اقسام نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ، آسٹریلیا میں زیادہ سے زیادہ اسپرے کے دو راونڈ کا چھڑکاؤ کیا جا تا ہے اور باقی انتظام حیاتیاتی لحاظ سےکیا جاتا ہے- 

“مسئلے کاحل جینیاتی اور انتظامی اقدام میں مضمر ہے اور ہم دونوں محاذوں پر ہار چکے ہیں”، عبدالله کا کہنا ہے- اگرچہ کیڑے مار دوائیوں کے غلط استعمال کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں ، تاہم آبادگار کے شاہ “کسانوں کی رہنمائی کے لئے توسیعی خدمات کی عدم موجودگی” کو موردالزام ٹھہراتے ہیں، اس بات کی تائید عبدالله  بھی کرتے ہیں- 

منافع کا سوال ہے

کپاس کاشتکاری کو “ناممکن” بنانے کا ایک اور چیلنج  پیداوار کی زیادہ لاگت ہے- 

“کسان اسی طرف  رخ کریں گے جو بہتر بکے گا” رابیعہ سلطان کہتی ہیں- “جب انہیں دہلیز پر فصل کے خریدار ملنے لگے انہوں نے گنا اگانا شروع کر دیا- انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ایک فصل کو دوسری فصل کو فروغ دینے میں مدد نہیں کرتی ہے اور اگر پیداوار اور کیڑے مار ادویات کی لاگت میں اضافہ جاری رہتا ہے تو ، کپاس کو کوئی  نہیں پوچھے گا- 

کاشتکار وہی لگائیں گے جو اچھا بکے گا۔ دادو سنگھ اپنی گنے کی فصل کے ساتھ- ( تصویر بشکریہ طاہر سلیم )

عبدالله کہتے ہیں  ،”کیڑے مار دوا ہمارے سب سے بڑے اخراجات ہیں ، اس کے بعد کھاد اور ڈیزل آتے ہیں” – گنے سے کپاس کا موازنہ کریں جس کی فی ایکڑ پیداوار کی لاگت زیادہ سے زیادہ 300-360 امریکی ڈالر ہے جبکہ کپاس کے لئے  فی ایکڑ لاگت 360-470 امریکی ڈالر آتی ہے- 

“ایک کاشتکار کے ذہن کے میں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ فصل سےفائدہ ہوگا یا یہ  بیماری سے تباہ ہوجائے گی” عبدالله مزید بتاتے ہیں- 

افغان نے اس نظریہ کی تائید کی “کسان کا فصل اُگانے کا فیصلہ قومی مفادات ، یا کپڑا کی صنعت کے لئے روئی کی ضرورت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہی فارم کی معاشی صحت پر منحصر ہوتا ہے”-  انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک اہم کھلاڑی ہے وہاں بھی بہت کم کپاس کی کاشت ہوتی ہے- 

ایس آر ڈی بی کے سربراہ نے بتایا کہ گنا، کپاس کے مقابلے میں بہتر منافع دیتا ہے، جبکہ کپاس کی قیمت  بین الاقوامی اجناس کی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہے- پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے- 

گنے کی پیداوار کی لاگت کپاس کے مقابلہ میں کم اس لئے بھی ہے کیونکہ اس میں بیج کی بوائی کی ضرورت نہیں- 

“جب کسان گنے کی فصل کاشت کرتا ہے تو ، وہ عام طور پر تھوڑا سا تنا اور جڑ زمین میں چھوڑ دیتا ہے اور اس سے ایک نیا پودا اگتا ہے” افغان نے بتایا کہ کس طرح یہ عمل لاگت کو کم کرتا ہے- یہاں تک کہ سندھ میں ، جہاں 80 فیصد سے زیادہ فصل کو بیج کی ضرورت ہوتی ہے ، بیج اسی گنے سے آتا ہے یا نئی ٹیسٹ شدہ ورائٹی سے – 

حکومتی مداخلت کی گنجائش 

سینئر ماہر معاشیات اور ایک کاشتکار ، پرویز عامر کہتے ہیں کہ حکومت کو کپاس کے کاشتکاروں کے لئے  اضافی اقدامات کرنے چاہئیں- انہوں نے کہا ، کھاد کی قیمتوں میں کمی کے حالیہ اعلان پرآج تک عملدرآمد نہیں ہوا- انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسے دوسرے ممالک کی قیمتوں کے برابر لایا جائے۔

 

