icon/64x64/climate آب و ہوا

دریاۓ سندھ کے پانیوں کی قلّت کا واحد حل ایک مؤثر آبپاشی نظام ہے

حسن عبّاس کہتے ہیں کہ بڑے بڑے اسٹرکچر کھڑے کر کے کھیتوں کو سیلاب سے تباہ کرنے کی بجاۓ ایک مؤثر آبپاشی نظام جنوبی ایشیا میں پانی کے مسائل حل کرسکتا ہے-
<p>[:en]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:ne]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:hi]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:bn]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:ur]دریاۓ سندھ میں کشتیاں &#8211; تصویر بشکریہ حسن عبّاس[:]</p>

[:en]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:ne]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:hi]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:bn]Boats along the Indus River [image by Hassan Abbas][:ur]دریاۓ سندھ میں کشتیاں – تصویر بشکریہ حسن عبّاس[:]

 

 فریڈ پیئرس اپنی کتاب وین دی ریورز رن ڈرائی (When The Rivers Run Dry ) میں لکھتے ہیں،”دنیا کے اکثریت ممالک میں، زراعت پانی کا سب سے بڑا صارف ہے اور پانی کی قلت کا سب سے بڑا سبب ہے- اور اسی میں مسئلہ کا حل پوشیدہ ہے”- سنڈرا پوسٹل اپنی کتاب دی لاسٹ اوسز (The Last Oasis ) میں لکھتی ہیں، ” پانی کی مؤثر بچت کے لئے ٹیکنالوجی اور طریقہ کار موجود ہیں اور پہلے سے زیر استعمال طریقوں کے ذریعہ کاشتکار پانی کی طلب چالیس سے نوے فیصد کم کرسکتے ہیں”-

جنوبی ایشیا میں زراعت کے لئے پانی کی کم ز کم اسی فیصد شدید طلب ہے اگر اسے ایک دسواں حصّے تک کم کردیا جاۓ تو پانی کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے- یعنی پانی کی قلّت جس سے متعلق اتنا شور شرابہ کیا جارہا ہے اسکی اصل وجہ غیرمؤثر آبپاشی نظام ہے-

مثال کے طور پر ایک نظر سندھ طاس پر ڈالتے ہیں- سنہ ١٩٥٠ کے اختتام میں پاکستان اور انڈیا کے بیچ پانی کی تقسیم سے متعلق ایک معاہدہ تیار کیا گیا تھا جسکے ذریعہ دریاؤں سے زیادہ سے زیادہ پانی نکالنے کی حوصلہ افزائی کی گئی، جس میں طویل مدتی تحفظ پذیری کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی- آج کی عالمی سوچ قدرتی وسائل کے استعمال کے ساتھ ساتھ تحفظ پذیری کو بھی اولین عنصر گردانتی ہے، لیکن سندھ طاس کے پانی کا نظام آج بھی سنہ ١٩٥٠ کی سوچ کا غلام ہے، جس کا ماننا ہے کہ دریاؤں میں رہ جانے والے پانی کا ایک ایک قطرہ “غیر استعمال شدہ” ہے اور سندھ طاس تک پہنچنے والا پانی ضائع سمجھا جاتا ہے-

آبی فراوانی کا کلچر

سندھ طاس میں آبی نظام پر قرضوں سے بنائی گئی بڑی بڑی تنصیبات کا غلبہ رہا ہے، جنکی توجہ پانی کی طلب پوری کرنے کے لئے مناسب انتظامات کے بجاۓ صرف اسکی کی کثرت سے فراہمی پر مرکوز ہے- ان پروجیکٹس سے حاصل ہونے والے وافر مقدار میں پانی سے آبی فراوانی کا کلچر تخلیق ہوا ہے جس میں پانی کی بچت کا تصور نہیں- سیلابی آبپاشی کے ذریعہ پانی کا زیاں ہی زندگی کا دستور بن گیا ہے- پانی کے منتظمین اور صارفین دونوں ہی پانی کی فراوانی کے غیرحقیقی تصور میں کھوۓ ہیں اور یہی سندھ طاس کے پانیوں کی مناسب بچت اور مؤثر پریکٹس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے-

