پانی

پاکستانی صحراؤں کی سوغات

عمرکوٹ کے صحراؤں میں جاری خواتین کی کاوشوں نے اپنا ثمر دکھانا شروع کردیا ہے- یہ کاوش ناصرف غذائی بلکہ روزگار کے خاطر خواہ مواقعے فراہم کررہی ہے-
اردو
<p>An old woman holds the fruit of the initiative in her hands [image by: Manoj Genani]</p>

An old woman holds the fruit of the initiative in her hands [image by: Manoj Genani]

   پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے رتنور گاؤں کی خواتین نے رواں سال پہلی فصل کی خوشی منائی ہے۔

یہ کوئی عام فصل نہیں ہے گزشتہ پانچ سال سے اس پر کام ہورہا ہے کیونکہ پانی کی قلّت والے علاقوں میں درختوں کی افزائش کے لئے اضافی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے- لیکن پھر عمرکوٹ کے صحراؤں میں اگنے والی ہر فصل خاص ہی ہوتی ہے- یہ صحرائی علاقہ ہے جہاں پانی نہایت کم دستیاب ہے اور جو دستیاب ہے وہ کھارا پانی ہے- 

اس سفر کا آغاز 2015 میں  ہوا جب دس خواتین نے بیری پھل (جوجوب) کے پچاس درخت جنگلی بیری کی پیوندکاری کے ساتھ لگاۓ- ان خواتین کی باغ انتظامات کی تربیت ایک مقامی سول سوسائٹی کی تنظیم – سمیع فاؤنڈیشن نے ایکشن ایڈ پاکستان اور اریز زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (AZRI) عمرکوٹ کے تعاون سے کی تھی۔

دھیلی اپنے پودوں کو پانی دینے کے لئے جا رہی ہیں -( تصویر بشکریہ منوج گنانی
دھیلی اپنے پودوں کو پانی دینے کے لئے جا رہی ہیں -( تصویر بشکریہ منوج گنانی

ان میں سے ہے ایک خاتون پانچ درختوں کی انچارج ہے- یہ خواتین ہر دوسرے دن دو گھنٹے درختوں کو پانی دینے گھاس پھونس صاف کرنے اور نامیاتی کھاد لگانے میں صرف کرتی ہیں- 

“مجھے خوشی ہوتی ہے جب کوئی ہمارے باغ کا ذکر کرتا ہے” دھیلی کہتی ہیں جوکہ پروجیکٹ کی ایک رکن ہیں- “اس سخت موسم میں رتنور گاؤں کے لوگوں نے صحرا میں بیری پھل کے درخت اگاۓ ہیں”-

“پانی کی ایک ایک بوند اھم ہے”

ضلع عمرکوٹ اور تھرپارکر کے صحرا مسلسل خشک سالی کی زد میں ہے-  یہاں ایک باغ ہونا کسی خواب سے کم نہیں- صحرا میں پانی کا ایک قطرہ بھی اہمیت رکھتا ہے- خواتین کے گروپ کے سب سے بڑے حمایتی سمیرو میگھوار نے وضاحت کی- لوگوں کو  پانی اکٹھا کرنے کے لئے کافی تک و دو کرنا پڑتی ہے- زمینی پانی کھارا ہے لہذا ہم شہر سے پانی کے ٹینکر خریدتے ہیں جس کی قیمت 6،000-8،000 روپے (39-52) امریکی ڈالر ہے- سمیرو میگھوار کہتے ہیں- ورنہ لوگ گاؤں سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع آرمی واٹر کلیکشن پوائنٹ سے پانی لے کر ہیں- شروع میں ، سمیرو میگھوار نے قریبی اسپتال سے استعمال شدہ مریضوں کے ڈرپ خریدے- انہوں نے ڈرپ میں تھوڑی تبدیلی کر کے ہر جوجوب پودے کے لئے ایک منفرد ڈرپ اریگیشن سسٹم بنایا- ایک سال تک اسی طرح کام چلتا رہا ، اور پھر لوگوں نے اگلے دو سالوں تک مٹی کو پانی دینے کے لئے  5 5 لیٹر کے کین خریدے- 

سمیرو میگھوار گاؤں میں خواتین کے اس پروجیکٹ کے سب سے بڑے حامی ہیں -( تصویر بشکریہ منوج گنانی)
سمیرو میگھوار گاؤں میں خواتین کے اس پروجیکٹ کے سب سے بڑے حامی ہیں -( تصویر بشکریہ منوج گنانی)

جیسے جیسے پودے بڑھتے گۓ انکی پانی کی ضرورت بھی بڑھتی گئی- لوگوں نے اپنے نہانے دھونے  پینے اور کھانا پکانے سے زیادہ پانی ان باغوں کو دینا شروع کردیا- ایک کنبے کے تمام افراد روزانہ گھروں کے لئے پانی اکٹھا کرنے میں دو گھنٹے سے زیادہ کاوقت صرف کرتے ہیں- جب گھریلو ضروریات سے زیادہ پانی باغ میں استعمال ہونے لگا تو پانی جمع کرنے کی کوشش میں بڑھ گئیں-

ہسپتالوں سے حاصلکردہ ڈرپس کو صاف کرکے تھوڑی تبدیلی کے بعد ڈرپ اریگیشن کے لئے استعمال کیا – ( تصویر بشکریہ منوج گنانی)