سی سی آر آئی کے ڈائریکٹر محمود نے بتایا کہ ہندوستانی کسان کے لئے کھاد کی قیمت 50 کلوگرام پر 1.65 امریکی ڈالر ہے لیکن پاکستان کاکسان ہر 50 کلوگرام پر 12.24 امریکی ڈالر کی قیمت ادا کرتا ہے- “صرف کھاد ہی نہیں ہے ، موسم جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے ساتھ ہی ان پٹ کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کرتی”-

رابیعہ سلطان نے بتایا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد ، زراعت صوبوں کے حصّے میں آیا ہے اور  کسی زمانے کا فعال نیشنل کاٹن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آر اینڈ ڈی) انسٹی ٹیوٹ غیرفعال ہو گیا ہے-

سلطان نے کہا کہ “ٹیکسٹائل کی صنعت میں بھی کپاس کی دم توڑتی فصل کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیڑوں سے بچنے والی نئی اقسام تیار ہونی چاہییں جو بہتر پیداوار دیں اور ساتھ پیداواری لاگت کم آۓ”-  دراصل ، پاکستان کی زراعت میں تحقیق اور توسیع کی خدمات کے مابین منقطع رابطےنے اس مسئلے کو بڑھاوا دیا ہے، عبدالله کہتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ فصل ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے ، اور یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ کپاس کی فصل میں فی ایکڑ پیداوار کے لئے پاکستان دنیا میں 13 ویں نمبر پر ہے-

 امید کی کرن

ان تمام پریشانیوں کے باوجود کپاس کی فصل اور کاشتکاروں کے لئے صورتحال مایوس کن نہیں- اگرچہ وہ رقبہ جہاں کپاس کی کاشت ہوتی ہے کم  گیا ہے ، تاہم، محمود نے بتایا کہ فی ایکڑ پیداوار میں دس گنا اضافہ ہوا ہے- انہوں نے کہا کہ ان کا انسٹی ٹیوٹ ، سی سی آر آئی 1970 سے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے بیکار نہیں بیٹھا- 

“ہم نے گذشتہ 50 سالوں میں فی ایکڑ فصل میں اضافہ کرنے کے لئے 30 اعلی پیداوار دینے والے کپاس  کے بیجوں کو کامیابی کے ساتھ تیار کیا ہے اور اس کی منظوری بھی دی ہے- یہ اقسام بیماریوں اور کیڑوں کے خلاف مزاحم ہیں اور خشک سالی مقابلہ کرسکتی ہیں۔ ساتھ ہی زیادہ پیداوار بھی دیتی ہیں” ، محمود نے مزید بتایا- 

عبدالله  کے مطابق یہ تمام پیشرفت پچھلے چار سالوں میں ہوئی ہے- عبدالله مزید بتاتے ہیں،” 2016 سے پہلے ، کپاس کی فصل ایک برے وقت سے گزری تھی۔ ہم کم معیار کی روئی تیار کررہے تھے اور وہ بھی ، ناکافی مقدار میں ، لہذا کافی روئی درامد کرنا پڑی”- 

بلوچستان نے نامیاتی راستہ اختیار کیا

ایک اور حوصلہ افزا پیشرفت بلوچستان کے قبائلی علاقوں سے ہوئی ہے ، جہاں چھوٹے کاشتکار زمین پر نامیاتی کپاس کاشت کر رہے تھے جو کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات سے پاک ہے اور آخر کار گذشتہ سال انھیں سند بھی مل گئی۔ کپاس کیمیائی کھاد یا کیڑے مار دوا استعمال کیے بغیر کامیابی کے ساتھ اُگائی گئی تھی اور بیجوں کو جینیاتی طور پر تبدیل بھی نہیں کیا گیا تھا- 

اس منصوبے کا آغاز ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے سن 2015 میں بلوچستان کے ڈائریکٹوریٹ آف ایگریکلچر ایکسٹنشن کے تعاون اور سی اینڈ اے فاؤنڈیشن کی مالی معاونت کے ساتھ کیا تھا۔

ہم نے 6،000 کسانوں کے ساتھ کام کیا جنہوں نے 16،000 ایکڑ اراضی پر 9،500 گانٹھیاں تیار کیں۔ جیساکہ کاشتکاروں نے پیداواری لاگت پر بچت کی ، لیکن قدرتی طور پر پیداوار کم تھی کیونکہ بیج کو جینیاتی طور پر تبدیل نہیں کیا گیا تھا اور کھاد کا استعمال نہیں کیا گیا تھا” اس منصوبے کی قیادت کرنے والے  ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اسد عمران بتاتے ہیں۔

” لیکن  اس کی تلافی زیادہ قیمت وصول کر کے ہوگئی کیونکہ یہ  کپاس نامیاتی تھی”-