انجینرنگ کے ذریعہ پانی نہیں بنایا جاسکتا لیکن پانی کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہے یا اسکا رخ ایسی جگہ موڑا جاسکتا ہے جہاں یہ پہلے موجود نہیں تھا بہرحال اس صورت میں سابقہ علاقہ پانی سے محروم ہوجاتا ہے- بڑے ڈیموں اور پانی کے رخ میں تبدیلی کے منفی ماحولیاتی نتائج، سماجی اثرات اور معاشی سائیڈ افیکٹس فی الحال غیرواضح ہیں کیونکہ وقت اور جگہ کے لحاظ سے انکا تعین مستقبل میں ممکن ہے- مثال کے طور پر، بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں لگائی گئیں تنصیبات یا پاکستانی جموں کشمیر کا منگلہ ڈیم کے اثرات کو لے لیجیے جنہوں نے پچاس سال بعد سندھ طاس میں پانی کی قلّت، تلچھٹ اور زرخیز زمین کے نقصان کی شکل میں ایک ہزار کلومیٹر تک زیریں آبادیوں کو متاثر کیا- کوئی بھی انجینرنگ یا مالیاتی طریقہ کارایسا نہیں بنایا گیا جو ان اثرات کا جائزہ لے سکے، زیریں کمیونٹیز اور ماحول کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ تو دور کی بات ہے-

ہمارے آبپاشی نظام کی ناپائیداری تیزی کے ساتھ واضح ہورہی ہے- جان بریسکو اور عثمان قمر، اپنی کتاب پاکستان واٹر اکانومی رننگ ڈرائی ( Pakistan’s Water Economy Running Dry ) میں پاکستانی پنجاب کے سندھ طاس کودنیا کا سب سے غیرمؤثر آبپاشی خطّہ بتاتے ہیں- زیادہ آبپاشی کی وجہ سے زمین سیم و تھور کا شکار ہوگئی ہے، جسکی وجہ سے سیلینٹی کنٹرول اور ریکلیمشن پروجیکٹس (SCARP ) کو زیرزمین پانی کی بحالی پر کام کرنا پڑا-

بہرحال ایک بار پھر ان پروجیکٹس پر انجینرنگ اور قرضوں کا غلبہ رہا اور ان علامات کا علاج تنصیباتی حل( پائیپوں/نالوں اور ٹیوب ویل کے نیٹ ورک وغیرہ ) میں ڈھونڈا گیا جبکہ اصل سبب (غیرمؤثر آبپاشی نظام ) کو نظرانداز کردیا گیا- اس طرح علامات پر مرتکز حل سماجی، ماحولیاتی اور مالیاتی اعتبار سے غیرمستحکم ثابت ہوۓ ہیں- SCARP کے ٹیوب ویلز ترک کرنے پڑے اور بہت سے کیسز میں پائپس/ نالوں نے مسئلے کو آغاز کی بجاۓ نقطہ اختتام پر شفٹ کردیا- ان نالوں کے ذریعہ جو تھور زدہ فضلہ نشیبی علاقوں، نہروں اور بہتے پانیوں میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے اس کے ماحولیاتی اثرات پر کم ہی بات کی جاتی ہے- ان میں سے بہت سے نالے اور پائپس بند ہوچکے ہیں- اپنے بدبودار ٹھہرے ہوۓ پانی کی وجہ سے ناصرف یہ نالے علاقے کی خوبصورتی پر دھبّہ ہیں بلکہ ان میں مچھروں اور دیگر بیماریوں کی افزائش کی وجہ سے آبادیوں کے لئے مسلسل پریشانی کا باعث ہیں-

غیرمؤثر آبپاشی نظام تمام خرابیوں کی جڑ ہے

اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ سندھ طاس سے وابستہ تقریباً تمام حالیہ مسائل کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ غیرمؤثر آبپاشی سے ہے، چاہے وہ ڈیلٹا کا کٹاؤ ہو، ماحولیاتی آلودگی، مٹی کی آلودگی، پانی کی قلّت، انسانی صحت، سنگین سیلاب، زراعی پیداوارمیں کمی، زیر زمین پانی کی آلودگی یا پانی کی تقسیم جیسے مسائل ہوں-