جب میگھوار مجھے باغ کے لئے پانی جمع کرنے کے بارے میں بتا رہے تھے ، تب ڈھیلی باغ سے سوکھے پتے اور گھاس جمع کرنے اور پودوں کے نیچے رکھنے میں مصروف تھیں تاکہ مٹی میں نمی برقرار رہے- 

” ہم نے ان پودوں کو اپنے بچوں کی طرح پروان چڑھایا ہے” ڈھیلی کہتی ہیں- ” ہم ہر لمحہ اپنے باغ کے لئے پانی کا انتظام کرنے نامیاتی کھاد کا بندوبست کرنے پودوں کے بیچ خالی جگہوں میں سبزیاں اگانے کا سوچتے- اس سال ہم نے اپنی بیاہتا بیٹیوں کو جوجوب پھلوں کے تحائف بھیجے”-  گروپ کی دوسری عورتوں نے بھی یہی کیا اورسوغات دوسروں کے ساتھ بانٹی-

پہلی بڑی فصل 

میگھوار نے بتایا کہ گاؤں نے 15،000  روپے (97 امریکی ڈالر) میں بیری بیچی ہیں- تقریبا 40 فیصد فصل گاؤں والوں ، خاص کر بچوں اور خواتین کے درمیان بانٹ دی گئی ، صحرا کے دیگر دیہاتوں میں رہنے والی بیٹیوں کو تقریبا 80 کلو پھل موسم کی سوغات کے طور پر بھیجے گئے- سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ، عمرکوٹ کیمپس میں پلانٹ پیتھالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ، محمد اسماعیل بھٹی نے کہا کہ جوجوب  بلکل کھجور کی طرح ہے: میٹھا اور ریشہ سے بھرپور- جوجووب ضروری وٹامنز اور اینٹی آکسیڈینٹس سے بھرپور اور خاص طور پر وٹامن سی سے مالامال ہیں- اس سے جلد کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے ، آزاد ریڈیکلز کا مقابلہ ہوتا ہے اور بیماریوں کو دور رکھ کر قوّت مدافعت کو تقویت ملتی ہے- محمد اسماعیل بھٹی نے کہا کہ اس طرح کے باغات میں توسیع سے غذائیت کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں اور عمرکوٹ اور تھرپارکر کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں خواتین ، بچوں اور حاملہ دودھ پلانے والی خواتین میں غذائیت کی کمی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ 

ابتداء میں ، 2015 میں ، ہمیں یقین نہیں تھا کہ صحرا میں ایسی منظر بھی دیکھنے کو ملے گا- پروجیکٹ میں شامل ایک خاتون سوندری نے اعتراف کرتے ہوۓ کہا-  یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک خواب پورا ہوجائے۔ ہر ایک ، خاص طور پر خواتین کا گروپ ، بہت پرجوش تھا کیونکہ ان کی محنت رنگ لائی-

ں 2017 میں ایک خاتون پروان چڑھتے پھلوں کے باغ میں کھڑی ہیں- (تصویر بشکریہ منوج گنانی )

مستقبل کی طرف 

پانی تک رسائ اہم مسئلہ ہے ، خاص طور پر پانی کی ترسیل میں لگنے والی لاگت-  گاؤں والوں نے بتایا کہ زمینی پانی زیادہ کھارا نہیں ہے ، لہذا اس کو باغ کے آس پاس سبزیوں کی کاشت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مزید کام کرنے کے لئے – درختوں ، سبزیوں اور فصلوں کی تعداد میں اضافے کے لئے – انہیں پریشر یا شمسی توانائی سے چلنے والے  پمپ لگانے کی ضرورت ہوگی- جس پر ایک بار بڑی لاگت آۓ گی- 

ایک عورت لیموں کے پودےپکو پانی دے رہی ہے ، جو جوجووب پودوں کے بیچ لگایا گیا ہے- (تصویر بشکریہ منوج گنانی )

سمیع فاؤنڈیشن میں سندھ ڈراٹ ریزیلینس پروگرام کے پروجیکٹ منیجر حیدر علی نے کہا کہ اگر برادری کے لوگ مارچ سے جون تک یعنی مون سون تک کے باغ میں پانی کا انتظام کرلیں تو اگلے چار ماہ (جولائی- اکتوبر) کا انتظام ہوجاۓ گا- سردیوں میں نمی بخارات میں زیادہ نہیں بنتی- انہوں نے مزید کہا کہ جوجووب کے درخت شہد کی مکھیوں کو راغب کرتے ہیں ، اور اگر زیادہ درخت لگائے جائیں تو اس سے دیہاتیوں کے لئے معاش کے مزید مواقع حاصل ہوسکتے ہیں۔ 

دیکھیں: ٹڈیوں کا طوفان 

اس سال خواتین کو غیر متوقع چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب   اگست اور نومبر 2019 کے بیچ ٹڈیوں کےایک دل نےانکی فصلوں پر حملہ کردیا- خواتین نے اپنی پانچ سال کی محنت ضائع نہ ہونے دی- دھیلی نے بتایا “ہم نے متحد ہوکر ٹن کے ڈرم بجا بجا کر اور آگ جلا کر دھویں سے ٹڈیوں  کو بھگایا – لیکن جیسے ہی ایک جھنڈ بھاگا دوسرا نمودار  ہوگیا- لیکن ہم نے  ہمّت نہ ہاری اور دن رات محنت کرتے رہے اور ٹڈیوں کو ہماری فصل کا ایک پتا تک نہیں کھانے دیا”-