بدقسمتی سے، سندھ طاس کی سطح پر اب تک جتنے بھی کام کے گۓ ہیں ان میں دائمی پائیداری کے مقابلے میں عارضی موزونیت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے- ڈیموں اور دریاؤں کے رخ موڑنے کے لئے بلین ڈالرز کے پروجیکٹس اب بھی تجویز کیے جارہے ہیں- لیکن اس پیمانے پر طلب کے مناسب انتظامات اور طاس بھر میں بہتر آبپاشی نظام کے لئے کبھی کوئی تجویز پیش نہیں کی گئی-

بہرحال، خوش قسمتی سے، عالمی سوچ ماحول دوستی کے حوالے سے آج زیادہ باشعور ہوگئی ہے—- حالیہ مستحکم ترقی کے اہداف Sustainable Development Goals (SDGs اس بات کا ثبوت ہیں- سندھ طاس کے حصّہ دار تمام ممالک SDGs کے دستخط کنندگان ہیں، اور سندھ طاس کی شکل میں انہیں باہمی تعاون، کوآرڈینیشن اور عزم کے ساتھ اس کاز کو آگے بڑھانے بہترین موقع ملا ہے-

طریقہ کار بدلیں، طلب کا انتظام و اںسرام بہتر کریں

بڑے اسٹرکچرز کے ذریعہ پانی کی فراہمی کی بجاۓ پانی کی فراہمی کا مربوط نظام، آبپاشی کی ٹیکنالوجی، پالیسیز، قانون سازی، ادارے، استعدادی تعمیر، پانی کی قیمتوں کا تعین اور کاروباری ماڈلز وغیرہ کے ذریعہ آبی طلب کا بہتر انتظام کیا جاۓ تب ہی اس خطّے کی قسمت بدل سکتی ہے- یہ اقدامات آبپاشی کی طلب کوممکنہ حد تک نوے فیصد تک کم کرسکتے ہیں، نتیجتاً آبی رخ میں انتہائی تبدیلی کی ضرورت بھی نہ رہے گی-

نہروں کو پائپوں سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور رخ تبدیل کرنے والے بیراجوں کو دریا کے کنارے پانی کے ویل-فیلڈز سے، جو آب پاشی-پائپ نیٹ ورک کو پانی فراہم کرتے رہیں- کھیتوں کو پائپوں کے ذریعہ پنہچنے والا میٹرشدہ پانی آبپاشی کے مؤثر نظام کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے- قدرت کی منشاء کے مطابق سیلابی میدانوں میں چکراتے، مٹی کی بھرائی کرتے، زیرزمین دریائی پانی کی ذخیرہ کاری کرتے آزاد بہتے دریا ہی پانی کا دیرپا ذریعہ بن سکتے ہیں- زیرزمین دریائی پانی کا ممکنہ ذخیرہ زرعی سیکٹر کو خشک سالی سے بچاۓ گا، اور ماحولیاتی بہتری اور سماجی بہبود لاۓ گا-

اس کے لئے ضروری ہے کہ پالیسی ساز ایسا میکانزم تیار کریں جو آبپاشی کے سیکٹر کو مؤثر بناۓ اور ابھرتی ہوئی بہتر ٹیکنالوجیز کی تشہیر کریں تاکہ وہ کھیتوں تک قابل رسائی ہوں- ساتھ ہی، وہ معاشی ادارے جو بہتے دریاؤں اور گرین ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، انہیں پانی کے لئے تجارتی و اساسی قیمت شامل کرنے کو کہا جاۓ جو واپس ماحول کو ملے- اگر اگلی آدھی صدی تک اس اپروچ نے اپنی جگہ بنا لی تو بڑے بڑے ڈیموں اور دریائی رخ میں بڑی تبدیلی کے منصوبے رفتہ رفتہ ختم ہوجائیں گے اور انکی جگہ آزاد بہتے دریا لے لیں گے-

حسن عبّاس، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی، یو ایس اے سے ہائیڈرولوجی اینڈ واٹر ریسورسز میں پی ایچ ڈی رکھتے ہیں- ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے-

اپنی راۓ دیجیے

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.